اقتدار کا فرض ادا کرنے میں تساہلی کیوں

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
سیاستدانوں کا فرض اپنے صحیح فیصلوں سے قوم کی تعمیر اور ترقی کو یقینی بنانا ہے اور حقیقی معنوں میں یہ فرض ادا کرنے کے لئے اقتدار تک پہونچنے کی جدوجہد بھی کی جاتی ہے جو بالکل جائز بلکہ ضروری ہے۔ تلنگانہ ریاست کے قیام کیلئے جدوجہد کرنے والے اور بھوک ہڑتال کے ذریعہ ساری دنیاکی توجہ مبذول کرانے والے چندر شیکھر راو کو اقتدار تک پہونچنے میں کامیابی ملی تو اب وہ عوام سے کئے گئے اپنے انتخابی وعدوں کی تکمیل کیلئے قلابازیاں کھاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ایک مدبر کی حقیقی مسرت اقتدار یا منصب تک پہونچنے سے نہیں، منصب کے تقاضے پورے کرنے سے پھوٹتی ہے۔

قلعہ گولکنڈہ سے یوم آزادی پرچم لہرانے کا فیصلہ کرنے والے چیف منسٹر کے سی آر کو اپنی یوم آزادی تقریر میں نئی ریاست تلنگانہ کے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے ٹھوس منصوبوں کا اعلان و عملی مظاہرہ کرنے کے جذبہ کو شامل کرنا ہوگا۔ مسلمانوں کو 12فیصد تحفظات دینے کا وعدہ کرنے والے چیف منسٹر اپنے اس عمل میں پیچھے ہیں۔ اس طرح برقی کی سربراہی، کسانوں کے قرضوں کا مسئلہ بھی رینگ رہا ہے۔ طلباء کے لئے کونسلنگ اور فیس ری ایمبرسمنٹ کا مسئلہ دونوں ریاستوں آندھرا پردیش اور تلنگانہ کے درمیان تنازعہ کا باعث بنا ہوا ہے۔ دونوں ریاستوں کی حکومتوں نے تلنگانہ کے قیام کے دو ماہ بعد بھی اپنی روز مرہ کارکردگی کوموثر بنانے کی کوشش نہیں کی ہے۔ دونوں چیف منسٹرس ایک دوسرے پر جارحانہ طور پر الزام و جوابی الزام عائد کرتے آرہے ہیں۔ کئی ایسے مسائل ہیں جو فوری حل چاہتے ہیں۔ تلنگانہ حکومت کو درحقیقت عدالتوں کے فیصلوں کا سامنا ہے اس کے باوجود وہ اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے تیار ہی نہیں ہے۔ حکومت آندھرا پردیش متواتر گورنر ای ایس ایل نرسمہن سے نمائندگی کرتے ہوئے دونوں ریاستوں کے مشترکہ مسائل کی یکسوئی کے لئے زور دے رہی ہے کیونکہ چندرا بابو نائیڈو کا کہنا ہے کہ تلنگانہ کے چیف منسٹر نے بالادستی کا مظاہرہ شروع کیا ہے۔ مرکزی وزیر شہری ترقی وینکیا نائیڈو نے بھی دونوں ریاستوں کے تنازعہ کو دور کرنے مصالحت اور مذاکرات کے لئے ثالثی کا رول ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ چندر شیکھر راؤ کے خلاف شکایت ہے کہ وہ اے پی ری آرگنائزیشن ایکٹ کو تسلیم کرنے تیار نہیں ہیں۔ وہ اس ایکٹ کی صریح خلاف ورزی کررہے ہیں۔ چیف منسٹر آندھرا پردیش اس شکایت کے ساتھ نمائندگیوں پر نمائندگیاں کررہے ہیں۔

آچاریہ این جی رنگا اگریکلچرل یونیورسٹی جیسے اداروں کا نام تبدیل کرنے پر بھی اعتراض ہورہا ہے۔چندر شیکھر راؤ کوئی بھی بڑا فیصلہ حکومت آندھرا پردیش سے مشاورت کئے بغیر ہی کررہے ہیں۔ ایسے میں گورنر کو دونوں چیف منسٹروں کے مسائل میں ثالثی کا رول ادا کرنا ہے ، اس سرد مہری یا خاموش جنگ سے عوا م کا بھلا نہیں ہوگا۔ دونوں حکومتوں کی کارکردگی میں ابتری کیلئے یہ دونوں ہی ذمہ دار ہوں گے۔ آندھرا پردیش کی حکومت کو تلنگانہ کی کارکردگی پر بے جا تنقیدیں کرنے کی کوشش بھی ترک کرنی ہوگی۔ چونکہ اب دونوں ریاستوںکے مسائل بھی منقسم ہوچکے ہیں لہذا آندھرا کے چیف منسٹر کو اپنی حکومت پر نظر رکھنی ہوگی اور تلنگانہ کو اپنے کام کاج سے مطلب رکھنا ہے۔ غیر ضروری مسائل پیدا کرنے سے جھگڑا لو قسم کا ماحول رونما ہوگا۔ عوام کو ہر دو ریاستوں کے چیف منسٹروں سے تبدیلی کی طاقت کے مظاہرے کی اُمید ہے۔ عوام کی معاشی زندگی ، تعلیمی مستقبل، روزگار اور ہر شعبہ میں تبدیلی و ترقی لانے کی جانب پالیسیاں بنانے اور کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات کم و بیش طئے ہے کہ کسی بھی ریاست میں اس وقت نتک کوئی کامیاب تبدیلی نہیں آسکتی جب تک حکومت اور اس کی قیادت ٹھوس فیصلے کرتے ہوئے اس پر عمل آوری کرے۔

حکمرانی کے کاموں میں جب تک کوئی مضبوط ہاتھ بٹانے والا نہ ہو تو وہ حکومت انجماد کا شکار ہوتی ہے۔ چندر شیکھر راؤ اور چندرا بابونائیڈو اس وقت کسی کا کھیل نہیں کھیل رہے ہیں بلکہ اپنی ریاستوں کے عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر حکمرانی کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ کیا چندرا بابو نائیڈو اس مرتبہ حکومت کا معاملہ دوسرے طریقہ سے انجام دینا چاہتے ہیں، وہ متحدہ آندھرا پردیش سے نکل کر اپنی الگ ریاست کے میدان میں آگئے ہیں، وہاں کسی اور کا کنٹرول نہیں ہے ۔ تلنگانہ پر نظر رکھ کر سنگینی کے سائے میں حکومت کی کارکردگی کے خدوخال تشکیل دینے کی کوشش نہ کریں۔ یہ بات کسی کو اچھی لگے یا بُری ہمارے موجودہ سیاسی ماحول میں یہی اُصول کارفرما ہے کہ کسی کے کاموں میں کوئی مداخلت نہ کی جائے۔ چیف منسٹر تلنگانہ کے لئے سب سے بڑی دشواری یہ ہے کہ اس وقت وہ صرف اعلانات اور تیقنات کی لہر پر اُڑ رہے ہیں۔ ان کے معلنہ کاموں کے نتائج جب سامنے آئیں گے تب ہی عوام کو یقین ہوگا کہ واقعی کے سی آر میں حکمرانی کی صلاحیتیں موجود ہیں۔

فی الحال دو ماہ کے اندر انہوں نے شہر حیدرآباد اور تلنگانہ کو صرف اعلانات اور تیقنات سے نوازا ہے۔ یہاں کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ یہ مسائل ہمہ رُخی ہیں۔ میونسپل اتھاریٹی اور دیگر محکموں جیسے پولیس نے کوئی مسئلہ حل نہیں کیا ہے۔ پینے کے صاف پانی کیلئے شہری پریشان ہیں۔ ڈرینج سسٹم ناقص ہے، ٹریفک جام مسئلہ مزید سنگین ہوگیا ہے۔ سرکاری عمارتوں کو نقصان پہنچانا ، انفراسٹرکچر کو تباہ کرنا، سڑکیں خراب اور غیر اطمینان بخش صاف صفائی کے مسئلہ پر حکومت کی توجہ ضروری ہے۔ کے سی آر اور ان کی ٹیم کے کام کاج کچھ اور ہی دکھائی دے رہے ہیں۔ رشوت کے بازار کو کم نہیں کیا گیا بلکہ ایک وزیر کے پاس کئی محکموں کے قلمدان ہیں تو محکمہ کی کارکردگی پر نظر رکھنا مشکل ہوجاتا ہے اور رشوت کا بازار گرم ہوجاتا ہے مگر تلنگانہ عوام کو اپنی نئی ریاست کے قیام کی آرزو کے ساتھ قیادت کی میٹھی گولیاں بھی ملی ہیں تو کچھ دنوں تک میٹھے خوابوں کے مزے لیکر اٹھیں گے، فی الحال انہیں آرام کرنے دیجئے۔ جب کوئی سیاسی جماعت مکمل طور پر گورننس کے فرائض سے ناآشنا ہوتی ہے تو پریشانیوں کا فلڈ گیٹ کھل جاتا ہے۔ آپ کو بہت جلد حالات کا اندازہ ہوجائے گا کہ تلنگانہ اور آندھرا کی حکومتوں نے اپنی عوام کو کیا دیا ہے۔ تلنگانہ کے چیف منسٹر کی پالیسی پر اختلاف نہیں کیونکہ جہاں کوئی پالیسی سرے سی ہی نہیں ہے تو اس پر اختلاف کیسا…؟

مسلمانوں کو 12فیصد تحفظات دینے کی پالیسی پر عمل آوری کرنا ہی ممکن نہ ہو تو شکوہ و شکایات کا سلسلہ چل پڑے گا۔ مسلمانوں کے حق میں صرف شکوہ ہی رہ جاتا ہے تو حکومت کے مفت خوروں کو کوئی پریشانی اور شرمندگی نہیں ہوگی۔ تلنگانہ کی آزادی کی خاطر سروں کی قربانی دینے والے لوگوں کو فراموش کرنے والوں سے اچھائی کی اُمید کون کرے گا…؟ نئی حکومتوں کی اندر ہی اندر جاری دھاندلیوں کا ابھی پتہ نہیں چلے گا۔ دونوں ریاستوں کے عوام کو کب تک اپنی حکومتوں کے عوامل اور نتائج کا انتظار کرنا پڑے گا۔
kbaig92@gmail.com