اقتدار کی گاجریں کھانے کی آرزو

اے پی ڈائری خیراللہ بیگ

آندھرا پردیش میں آئندہ چند دنوں کے دوران سیاسی حالات بڑے پیمانے پر کروٹ لیں گے ۔ اقتدار کی گاجریں جن لوگوںنے مل بانٹ کر کھانے کا فیصلہ کیا ہے انھیں زیادہ نشستیں حاصل ہوں گی ۔ تلگو دیشم اور بی جے پی کا اتحاد بھی اسی اقتدار کی گاجر کھانے کی حرص کا حصہ ہے ۔ تلنگانہ میں تلگودیشم کو بی جے پی سے دوستی کا فائدہ ہونے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے ۔ الکٹرانک میڈیا بھی ایسی ایسی خبریں گھڑنے لگا ہے کہ لوگ حیران ہیں ۔ بی جے پی سے اتحاد کی باتوں سے قبل ریاست میں انتخابی سروے کے ذریعہ یہ بتایا جارہا تھا کہ وائی ایس آر کانگریس کو زبردست اکثریت ملے گی ، تلگودیشم پیچھے ہے ۔ ٹی آر ایس اور کانگریس میں برابر کی ٹکر ظاہر کی جارہی تھی جب بی جے پی سے اتحاد ہوا تو انتخابی سروے کا رخ راتوں رات تبدیل ہوگیا اور یہ کہا جانے لگا کہ تلگودیشم کو زبردست اکثریت حاصل ہوگی ۔ میڈیا کی آنکھ میں جھانکنے والے بھی ایسے چند لوگ ہیں جو اس طرح کی خبرگیری اور سروے کو بی جے پی کی کارپوریٹ لابی کی تشہیری مہم بتاتے ہیں ۔ بی جے پی نے الکٹرانک میڈیا کا خوب استعمال کرنا شروع کردیا ہے ۔

کارپوریٹ گھرانوں نے بی جے پی کو سر پر اٹھا کر اس کے گیت گاتے ہوئے جس طرح بھانگڑا ناچ ناچا ہے اس سے یہ آشکار ہوا ہے کہ تلگودیشم ۔ بی جے پی کو کامیاب بنانے کے پیچھے بھی بی جے پی کارپوریٹ لابی کا ہاتھ ہے ۔ یہ کارپوریٹ لابی وہی ہے جو آندھرا پردیش کے گیاس ذخائر کو لوٹ کر اپنا خزانہ بھر رہی ہے ۔ اسی کارپوریٹ لابی کے پر کاٹنے کی کوشش کرنے والے سابق چیف منسٹر وائی ایس راج شیکھر ریڈی کو راستے سے ہٹادینے کے شبہات کو تقویت مل رہی ہے ۔ بی جے پی کو اقتدار یا اس کی اتحادی پارٹیوں کو اقتدار پر لاکر آندھرا پردیش کے قدرتی وسائل کو اپنے تصرف میں لانے کا منصوبہ بنانے والے صنعتی اداروں کے تعلق سے عام آدمی پارٹی نے آواز اٹھائی ہے ۔

کارپوریٹ گھرانوں نے ملک اور ریاستوں کے اندر اپنے مفادات کا جال پھیلا کر خوب دولت کمائی ہے ۔ اس میں سے کچھ حصہ پارٹیوں کو بھی ملتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان دنوں ہر اس ریاست میں جہاں کارپوریٹ گھرانوں کو معدنی وسائل نظر آتے ہیں اپنی پسند کی پارٹی کو اقتدار پر لانے کی مہم چلاتے ہیں ۔ تلگودیشم نے بی جے پی سے دوستی کرکے اپنے ہی ہم وطنوں اور عوام کے حق کو سلب کرنے کی سمت پہلا قدم اٹھایا ہے ۔ یہ بی جے پی سرمایہ داروں کا کھاتہ بن کر لوٹ مار کررہی ہے ۔ اس نے یہ ملک یہ سرزمین ان کے وسائل اس کے کانوں ، اس کی زمین سب بی جے پی اور اس کے فرقہ پرست ٹولوں کی امانت سمجھی جارہی ہے ۔ یہاں کے عوام کو یہ سمجھنا ہوگا کہ پارٹیوں نے ان کے ساتھ کس طرح دھوکہ کیا ہے ۔ قانون کے ساتھ کھلواڑ کرنا ان پارٹیوں کا شوق ہے ۔ ترقی کے خواب دیکھنا غریب عوام کی ذمہ داری ہے ۔ ملک و ریاستوں کی دولت اس کی حفاظت کے بہانے لوٹ کھسوٹ کرنا ان کا قومی فریضہ مانا جاتا ہے جبکہ اس ملک کے شہری سڑکوں پر بے اماں پھرتے اور مرتے رہتے ہیں ۔

گیاس کی قیمت ہو کہ پٹرول و ڈیزل کی شرحیں ہر روز بڑھتی ہیں تو ضروری اشیاء کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے ۔ یہ لوگ کارپوریٹ کے نام پر روزمرہ اربوں روپے اپنی تجوریوں ، بینک اکاونٹس ، غیر ملکی کاروبار میں جھونک دیتے ہیں ۔ ان کی مستقبل کی پیش بندی وہ کرتے ہیں جبکہ عوام کو بھوک سے ایڑیاں رگڑتے مرجانے چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ ریاست آندھرا پردیش کی صورتحال کو دیکھ کر آپ بھی سمجھ رہے ہوں گے کہ یہاں بی جے پی کو اچانک اہمیت کیوں دی جارہی ہے ۔ ریاست سے لیکر مرکز تک بی جے پی کے گیت گانے والی کارپوریٹ لابی ایک خطرناک پالیسی کے حصہ کے طور پر کام کررہی ہے ۔ اس لئے رائے دہندوں کو سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہئے ۔ بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھا گیا تو پھر اس کی رہی سہی سیاسی قوت بھی ختم ہوجائے گی ۔ کیوں کہ پارٹی کے اندر اب کوئی سینئر لیڈر اور سمجھدار آدمی نہیں ہے ۔ اس کو وہ لوگ لے کر چل رہے ہیں جن کے ہاتھوں پر مسلمانوں کا خون لگا ہے ۔ جن کے دامن داغدار اور پیشانی پر سیاہ داغ لگ چکا ہے ۔ تلگو دیشم نے اس پارٹی سے دوستی کرلی ہے تو اس کا سیاسی مستقبل بھی اس حشر کی دعوت دے گا جو ماضی کے دو انتخابات میں دیکھا گیا تھا ۔ جہاں تک تلنگانہ کا سوال ہے یہ نئی ریاست اپنے عالم وجود میں آنے سے پہلے ہی مختلف سیاسی خانوں میں بٹ رہی ہے ۔

ہر پارٹی تلنگانہ تحریک میں حصہ لینے کا معاوضہ سود سمیت حاصل کرنے کی کوشش کرے گی ۔ تلنگانہ کے قیام کے لئے تحریک چلانے والوں نے کامیابی حاصل کرلی ہے اس ریاست کو ایک مستحکم مقام بنانا ضروری ہے ۔ تحریک میں حصہ لینے والوں کو چاہئے کہ محنت سے حاصل کردہ ریاست کو نوچ نوچ کر لہولہاں کرنے والوں سے بچانا ضروری ہے ۔ تلنگانہ کے لوگوں کو بہتر طریقہ سے آگاہ ہونا چاہئے کہ کسی بھی مطالبہ کی تکمیل کے لئے جمہوری عمل کو جاری رکھنا اور اس کے حصول کے بعد بھی جمہوری طرز کی حکمرانی دینا ضروری ہوتا ہے ۔ اس سے عوام کے تمام مسائل کے حل کی راہ ہموار ہوتی ہے ۔ تلنگانہ عوام میں سیاسی شعور کی پختگی کا ہی نتیجہ ہے کہ آج انھیں نئی ریاست حاصل ہورہی ہے ۔ اس سیاسی پختگی کے مظاہرہ کے ساتھ عوام کو ایک اچھی حکومت بھی منتخب کرنی ہے ۔

عوام اس خیال کو غلط ثابت کردیں کہ ہر انتخابات میں عوام کبھی جیت نہیں سکتے صرف سیاسی پارٹیاں ہی جیت جاتی ہیں ۔ اس مرتبہ الیکشن کو عوام کی مرضی کے مطابق منعقد کرواکر عوام کی ہی جیت کو یقینی بنانے کی کوشش کی جانی چاہئے ۔ حکمت سے عاری قوم اپنے حق میں کچھ فیصلے نہیں کرسکتی اس تاثر کو غلط ثابت کرنے کے لئے قوم کو حکمت سے کام لینا چاہئے ۔ تاریخ سے یہی سبق ملتا ہے کہ قوموں کو اپنے آپ فیصلے کرنے ہوتے ہیں خاص کر مسلم قوم کو ان انتخابات میں ٹھوس فیصلے کرنے ہیں ورنہ ان کا ووٹ بٹ کر کمزور کردے گا ۔ تلگودیشم نے بی جے پی سے اتحاد کرلیا ہے ۔ کانگریس کو آزمایا جاچکا ہے ۔ ٹی آر ایس نے مسلمانوں کو کسی خاطر میں نہیں لایا ہے تو پھر ان کی اپنی سیاسی جماعت کے آزمودہ نسخوں پر ہی کب تک عمل کیا جائے ۔ کسی نئی طاقت کو ابھرنے اور ایک مضبوط سیاسی قوت اس راستے کی سمت قدم اٹھانے پر دھیان نہیں دیا جانا بہت بڑی کاہلی ہوگی ۔ تلگو دیشم بی جے پی کے ناپسندیدہ اتحاد کے بعد سی پی آئی ، سی پی ایم اور دیگر سیکولر پارٹیوں کو اپنا سیاسی میدان وسیع کرنے کی ضرورت ہوگی ۔

ٹی آر ایس ہر وقت یہی کہہ رہی ہے کہ وہ تلنگانہ کی تقدیر بدل کر رکھ دے گی ۔ مسلمانوں کو سیاسی موقف عطا کئے بغیر وہ تلنگانہ کو بدل کر رکھ دینے کا اعلان صرف نیم دلانہ طرز پر کررہی ہے ۔ تلنگانہ کے چیف منسٹر بننے کی خواہش میں کے چندر شیکھر راؤ نے اقلیت کو چھوڑ کر دلت کارڈ کھیلنے کی کوشش شروع کردی ہے ۔ تلنگانہ کا پہلا چیف منسٹر دلت طبقہ سے ہوگا تو یہ صرف سیاسی اور انتخابی حربہ ہے ۔ چندر شیکھر راؤ کو از خود چیف منسٹر بننے کی خواہش ہے تو وہ کسی دلت کو موقع کس طرح دیں گے ۔ ٹی آر ایس میں اقتدار کی بڑھتی ہوس کو دیکھ کر ہی کانگریس سے نکل کر ٹی آر ایس میں آنے والے جی وویک نے ٹی آر ایس چھوڑ کر دوبارہ کانگریس میں شمولیت اختیار کرلی ہے تو پھر اندازہ کرنے میں دیر نہیں ہونی چاہئے کہ ٹی آر ایس کو بھی اتنا ہی اقتدار عزیز ہے جتنا کانگریس کو ہے ۔ پھر دلت کو چیف منسٹر بنانے یا مسلمانوں کو نظر انداز کردینے کے حربے سب وقت آنے پر سیاسی کھونٹے پر ٹانگے جائیں گے ۔ چندر شیکھر راؤ نے جی وویک کے خلاف ڈاکٹر بی آر امبیڈکر اوپن یونیورسٹی کے سوشیالوجی پروفیسر کو ٹکٹ دینے پر غور کیا ہے ۔ پداپلی سے وہ مقابلہ کرتے ہیں تو پھر سیاسی نتیجہ کیا برآمد ہوگا یہ تو 16 مئی کو معلوم ہوگا ۔
kbaig92@gmail.com