اقلیتوں کیلئے بجٹ رقومات میں اضافہ

مختص رقم خرچ نہیں ہوئی
بہت سے اعلانات پر عمل ندارد
چار سال وعدے دوہرانے میں گزر گئے

محمد نعیم وجاہت
تشکیل تلنگانہ کے بعد ایوان اسمبلی کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں میں یہ احساس پیدا ہورہا ہے کہ انھیں ہر اسمبلی اجلاس کی رپورٹنگ کیلئے موجود رہنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ کیوں کہ ہر اسمبلی اجلاس کے دوران وہی اعلانات اور وعدے دہرائے جانے لگے ہیں۔ ٹی آر ایس اقتدار کے تقریباً 4 سال میں اسمبلی کے 9 اجلاس کے علاوہ دو خصوصی اجلاس میں سوائے حکومت کی تشہیر کے کوئی کارآمد بات نظر نہیں آئی۔ ٹی آر ایس نے تحریک کے دوران اقتدار حاصل ہوتے ہی ریاست کو سنہرے تلنگانہ میں تبدیل کرتے ہوئے مساوی اور سماجی انصاف کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ ان وعدوں پر عمل آوری میں ناکام حکومت ایوان کو باقاعدہ چلانے کے بجائے عددی طاقت کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے اپوزیشن پر حاوی ہونے کی کوشش کی ہے۔ ریاست تلنگانہ یا متحدہ آندھراپردیش کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اصل اپوزیشن کے بغیر بجٹ شاید ہی کبھی منعقد ہوا تھا۔ حکومتیں اپنی کامیابی عوام تک پہونچانے کے لئے اسمبلی کے فلور کا استعمال کرتی ہیں لیکن حکومت تلنگانہ نے اپنی ناکامیوں کی پردہ پوشی کی جو حکمت عملی تیار کی ہے وہ قابل اعتراض ہے۔ جس کی ہر طرف سے مخالفت ہورہی ہے۔ ریاستی حکومت نے اصل اپوزیشن کے اخراج کے ذریعہ تعمیر، تنقید اور تنقید برائے تنقید دونوں ہی کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے جس میں ہر شہری کو اظہار خیال کی آزادی ہے مگر حکومت کو آئینہ دکھانے والوں کو برداشت نہیں کیا جارہا ہے۔ ایوانوں میں حکمران جماعت کا غاصبانہ رویہ ہندوستان جیسی عظیم جمہوریت کے لئے مذاق کا موضوع بنا ہوا ہے۔ عوام بڑی اُمیدوں سے اسمبلی اور لوک سبھا کے لئے اپنے اپنے حلقوں سے ارکان کا انتخاب کرتے ہوئے ایوانوں کو روانہ کرتے ہیں اور وہ اُمید کرتے ہیں ان کے منتخبہ نمائندے مسائل کو حل کرانے اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی میں اہم رول ادا کریں گے مگر بیشتر ارکان اپنے حلقوں کے عوام کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے میں ناکام ہورہے ہیں۔

اب حال یہ ہوگیا کہ سیاسی جماعتوں نے مقدس مقام کا درجہ رکھنے والے ایوانوں کو جنگ کے میدان میں تبدیل کردیا ہے۔ تلنگانہ بجٹ اجلاس کے آغاز پر دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے گورنر نرسمہن کے خطبہ کے دوران جو کچھ بھی واقعہ پیش آیا وہ کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہے۔ ایوان کوئی جنگ کا میدان نہیں ہے۔ دستوری عہدوں پر فائز رہنے والی شخصیتوں کا چاہے وہ کوئی بھی کیوں نہ ہو احترام کرنا لازمی ہوجاتا ہے۔ قانون ساز اداروں کی نمائندگی کرنے والوں کو مثال قائم کرنے کی ضرورت ہے، مگر ان پر حملہ کرنا درست نہیں ہے۔ صدرنشین تلنگانہ قانون ساز کونسل سوامی گوڑ کا زخمی ہوجانا افسوسناک ہے۔ اسمبلی کو بھی قاعدے قانون سے چلانا اسپیکر اور حکومت دونوں پر برابر کی ذمہ داری عائد ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ جب تک اسمبلی سے ارکان کو معطل کرنے کی قرارداد منظور نہیں کی جاتی تب تک مارشل ایوانوں میں قدم نہیں رکھ سکتے مگر پہلی مرتبہ قرارداد منظور کرنے سے قبل 40 تا 50 مارشلس کو ایوان میں دیکھا گیا۔ احتجاج کرنا نعرے بازی کرنا پلے کارڈس تھام کر مسائل کی سنجیدگی کو ظاہر کرنا ارکان کے حقوق میں شامل ہیں اور یہی روایت ہے اور برسوں سے اس پر عمل ہورہا ہے۔

مگر پہلی مرتبہ دیکھا گیا ہے کہ کانگریس کے ارکان اسمبلی کے احتجاج پر مارشلس ان کی نشستوں کے قریب پہونچ گئے، انھیں پوڈیم کے قریب پہونچنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ حکومت نے جو الزام عائد کرتے ہوئے کانگریس کے دو ارکان اسمبلی کی رکنیت منسوخ کی ہے، اگر وہ حقائق پر مبنی ہے تو کانگریس کے ارکان اسمبلی کا رویہ بھی غلط ہے۔ حکومت نے ہیڈ فون پھینک کر مارننے سے سوامی گوڑ کی آنکھ زخمی ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے کانگریس کے دو ارکان اسمبلی کومٹ ریڈی وینکٹ ریڈی اور سمپت کمار کی اسمبلی رکنیت منسوخ کرتے ہوئے 11 ارکان اسمبلی اور 6 ارکان قانون ساز کونسل بشمول قائد مقننہ بجٹ سیشن تک معطل کردیئے گئے۔ واقعہ کے دوسرے دن یہ کارروائی ہوئی۔ تیسرے دن اسمبلی سے گزٹ نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے دو نشستیں مخلوعہ ہونے کی الیکشن کمیشن کو اطلاع دے دی گئی۔ غلطی کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے مگر کارروائی یکطرفہ یا قواعد کے خلاف بھی نہیں ہونی چاہئے۔ ویڈیو فٹیج میں قائدین مقننہ کو نہیں دکھایا گیا۔ مسئلہ کو اخلاقی اتیھیکس کمیٹی سے رجوع نہیں کیا گیا اور نہ ہی کوئی کمیٹی تشکیل دی گئی جس کی سفارش پر کوئی کارروائی ہوسکے۔ ہم حملے کی ہرگز مدافعت نہیں کررہے ہیں مگر صرف ماضی کے اوراق پلٹ رہے ہیں۔ کانگریس کے دور حکومت میں جب تلنگانہ کی تحریک عروج پر تھی موجودہ گورنر پر خطبہ کی کاپیاں پھاڑ کر ہریش راؤ اور ٹی آر ایس کے دوسرے ارکان اسمبلی نے ان پر پھینکی تھی۔ ٹیبل پر چڑھ کر ہنگامہ کیا گیا۔ گورنر کے ساتھ موجود ٹیبل چھین لیا گیا تھا۔ تب کے اسپیکر اور کانگریس حکومت نے ہریش راؤ کے علاوہ ٹی آر ایس کے دوسرے ارکان اسمبلی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ وہی ہریش راؤ جو آج اسمبلی اُمور کے وزیر بھی ہیں، کانگریس کے دو ارکان اسمبلی کی رکنیت منسوخ کرنے اور باقی کانگریس کے ارکان اسمبلی کو بجٹ سیشن تک معطل کرنے کی قرارداد منظور کردی۔

یہ کہاں کا انصاف ہے۔ کیا قانون ان کے لئے الگ ہے اور دوسروں کے لئے الگ ہے۔ دوسری جماعتوں سے کامیاب ہونے والے 25 ارکان اسمبلی کو ٹی آر ایس میں شامل کرلیا گیا۔ ان جماعتوں نے تین سال قبل ان ارکان اسمبلی کی رکنیت منسوخ کرنے کی اسپیکر اسمبلی سے نمائندگی کی مگر آج تک ان ارکان اسمبلی کے خلاف اسپیکر اسمبلی کی جانب سے سمن بھی جاری کرنا مناسب نہیں سمجھا گیا یہاں تک کہ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ نے بھی اسپیکر اسمبلی کو شکایتوں کا جائزہ لینے کا مشورہ دیا۔ مگر کانگریس کے دو ارکان اسمبلی کی رکنیت ختم کرنے کا ایک دن میں فیصلہ کیا گیا۔ ٹی آر ایس حکومت نے انتخابات سے قبل سال 2018-19 ء کا آخری مکمل 1.74 لاکھ کروڑ روپئے کا بجٹ پیش کیا جس میں اقلیتوں کے لئے 2 ہزار کروڑ روپئے کی گنجائش فراہم کی گئی ہے۔ اس سال بجٹ میں 800 کروڑ روپئے کا اضافہ کیا گیا۔ ٹی آر ایس ہر سال اقلیتی بجٹ میں بتدریج اضافہ کررہی ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ مکمل بجٹ کبھی خرچ نہیں کیا جارہا ہے۔ گزشتہ 4 سال کے دوران اقلیتی بجٹ میں 4.684 کروڑ روپئے کی گنجائش فراہم کی گئی مگر صرف 2,273 کروڑ روپئے ہی خرچ کئے گئے، یہ حقائق ہے۔ اس کو قبول کرنا ہی پڑے گا مگر حکمراں ٹی آر ایس کے اقلیتی قائدین نے کبھی بھی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے مسائل کی کبھی چیف منسٹر سے نمائندگی نہیں کی بلکہ حکومت کے ہر اقدام کی مدافعت کرنا، امام ضامن باندھنے، تصویر کو دودھ سے نہلانے تک محدود رہے۔ 4 سال کے دوران چیف منسٹر کے سی آر نے پارٹی کے مسلم قائدین سے فارم ہاؤز پر صرف ایک مرتبہ ملاقات کی۔ اس اجلاس میں جو بھی وعدے کئے اس کو بھی پورا نہیں کیا۔ مسلم قائد کو رکن راجیہ سبھا بنانے کا وعدہ کیا مگر اس کو بھی فراموش کردیا۔ 66 اُردو مترجمین کا 2 ماہ میں تقرر کرنے کا وعدہ کیا تھا 4 ماہ گزرنے کے باوجود وعدہ پورا نہیں ہوا۔ اسلامک کلچرل سنٹر کا 15 دن میں سنگ بنیاد رکھنے کا وعدہ کیا اس میں بھی 6 ماہ نکل گئے۔ انیس الغرباء یتیم خانہ کا 6 ماہ قبل سنگ بنیاد رکھا گیا، اب تک کوئی تعمیری کام شروع نہیں ہوا۔ جاریہ سال اقلیتی بجٹ میں 800 کروڑ روپئے کا اضافہ کیا گیا جس پر ٹی آر ایس کے اقلیتی قائدین جش منارہے ہیں۔

مگر گزشتہ سال کے بجٹ میں 500 کروڑ روپئے جاری نہیں کئے گئے۔ اس پر انھیں کوئی افسوس بھی نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس کو یاد رکھنا چاہتے ہیں۔ اردو گھر اور شادی خانوں کے لئے ہر سال بجٹ میں گنجائش فراہم کی جاسکتی ہے۔ اس سال بھی حکومت نے اس کے لئے 42 کروڑ روپئے مختص کئے ہیں۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلمانوں کو بتائے کہ گزشتہ 4 سال کے دوران کتنے اردو گھر اور شادی خانے تعمیر کئے گئے ہیں۔ تعلیم حکومت کی ذمہ داری ہے۔ کانگریس اور تلگودیشم کے دور حکومت میں اردو، تلگو اور دوسری زبانوں کے تعلیمی اخراجات حکومت ادا کرتی تھی۔ جاریہ سال بھی محکمہ تعلیم کے لئے 13,278 کروڑ روپئے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔ مگر حکومت نے ریسیڈنشیل اسکولس کا قیام عمل میں لاتے ہوئے اس کو محکمہ تعلیم میں شامل کرنے کے بجائے ایس سی، ایس ٹی، بی سی اور اقلیتی بہبود کے بجٹ سے جوڑ کر تعلیم کو مذہب و ذات پات سے جوڑ دیا۔ اقلیتی بجٹ 2000 کروڑ روپئے ہے مگر اس میں میناریٹیز ریسیڈنشیل اسکولس کے لئے 735 کروڑ روپئے حاصل کرلئے جارہے ہیں۔ جب محکمہ تعلیم کا بجٹ 13 ہزار کروڑ ہے تو اقلیتی بجٹ سے اقلیتی اقامتی اسکولس کے لئے فنڈس کیوں لئے جارہے ہیں۔ پجاریوں کو حکومت کی ٹریژری سے ماہانہ تنخواہ جاری کی جارہی ہے جبکہ ائمہ و مؤذنین کے لئے اعزازیہ کی اجرائی میں ٹال مٹول کی پالیسی اپنائی جارہی ہے۔ شہر حیدرآباد میں آئمہ و مؤذنین کے لئے 6 ماہ سے اور اضلاع میں 9 ماہ سے اعزازیہ کی رقم جاری نہیں کی گئی۔ سپریم کورٹ کی جانب سے مذہبی سبسیڈی برخاست کرنے کے احکامات جاری کرنے کے بعد مرکزی حکومت نے 700 کروڑ روپئے کی حج سبسیڈی فوری برخاست کردی۔ جبکہ حکومت تلنگانہ نے بجٹ میں منادر کی تعمیرات اور پجاریوں کی تنخواہ کے لئے 672 کروڑ روپئے مختص کیا ہے۔

وہیں مکہ مسجد اور شاہی مسجد کے لئے صرف 7 کروڑ روپئے مختص کئے گئے۔ واہ چیف منسٹر کے سی آر کی کیا اقلیت دوستی ہے۔ اور اقلیتوں کی ترقی کے معاملے میں وہ کتنے سنجیدہ ہیں بجٹ سے اندازہ ہورہا ہے۔ گورنر کے خطبہ اظہار تشکر سے خطاب کرتے ہوئے بجٹ پیش کرنے سے قبل چیف منسٹر کے سی آر نے پرانے شہر میں میٹرو ریل کے کام شروع کرنے کا اعلان کیا مگر اس کے لئے بجٹ میں کوئی رقمی گنجائش فراہم نہیں کی۔ واضح رہے کہ میٹرو ریل پبلک پرائیوٹ پراجکٹ ہے جس پر ایل اینڈ ٹی 90 فیصد اور ریاستی حکومت 10 فیصد فنڈس خرچ کررہی ہے۔ ایل اینڈ ٹی نے اپنی فہرست سے پرانے شہر میں میٹرو ریل کے تعمیری کاموں کو خارج کردیا ہے۔ مرکزی حکومت یا ریاستی حکومت ہی فنڈس مختص کرتی ہے تو کام شروع ہوسکتا ہے۔ ورنہ اس کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔ مرکز نے اپنے بجٹ میں بنگلور اور ممبئی کی میٹرو ریل کے لئے بجٹ دیا ہے مگر تلنگانہ کو نظرانداز کردیا ہے جس کے پہلے مرحلہ کا وزیراعظم نریندر مودی نے ہی افتتاح کیا تھا۔ باوجود اس کو مرکزی حکومت نے نظرانداز کردیا اور ریاستی حکومت بھی مرکزی حکومت پر دباؤ ڈالنے میں ناکام رہی۔ ٹی آر ایس نے اپنے انتخابی منشور میں غریب عوام کے لئے 2.72 لاکھ بیڈ روم مکانات تعمیر کنے کا وعدہ کیا تھا مگر 4 سال کے دوران صرف 5824 ڈبل بیڈ روم مکانات تعمیرات ہوئے ہیں جبکہ حکومت نے بجٹ میں صرف 2.643 کروڑ روپئے کی گنجائش فراہم کی ہے۔ ٹی آر ایس حکومت نے ایک لاکھ سے زائد سرکاری ملازمت فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر 4 سال کے دوران صرف 27 ہزار جائیدادوں پر تقررات کئے گئے ہیں۔ ہر تھوڑے دن میں ایک مرتبہ سرکاری ملازمتوں کیلئے اعلامیہ جاری کرتے ہوئے حکومت بے روزگار نوجوانوں میں اُمید جگاتی ہے۔ مگر تقررات کے عمل کو مکمل نہیں کیا جاتا ہے۔ طلبہ کو تین سال سے فیس ری ایمبرسمنٹ کے بقایا جات جاری نہیں کئے گئے۔ حکومت نے 4 سال کے دوران تقریباً 1.50 لاکھ کروڑ روپئے کا قرض حاصل کیا ہے جس پر سالانہ 11 ہزار کروڑ روپئے کا سود ادا کیا جارہا ہے۔ جاریہ سال حکومت نے مزید قرض حاصل کرنے کی منصوبہ بندی تیار کی ہے۔