اقلیتی بہبود بجٹ کی اجرائی اور خرچ کی صورتحال انتہائی مایوس کن

محکمہ کے عہدیدار بھی ابتری کے لیے برابر ذمہ دار ، حکومت کے اعلانات کے مطابق رقم جاری نہیں ہوئی
حیدرآباد ۔ 31 ۔ جنوری (سیاست نیوز) اقلیتی بہبود کے بجٹ کی اجرائی اور خرچ کے سلسلہ میں ایک طرف حکومت کو دلچسپی نہیں تو دوسری طرف محکمہ اقلیتی بہبود کے عہدیدار بھی موجودہ صورتحال کیلئے برابر کے ذمہ دار ہیں۔ اب جبکہ مالیاتی سال 2016-17 ء کا آئندہ ماہ ختم ہوگا۔ اقلیتی بہبود کیلئے بجٹ کی اجرائی اور خرچ کی صورتحال انتہائی مایوس کن ہے ۔ چیف منسٹر نے اسمبلی کے سرمائی اجلاس کے آخری دن 18 جنوری کو اقلیتوں کیلئے کئی اعلانات کئے تھے جن میں بجٹ کی اجرائی کا وعدہ بھی شامل ہے لیکن تاحال حکومت کی جانب سے اعلانات کے مطابق بجٹ جاری نہیں کیا گیا۔ حیرت اس بات پر ہے کہ اقلیتی بہبود کے اعلیٰ عہدیدار حکومت سے زائد بجٹ حاصل کرنے کے بجائے چیف منسٹر اور محکمہ فینانس کے عہدیداروں کو بجٹ کی اجرائی کے بارے میں غلط تصویر پیش کر رہے ہیں جس سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ حکومت نے تقریباً 70 فیصد جاری کردیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مختلف اسکیمات اور اداروں کو صرف پہلے سہ ماہی کا بجٹ جاری کیا گیا۔ محکمہ اقلیتی بہبود کی جانب سے تیار کردہ اعداد و شمار کے مطابق 1200 کروڑ کے منجملہ 876 کروڑ کی اجرائی کا دعویٰ کیا جارہا ہے لیکن یہ دعوے صرف کاغذ پر ہے۔ حقیقت سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ محکمہ اقلیتی بہبود کے عہدیداروں نے حکومت کو بجٹ کی اجرائی کے سلسلہ میں جاری کردہ کاغذی احکامات سے واقف کرایا لیکن محکمہ فینانس سے حقیقی معنوں میں جاری کردہ تفصیلات بیان نہیں کی جس سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ اقلیتی بہبود کا بجٹ کافی حد تک جاری ہوچکا ہے ۔ کئی اقلیتی اداروں کو صرف پہلے سہ ماہی کا بجٹ جاری ہوا جبکہ دوسرے اور تیسرے سہ ماہی کے سلسلہ میں احکامات تو جاری ہوئے لیکن محکمہ فینانس نے ابھی تک رقم جاری نہیں کی۔ اقلیتی فینانس کارپوریشن کے معاملے میں تو صورتحال اور بھی ابتر ہے۔ پہلے سہ ماہی کے بجٹ سے 12 کروڑ روپئے ابھی تک جاری نہیں ہوئے لیکن کاغذی طور پر چوتھے سہ ماہی کے بجٹ کی اجرائی کے احکامات جاری کردیئے گئے ۔ احکامات کی اجرائی اور حقیقی معنوں میں بجٹ جاری کرنے میں کافی فرق ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ دو ماہ قبل تک بھی اقلیتی بہبود کے بجٹ سے صرف 270 کروڑ روپئے خرچ کئے گئے تھے اور اب جبکہ مالیاتی سال اختتام پذیر ہے، مجموعی بجٹ سے 500 کروڑ کے خرچ کی اطلاعات ہیں۔ اگر 500 کروڑ کے خرچ کو تسلیم کرلیا جائے تو جاریہ سال 700 کروڑ روپئے سرکاری خزانہ میں واپس ہوجائیں گے۔ بتایا جاتا ہے کہ اقلیتی بہبود کے عہدیداروں نے بجٹ کے حصول کے سلسلہ میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جس باعث محکمہ فینانس نے رقومات جاری نہیں کی ہیں۔ ریاست میں مالیاتی بحران کے سبب حکومت نے فلاحی اسکیمات کے سارے بجٹ کو منجمد کردیا تھا۔ اس کا سب سے زیادہ اثر اقلیتی بہبود کی اسکیمات پر پڑا ہے اور کئی اسکیمات جاریہ سال رقم نہ ہونے کے سبب شروع نہیں کی جاسکیں۔ حکومت نے آئندہ مالیاتی سال کیلئے اقلیتی بہبود کے بجٹ کی تیاری کے سلسلہ میں عہدیداروں سے تفصیلات حاصل کیں تو محکمہ ا قلیتی بہبود کے اعلیٰ عہدیداروں نے گمراہ کن تفصیلات روانہ کی جس کے ذریعہ حکومت کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی اور بتایا گیا کہ ابھی تک 876 کروڑ روپئے جاری کئے جاچکے ہیں۔ مذکورہ تفصیلات میں بجٹ کے خرچ کا کوئی تذکرہ نہیں ہے ۔ اگر اقلیتی بہبود کے عہدیدار خود اس طرح کی عدم دلچسپی کا مظاہرہ کریں گے تو پھر محکمہ فینانس کو رقم جاری کرنے میں کیونکر دلچسپی ہوگی ۔ باوثوق ذرائع کے مطابق جاریہ سال ابھی تک صرف 400 کروڑ روپئے خرچ کئے گئے ہیں جن میں زیادہ تر حصہ داری شادی مبارک ، اسکالرشپ ، فیس ری ایمبرسمنٹ جیسی اسکیمات کی ہیں۔ گزشتہ سال 1100 کروڑ کے منجملہ 556 کروڑ روپئے جاری کئے گئے تھے جبکہ 2014 ء میں اقلیتی بہبود کیلئے صرف 332 کروڑ جاری کئے گئے ۔