اقلیتی بہبود کی اجرائی کا موقف مایوس کن

1200 کروڑ میں صرف 270 کرو ڑ خرچ،شادی مبارک ، اسکالرشپ، فیس بازادائیگی جیسی اہم اسکیمات متاثر
حیدرآباد ۔ 31۔اکتوبر (سیاست نیوز) اقلیتی بہبود کیلئے تلنگانہ حکومت کے دعوے ایک طرف اور اسکیمات پر بجٹ کے خرچ کا معاملہ باعث تشویش ہے۔ حکومت نے معاشی بحران کے پیش نظر تمام فلاحی اسکیمات کا بجٹ روکنے کیلئے محکمہ فینانس کو ہدایت دی ہے۔ اس ہدایت کے تحت دیگر محکمہ جات کی طرح اقلیتی بہبود بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔ مالیاتی سال 2016-17 ء کے تین سہ ماہی گزر چکے ہیں لیکن حکومت نے اقلیتی بہبود کیلئے جو بجٹ جاری کیا ہے، وہ انتہائی ناکافی ہے۔ جاریہ سال حکومت نے اقلیتی بہبود کیلئے 1200 کروڑ روپئے مختص کئے تھے لیکن قارئین کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ عملاً صرف 270 کروڑ روپئے ہی جاری کئے گئے۔ تازہ ترین اعداد و شمار جو سیاست کے پاس دستیاب ہے اس کے مطابق کئی اہم اسکیمات کیلئے بجٹ کی اجرائی  غیر اطمینان بخش ہے ۔ شادی مبارک، اسکالرشپس اور فیس بازادائیگی جیسی اسکیمات کیلئے حکومت نے بجٹ میں مقررہ رقم جاری نہیں کی۔ چیف منسٹر کو پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق تین سہ ماہی گزرنے کے باوجود 25 اقلیتی اسکیمات پر 270 کروڑ 95 لاکھ روپئے خرچ کئے گئے ۔ 28 اکتوبر کے تازہ ترین اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ محکمہ فینانس میں 249 کروڑ 57 لاکھ روپئے کی اجرائی سے متعلق بلز زیر التواء ہے۔ ان کی اجرائی طویل عرصہ سے نہیں کی گئی اور اگر یہ رقم جاری کردی جائے تو جاریہ سال اقلیتی بہبود پر خرچ کی گئی رقم بڑھ کر 635 کروڑ ہوگی۔ اب جبکہ مالیاتی سال کا آخری سہ ماہی قریب ہے، اقلیتی بہبود کیلئے مختص کردہ نصف بجٹ کا خرچ بھی ممکن نظر نہیں آرہا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار حکومت کے ان دعوؤں کی نفی کرتے ہیں، جس میں اقلیتی بہبود کیلئے بھاری رقومات خرچ کرنے کی بات کی جارہی ہے۔ اسکالرشپ کیلئے 50 کروڑ روپئے بجٹ میں مختص کئے گئے تھے اور ابھی تک ایک روپیہ بھی جاری نہیں کیا گیا ۔ اسی طرح فیس ری ایمبرسمنٹ کیلئے 223 کروڑ روپئے مختص کئے گئے اور صرف 66 کروڑ 31 لاکھ روپئے ہی خرچ کئے گئے ہیں۔ فیس بازادائیگی کی یہ صورتحال طلبہ اور اقلیتی کالجس کیلئے پریشان کن بنی ہوئی ہے۔ اقلیتی کالجس فیس کیلئے طلبہ پر دباؤ بنارہے ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ کئی کالجس معاشی بحران کا شکار ہیں۔ بینکوں سے مربوط سبسیڈی اسکیم کیلئے بجٹ میں 150 کروڑ روپئے مختص کئے گئے تھے لیکن صرف  34 کروڑ 50 لا کھ روپئے ہی خرچ کئے گئے۔ دائرۃ المعارف کیلئے مختص کردہ 3 کروڑ میں سے صرف 75 ہزار ہی جاری ہوئے ہیں۔ اردو گھر شادی خانوں کی تعمیر کردہ مختص کردہ 23 کروڑ میں سے 5 کروڑ 75 لاکھ خرچ کئے گئے۔ وقف بورڈ کی امداد اور امام اور مؤذنوں کے اعزازیہ کیلئے 16 کروڑ 25 لاکھ روپئے جاری کئے گئے جبکہ بجٹ میں 65 کروڑ روپئے مختص کئے گئے تھے ۔ سروے کمشنر وقف کو دو کروڑ میں سے صرف 50,000 روپئے ہی جاری ہوئے ہیں۔ سی ای ڈی ایم اور تلنگانہ حج کمیٹی کو علی الترتیب 75,000 اور 2 کروڑ 25 لاکھ روپئے جاری کئے گئے جبکہ دونوں کا بجٹ فی کس 3 کروڑ روپئے ہے۔ حج کمیٹی نے صرف 75 ہزار روپئے خرچ کئے ہیں اور دیڑھ کروڑ روپئے کے بلز محکمہ فینانس میں زیرالتواء ہیں۔ پری میٹرک اسکالرشپ کیلئے 7 کروڑ 27 لاکھ روپئے خرچ کئے گئے جبکہ 20 کروڑ روپئے کے بلز محکمہ فینانس میں زیر التواء ہیں۔ شادی مبارک اسکیم کیلئے بجٹ میں 150 کروڑ مختص کئے گئے تھے اور ابھی تک 19 کروڑ 79 لاکھ خرچ کئے گئے  جبکہ 21 کروڑ کے بلز زیر التواء ہیں۔ اوورسیز اسکالرشپ کیلئے بجٹ میں 30 کروڑ مختص کئے گئے تھے جبکہ 15 کروڑ جاری کئے گئے۔ 6.87 کروڑ خرچ کئے گئے اور 8 کرو ڑ روپئے کی اجرائی محکمہ فینانس سے ابھی باقی ہے۔ اس طرح مجموعی طور پر 1200 کروڑ میں سے 635 کروڑ 36 لاکھ کی ا جرائی عمل میں آئی اور 270 کروڑ 95 لاکھ روپئے خرچ کئے گئے ۔ 249 کروڑ 57 لاکھ کے بلز محکمہ فینانس کی منظوری کے منتظر ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ محکمہ اقلیتی بہبود کو آئندہ 5 ماہ میں مزید 502 کروڑ 26 لاکھ کی اجرائی کی ضرورت ہوگی۔