اقلیتی اداروں کے عہدیداروں کیلئے لاکھوں روپیوں کی لکثرری گاڑیاں

اسکیمات پر عمل غیر اطمینان بخش ، ہزاروں نوجوان اسکیمات کے لیے دفاتر کے چکر کاٹنے پر مجبور
حیدرآباد ۔ 31 ۔ اگست (سیاست  نیوز) تلنگانہ حکومت نے اقلیتی بہبود کیلئے نہ صرف بجٹ میں اضافہ کیا بلکہ کئی نئی اسکیمات کا اعلان کیا۔ اسکیمات پر عمل آوری کی ذمہ داری عہدیداروں پر ہے لیکن عوام کو اسکیمات کے فوائد پہنچنے میں دشواریوں کا سامنا ہے۔ ایک طرف ہزاروں اقلیتی نوجوان اسکیمات کے فوائد حاصل کرنے کیلئے اقلیتی بہبود کے دفاترکے چکرکاٹ رہے ہیں تو دوسری طرف عہدیداروں کو اسکیمات پر عمل آوری سے زیادہ اپنی سہولتوںکی فکر ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ایسے وقت جبکہ کئی اسکیمات پر عمل آوری کی رفتار غیر اطمینان بخش ہے، دو اقلیتی اداروں نے لاکھوں روپئے مالیتی لکژری گاڑیاں خریدی ہیں۔ اقلیتی فینانس کارپوریشن نے 17 لاکھ روپئے مالیتی دو انووا گاڑیاں خریدیں جبکہ تلنگانہ حج کمیٹی نے ایک گاڑی خریدی ہے۔ حج ہاؤز میں واقع اقلیتی بہبود کے دفاتر میں اپنی درخواستوں کی یکسوئی کیلئے پہنچنے والے ہزاروں غریب طلبہ عہدیداروں کی ان چکا چوند گاڑیوں کو دیکھ کر حیرت میں ہیں۔ بتایا جاتاہے کہ اقلیتی فینانس کارپوریشن نے اس کے پاس موجود تین کروڑ روپئے کی سود کی رقم سے یہ گاڑیاں خریدی ہیں جبکہ تلنگانہ حج کمیٹی کو حکومت نے نئی گاڑی کی خریدی کی اجازت دی اور یہ گاڑی حکومت کو جاری کردہ بجٹ کی رقم سے خریدی گئی ہے۔ تلنگانہ میں اقلیتوں کی پسماندگی کا اعتراف خود حکومت نے کیا ہے لیکن عہدیدار اپنی سہولتوں کے بارے میں کوئی سمجھوتہ کرنے تیار نہیں۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ محکمہ اقلیتی بہبود کے عہدیداروں کی تعداد سے زیادہ لکژری گاڑیاں آچکی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ لکژری گاڑیوں کی خریدی کے بجائے عہدیدار اس رقم کو اسکیمات پر خرچ کرتے۔ اسکالرشپ ، فیس بازادائیگی ، اقلیتی طلبہ و طالبات کیلئے ہاسٹلس و اقامتی مدارس کے قیام اور اوورسیز اسکالرشپس جیسی اہم اسکیمات کیلئے مکمل بجٹ جاری نہیں کیا گیا لیکن عہدیداروں نے اپنے لئے لکژری گاڑیوں کی خریدی میں کوئی تاخیر نہیں کی۔ بتایا جاتا ہے کہ اقلیتی فینانس کارپوریشن میں ریاست کی تقسیم سے قبل 7گاڑیاں تھیں جن میں 2 گاڑیاں ناکارہ بتائی جارہی ہیں، 5 گاڑیوں میں 3 آندھراپردیش اور 2 تلنگانہ کے حصہ میں آئیں۔ کارپوریشن میں موجود ہونڈا سٹی گاڑی آندھراپردیش کو الاٹ کی گئی جس کے باعث موجودہ مینجنگ ڈائرکٹر تلنگانہ کیلئے کرایہ کی انووا گاڑی استعمال کی جارہی تھی۔ کارپوریشن میں جنرل مینجر کے زیر استعمال کوالیس گاڑی ہے۔ عہدیداروں کا کہنا ہے کہ تین کروڑ سے زائد کی سود کی رقم سے یہ گاڑیاں خریدی گئیں۔ کیا ہی بہتر ہوتا  کہ فینانس کارپوریشن سود کی اس خطیر رقم کا استعمال اقلیتوں کی بہبود پر کرتا۔ دوسری طرف حج کمیٹی میں کوئی گاڑی نہیں تھی کیونکہ کمیٹی میں صدرنشین اور اگزیکیٹیو آفیسر موجود نہیں ہے۔ موجودہ اسپیشل آفیسر جو اردو اکیڈیمی کے ڈائرکٹر بھی ہیں وہ اردو اکیڈیمی کی کرایہ پر حاصل کردہ انڈیگو گاڑی استعمال کر رہے تھے۔ حج کمیٹی میں گزشتہ ڈھائی سال سے نئی گاڑی کی خریدی کی کارروائی چل رہی تھی اور حکومت نے بجٹ کی رقم سے گاڑی خریدنے کی اجازت دیدی۔ حج کمیٹی میں ایک اسکارپیو گاڑی تھی جسے ناکارہ بتایاجارہا ہے ۔ وقف بورڈ میں صدرنشین اور چیف اگزیکیٹیو آفیسر کیلئے علحدہ گاڑیاں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر عہدیداروں کیلئے چار گاڑیاں ہیں۔ حکومت نے حال ہی میں ڈائرکٹر اقلیتی بہبود کو نئی گاڑی خریدنے کی اجازت دی تھی اور ان کے لئے انووا گاڑی خریدی گئی۔ نئی گاڑیوں کی خریدی کا یہ رجحان ان ہزاروں اقلیتی نوجوانوں کیلئے تکلیف دہ ہے جو روزانہ اپنی درخواستوں کا موقف جاننے کیلئے حج کمیٹی کے چکر کاٹ رہے ہیں۔