اقلیتی اقامتی اسکولس کی مستقل عمارتوں کیلئے اراضیات کی نشاندہی کا آغاز

ضلع کلکٹرس کو مرکزی مقامات پر اراضی کی نشاندہی کی ہدایت ۔ شہری حدود میں نزاع سے پاک اراضی کا حصول مشکل
حیدرآباد۔/30اگسٹ، ( سیاست نیوز) تلنگانہ میں اقلیتوں کیلئے قائم کردہ 71 اقامتی اسکولس کی مستقل عمارتوں کی تعمیر کیلئے اراضیات کی نشاندہی کا کام شروع ہوچکا ہے۔ حکومت نے ضلع کلکٹرس کو ہدایت دی ہے کہ وہ اہم اور مرکزی مقامات پر اراضی کی نشاندہی کریں تاکہ اقامتی اسکول کی عمارت تعمیر کی جاسکے جس میں تمام عصری انفراسٹرکچر سہولتیں موجود ہوں۔ دیہی علاقوں میں تقریباً 5 ایکر جبکہ شہری علاقوں میں ایک تا دو ایکر اراضی کی نشاندہی کا منصوبہ ہے۔ حکومت نے سرکاری اراضیات کی عدم دستیابی کی صورت میں اوقافی اراضیات کو حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاہم یہ فیصلہ تنازعہ کا سبب بن سکتا ہے۔ اوقافی اراضیات کو حکومت کی جانب سے حاصل کرنے کی کوششوں کی مختلف گوشوں سے مخالفت کی جارہی ہے۔ ریاست میں پہلے ہی کئی اہم اوقافی جائیدادوں و اراضیات پر حکومت قابض ہے اور انکے معاملات عدالتوں میں ہیں۔ وقف ایکٹ کے مطابق اوقافی اراضیات کے حصول کا حکومت کو کوئی اختیار نہیں اور وہ اگر چاہے تو وقف بورڈ سے لیز پر اراضی حاصل کرسکتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کو ایسی اراضیات کہاں دستیاب ہونگی جو کسی تنازعہ سے پاک ہوں اور جن کے معاملات عدالتوں میں زیر دوران نہ ہوں۔ گریٹر حیدرآباد کے حدود میں 10 اقامتی اسکولس قائم کئے گئے اور ان کیلئے سرکاری اراضیات کا حصول ہرگز ممکن نہیں کیونکہ شہری علاقوں میں کھلی سرکاری اراضی دستیاب نہیں ہیں ایسے میں میناریٹیز ریسیڈنشیل ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنس سوسائٹی کی نظریں اوقافی جائیدادوں پر ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ سوسائٹی کے عہدیداروں نے وقف بورڈ سے خواہش کی ہے کہ شہر میں اوقافی اراضیات کی نشاندہی کریں اور انہیں سوسائٹی کے حوالے کیا جائے۔ بتایا جاتاہے کہ حکومت یا سوسائٹی کی جانب سے ابھی تک تحریری درخواست نہیں کی گئی بلکہ عہدیدار صرف زبانی نمائندگی کررہے ہیں۔ اسی دوران وقف بورڈ ذرائع نے بتایا کہ گریٹر حیدرآباد کے حدود میں اوقافی اراضیات اس قدر وسیع رقبہ کی موجود نہیں جن پر اسکول تعمیر کیا جاسکے۔ ذرائع نے بتایا کہ وقف بورڈ کو اراضی کی فروخت یا اسے مفت حکومت کے حوالے کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے کیونکہ ہر جائیداد کا منشائے وقف ہوتا ہے۔ تاہم غیر متنازعہ اراضیات کو حکومت وقف بورڈ سے لیز پر حاصل کرسکتی ہے۔ ذرائع کے مطابق حیدرآباد میں ایک تا 3 ایکر رقبہ کی غیر متنازعہ اراضیات موجود نہیں۔ ڈپٹی چیف منسٹر محمد محمود علی نے ضلع کلکٹرس کو ہدایت دی تھی کہ وہ ریونیو یا پھر اوقافی اراضیات کی نشاندہی کریں تاہم ضلع کلکٹرس نے ابھی تک اس سلسلہ میں وقف بورڈ سے کوئی ربط قائم نہیں کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ دیہی علاقوں میں سرکاری اراضیات موجود ہیں تاہم مسئلہ گریٹر حیدرآباد کے حدود میں پیدا ہوگا۔ سوسائٹی چاہتی ہے کہ اسے تنازعہ پاک اراضیات حوالے کی جائیں ورنہ اسکول بھی تنازعہ کا شکار ہوجائیگا۔ بتایا جاتا ہے کہ شہری علاقوں میں اسکول کی تعمیر کیلئے وقف اراضی کی دستیابی آسان نہیں ہے لہذا کسی اور اراضی کے بارے میں سوسائٹی کو سوچنا پڑیگا۔ اوقافی جائیدادوں کے تحفظ سے متعلق تنظیموں نے بھی وقف اراضی کے حصول کی کوششوں کی مخالفت کی ہے۔ حکومت نے حال ہی میں لینکو ہلز کی 800ایکر کھلی اراضی وقف بورڈ کے حوالے کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن آج تک اس پر عمل آوری نہیں کی گئی۔ اگر حکومت اقامتی اسکولس کی ذاتی عمارتوں کی تعمیر میں سنجیدہ ہے تو وہ خانگی اراضیات خرید بھی سکتی ہے تاہم اسے مارکٹ کی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔