اقوام متحدہ اور دہشت گردی

کون روتا ہے کسی اور کی خاطر ائے دوست
سب کو اپنی ہی کسی بات پر رونا آیا
اقوام متحدہ اور دہشت گردی
فرانس کے دارالحکومت پیرس میں حملے کے بعد دولت اسلامیہ کے خلاف عالمی طاقتوں کا متحد ہوجانا سابق کی طرح ایک اور جنگ کی جانب پیشرفت ہے۔ افغانستان میں القاعدہ اور طالبان کے خلاف امریکی زیرقیادت جنگ کے 14 سال بعد بھی آج دنیا دہشت گردی سے پاک نہ ہوسکی۔ القاعدہ کے سربراہ اُسامہ بن لادن کی موت کے بعد اگرچیکہ یہ گروپ مردہ ہوگیا لیکن اس سے وابستہ ارکان کے نئے گروپ نے اپنی جگہ بنالی اور اس نئے گروپ کو ’’داعش‘‘ کا نام دیا گیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا تسلسل یوں ہی چلتا رہے تو ہر علاقہ میں انسانی جانوں کو ضائع کرنے والے واقعات کا تدارک ہرگز نہیں ہوگا۔ اقوام متحدہ سلامتی کونسل نے متفقہ طور پر قرارداد منظور کرتے ہوئے تمام ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ نام نہاد دہشت گرد تنظیم ’’دولت اسلامیہ‘‘ کے خلاف جنگ میں شامل ہوں۔ اس سلامتی کونسل نے 2003ء میں صدام حسین کے خلاف جنگ کیلئے امریکہ کو اختیارات دیئے تھے۔ یہاں سے شروع ہونے والی کارروائیوں کا تسلسل افغانستان سے ہوکر شام اور پھر دیگر علاقوں تک پھیل گیا ہے۔ دولت اسلامیہ یا داعش کو اپنی سرزمین عراق یا شام میں مغربی و یوروپی طاقتوں نے ناکام بنانا شروع کیا تو اس گروپ کے ہاتھ فرانس تک پہونچ گئے۔ غور طلب امر یہ ہے کہ اقوام متحدہ، دہشت گردی کے خلاف جنگ کی ضرورت اس وقت ہی محسوس کرتا ہے جب امریکہ، فرانس یا کوئی اور یوروپی ملک متاثر ہوتا ہے۔ داعش نے یوروپ، امریکہ، فرانس سے ہٹ کر دیگر علاقوں میں ہزاروں انسانوں کو موت کے گھاٹ اُتارا ہے۔ افغانستان میں القاعدہ نے تباہی مچائی تھی۔ اس تنظیم کی وجہ سے عراق، شام، آفریقہ اور پاکستان میں متاثر رہے تھے، مگر اقوام متحدہ نے کوئی قرارداد منظور نہیں کی۔ سوال یہ ہے کہ آیا انسانی جانوں اور قدروں کا امتیاز اور انصاف کی سطح مختلف ہوتی ہے۔ انصاف کا تقاضہ تو یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی علاقہ میں جب انسانی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہو تو عالمی ادارے متحرک ہوجائیں لیکن اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا رویہ صرف موافق مغرب اور یوروپ میں دکھائی دیتا ہے۔ انصاف اور مساوات پر توجہ دی جائے تو انسانی قدروں کے لئے ایک عظیم کام انجام دینے میں مدد ملے گی۔ فرانس میں حملے کے فوری بعد اقوام متحدہ نے قرارداد منظور کرکے ساری دنیا پر زور دیا کہ وہ داعش کے خلاف محاذ آرائی کی تیاری کریں۔ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی جارحیت اور فلسطینی عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم تو نظر انداز کرتے ہوئے انصاف کی بات کی جائے تو یہ دوہری پالیسی کا بدترین مظاہرہ کہلاتا ہے۔ یہودی طاقتوں کے خلاف کسی بھی طاقت نے آواز نہیں اٹھائی۔ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی من مانی اور فلسطینیوں کی زندگیوں کو اجیرن بنانے ان کی زمین پر قبضہ کے ذریعہ توسیع پسندانہ عزائم پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ اگر انصاف کا معیار یہی کہلاتا ہے تو پھر عالمی ادارہ کی غیر جانبداری اور اس کی افادیت ختم ہوجائے گی۔ دہشت گردی تمام انسانیت کی عام دشمن ہے۔ اس کو عالمی رواداری کی جانب سے اگر کسی مخصوص ملک کے لئے مختص کردیا جاتا ہے تو پھر انصاف کا خون ہوجاتا ہے۔ 9/11 کو امریکہ پر حملے کے بعد سے امریکہ کو ایک کے بعد ایک گروپس کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ امریکہ پر حملوں کے بعد سے ساری دنیا میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا، مگر اس کا یہ مطلب اخذ نہیں کیا جاتا کہ القاعدہ یا داعش ہی جنگیں جیت کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتہ بھی پیرس میں حملے کو داعش کی کامیابی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ القاعدہ کا خاتمہ کرنے کے بعد کامیابی کا جشن منانے والے امریکہ کے لئے داعش کی شکل میں نیا گروپ پہلے گروپ سے زیادہ شدید چیلنج بن گیا ہے۔ پیرس کے بعد مالی اور اب بلجیم میں دہشت گردی ایک گول میز پر بیٹھ کر اپنے مستقبل کے لائحہ عمل کو قطعیت دے کر یہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے اپنی بڑی ذمہ داری ادا کی ہے۔ اصل ذمہ داری اور فرض تو یہ ہے کہ تمام دنیا کے انسانوں کو دہشت گردوں سے آزاد کرالیا جائے۔ پیرس میں صرف ایک ہی حملہ کے بعد سلامتی کونسل دہشت گردی کے خلاف جنگ کی اپیل کرتا ہے تو یمن، فلسطین، شام اور دیگر ملکوں کے عوام پر ہونے والے حملوں اور اموات پر ماتم کون کرے گا؟