اقبال کی یوم پیدائش کی مناسبت سے اقبال کے چند خطوط : ادب کے حوالے سے

سرورالہدیٰ
جامعہ، ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی
اقبال کے چند ایسے خطوط میرے پیشِ نظر ہیں جن میں شعر و ادب کے مسائل زیربحث آئے ہیں۔ اس سلسلے میں اقبال کے اشعار سے بھی مدد لی جاسکتی ہے، لیکن خطوط میں ایک تخلیق کار شعر و ادب یا معاصر شعرا ادبا کے بارے میں جو کچھ لکھتا ہے اس کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ اقبال نے اپنے خطوط میں علمی و ادبی اور مذہبی معاملات کے علاوہ سیاسی اور سماجی صورتِ حال کی جانب بھی اشارے کیے ہیں اور ذاتی حالات بھی بیان کیے ہیں۔ ان خطوط کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اقبال نے خطوط نگاری کو کسی خاص موضوع یا مسئلے تک محدود نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ اقبال کے بعض خطوط کو پڑھتے ہوئے زمینی محبت کی آنچ بھی محسوس ہوتی ہے۔ اقبال کے مکاتیب کا مطالعہ کئی حوالوں سے کیا جاسکتا ہے لیکن اس وقت چند خطوط زیرمطالعہ ہیں جن سے اقبال کے نظریۂ شعر و ادب پر روشنی پڑتی ہے۔
اقبال وحشت کلکتوی کو ایک خط میں لکھتے ہیں:’’میں ایک عرصے سے آپ کے کلام کو شوق سے پڑھتا ہوں اور آپ کا غائبانہ مداح ہوں۔ دیوان تقریباً سب پڑھا اور خوب لطف اٹھایا۔ ماشاء اللہ آپ کی طبیعت نہایت تیز ہے اور فی زمانہ بہت کم لوگ ایسا کہہ سکتے ہیں۔ آپ کی مضمون آفرینی اور ترکیبوں کی چستی خاص طور پر قابلِ داد ہیں، فارسی کلام آپ کی طباعی کا ایک عمدہ نمونہ ہے۔ شعر کا بڑا خاصہ یہ ہے کہ ایک مستقل اثر پڑھنے والے کے دل پر چھوڑ جائے۔‘‘
اس خط سے ظاہر ہے کہ اقبال مضمون آفرینی اور تراکیب کی چستی کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اقبال کا یہ لکھنا کہ ہم نے آپ کے کلام سے خوب لطف اٹھایا وہ یہ لکھ کر ایک باذوق قاری ہونے کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ اقبال ادب کا تعمیری و افادی نظریہ رکھتے  تھے۔ ایسی صورت میں وحشت کے کلام سے لطف اٹھانا اس بات کا غمازہے کہ اقبال دوسروں کی تخلیقات کو اپنی شرطوں کے مطابق نہیں پڑھتے۔ اقبال نے اس خط میں اثرآفرینی کا بھی ذکر کیا ہے بلکہ وہ اسے شعر کا بڑا خاصہ کہتے ہیں۔ ہمارے بعض اہم شعرا نے اثرآفرینی کو شاعری کی بنیادی خوبی بتایا ہے۔ اکبر الہ آبادی کو لکھتے ہیں:
’’کل خط لکھ چکا ہوں، مگر آپ کے اس شعر کی داد دینا بھول گیا: جہاں ہستی ہوئی محدود لاکھوں پیچ پڑتے ہیں عقیدے، عقل، عنصر سب کے سب آپس میں لڑتے ہیں سبحان اللہ کس قدر باریک اور گہرا شعر ہے۔ ہیگل جس کو جرمن والے افلاطون سے بڑا فلسفی تصور کرتے ہیں اور تخیل کے اعتبار سے حقیقت میں ہے بھی افلاطون سے بڑا۔ اس کا تمام فلسفہ اسی اصول پر مبنی ہے۔ آپ نے ہیگل کے سمندر کو ایک قطرہ میں بند کردیا ہے یا یوں کہیے کہ ہیگل کا سمندر اس قطرے کی تفسیر ہے… کیمبرج کی تاریخ ہندوستان کے لیے جو مضمون اردو لٹریچر پر مجھے لکھنا ہے اس میں اس شعر کا ضرور ذکر کروں گا۔ اسی رنگ کے فلسفیانہ اشعار اور بھی لکھیے کہ خود بھی لذت اٹھاؤں اور اوروں کو بھی اس لذت میں شریک کروں۔‘‘
اقبال اکبر کے اس شعر کو گہرا اور باریک کہتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس شعر میں معنی کی کئی جہتیں ہیں۔ بلکہ اشارہ اس دقیق اور گہرے فلسفے کی طرف ہے جس کو اقبال نے دو مصرعوں میں بند کرنا کہا ہے۔ اقبال اکبر سے ایسے ہی اشعار کی فرمائش کرتے ہیں جن میں فلسفیانہ مضامین باندھے گئے ہوں۔ اقبال کے اس خط سے ظاہر ہے کہ ان کے نزدیک افکار کی کتنی اہمیت ہے۔ واضح رہے کہ یہاں لذت اٹھانے کا تعلق زبان و اظہار کی خوبیوں سے نہیں بلکہ فلسفیانہ رنگ سے ہے۔اقبال ، اکبر منیر کو ایک خط میں غور و فکر کی عادت ڈالنے کا مشورہ دیتے ہیں اور دوسری طرف روح کو شعر کا ماخذ قرار دیتے ہیں۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ غور و فکر میں بھی دماغ کا اہم رول ہوتاہے۔ غالباً دماغ سے اقبال کی مراد وہ شاعری ہے جس میں لفظی بازیگری اور صناعی کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوتا۔ ایسی شاعری تاثیر اور کیفیت سے خالی ہوتی ہے اسی لیے اقبال شعر کا ماخذ روح کو قرار دیتے ہیں۔ یہاں روح دل کے معنی میں ہی استعمال ہوا ہے۔ تخیل کی بے پایاں وسعتوں کو بھی اقبال مستحسن نہیں سمجھتے۔ وہ تخیل کو قابو میں رکھنے کے لیے دماغ کی ضرورت بھی محسوس کرتے ہیں۔ اقبال اپنے ایک اہم معاصر مولانا سید سلیمان ندوی کو لکھتے ہیں:’’شاعری میں لٹریچر بحیثیت لٹریچر کے کبھی میرا مطمحِ نظر نہیں رہا کہ فن کی باریکیوں کی طرف توجہ کرنے کے لیے وقت نہیں۔ مقصود صرف یہ ہے کہ خیالات کو مفید سمجھتا ہوں ان کو ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہوں کیا عجب کہ آئندہ نسلیں مجھے شاعر تصور نہ کریں اس واسطے کہ آرٹ غایت درجے کی جاں کا ہی چاہتا ہے اور یہ بات موجودہ حالات میں میرے لیے ممکن نہیں۔‘‘

اقبال نے بعض خطوط میں معاصرین کے کلام سے لطف اٹھانے کا ذکر کیا ہے مگر لطف اندوزی کا تعلق دل بہلانے یا تفریح سے نہیں ہے۔ اقبال اپنے کلام کے سلسلے میں شدت کے ساتھ اس بات کی وضاحت کرتے ہیں  ادب برائے ادب میرا نظریہ کبھی نہیں رہا۔ وہ دوسروں کا کلام پڑھتے وقت بعض اوقات اپنی شرطوں کو سختی کے ساتھ بروئے کار نہیں لاتے۔ اس لیے کہ تحسین بھی ان کی اخلاقیات میں شامل تھی۔ اقبال اس بات کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ وقت کی کمی کے باعث میں فن کی باریکیوں پر توجہ نہیں کرپاتا۔ اس خط سے جہاں اقبال کے نظریۂ ادب کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے وہیں دوسری طرف اس خوف کا بھی پتہ چلتا ہے جو شاعر کی نفی کی صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے۔
اقبال اپنے معاصرین میں سید سلیمان ندوی کی رائے کو صائب سمجھتے تھے۔ بہت سے علمی و ادبی و اسلامی معاملات میںاقبال نے ان سے تحریری شکل میں تبادلۂ خیال کیا ہے۔ اقبال نے بیشتر موقعوں پر سید صاحب کی رائے کو خندہ پیشانی سے قبول کیا ہے اور کہیں کہیں ان سے اختلاف بھی کیا ہے۔ اقبال کی شاعری میں زبان اور محاورے کی گرفت کی گئی ہے۔ اقبال سید سلیمان ندوی کو ایک خط میں لکھتے ہیں:
’’بعض خیالات زمانۂ حال کے فلسفیانہ نقطۂ نظر کا نتیجہ ہیں ان کے ادا کرنے کے لیے قدیم فارسی اسلوبِ بیان سے مدد نہیں ملتی۔ بعض تاثرات کے اظہار کے لیے الفاظ ہاتھ نہیں آتے اس واسطے مجبوراً تراکیب اختراع کرنی پڑتی ہے جو ضروری ہے کہ اہلِ زبان کو ناگوار ہو کہ دل و دماغ اس سے مانوس نہیں ہیں۔‘‘ اقبال زبان و بیان کے سلسلے میں الجھنا نہیں چاہتے۔ محمددین فوق کے نام اقبال ایک خط میں لکھتے ہیں:
’’اودھ پنج نے جو اعتراضات مجھ پر کیے ہیں ان کا مجھے علم نہیں۔ وہ پرچہ تلاش کرنا چاہیے ممکن ہے کہ ان اعتراضوں میں کوئی کام کی بات ہو۔ لکھنؤ والے یا اور معترض یہ خیال کرتے ہیں کہ اقبال شاعر ہے مگر میری غرض شاعری سے زبان دانی کا اظہار یا مضمون آفرینی نہیں۔ نہ میں نے آج تک اپنے کو شاعر سمجھا حقیقت میں فنِ شاعری اس قدر دقیق اور مشکل ہے کہ ایک عمر میں بھی انسان اس پر حاوی نہیں ہوسکتا۔‘‘صحت الفاظ کے تعلق سے جو کچھ آپ نے لکھا ہے ضرور صحیح ہوگا۔ لیکن اگر آپ ان لغزشوں کی طرف توجہ فرماتے تو میرے لیے آپ کا ریویو زیادہ مفید ہوتا۔ اگر آپ نے غلط الفاظ و محاورات نوٹ کرکھے ہیں تو مہربانی کرکے مجھے ان سے آگاہ کیجیے کہ دوسرے ایڈیشن میںان کی اصلاح ہوجائے۔‘‘

اقبال اکبر کو ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’میں آپ کو اپنا پیر و مرشد تصور کرتا ہوں۔ اگر کوئی شخص میری مذمت کرے جس کا مقصد آپ کی مدح سرائی ہو تو اس کا مطلق رنج نہیں بلکہ خوشی ہے…اگرساری دنیا متفق اللسان ہوکر یہ کہے کہ اقبال پوچ گوہے تو مجھے اس کا مطلق اثر نہ ہوگا کیوں کہ شاعری سے میرا مقصد بقول آپ کے حصولِ دولت و جاہ نہیں محض اظہارِ حقیقت ہے۔مومن کی شاعری کا جو حاوی رنگ ہے اس کی روشنی میں بہت سے لوگ اقبال کی اس رائے کو نہ صرف قبول کرسکتے ہیں بلکہ داد بھی دے سکتے ہیں۔ مومن کی شاعری سے اقبال نے مایوسی کی دو وجہیں بتائی ہیں (1) وہ تغزل کے کسی حقیقی جذبے تک شاذ و نادر ہی پہنچ سکے۔ (2) ان کے خیالات طفلانہ اور جذبات میں سوقیانہ پن ہے۔ اقبال کایک خط ڈاکٹر عباس علی خاں لمعہ حیدرآبادی کے نام ہے ،جس میں شعری اصناف کا ذکر ہے:’’سنیے غزل اور رباعی کے لیے قافیہ کی شرط لازمی ہے۔ اگر ردیف بھی بڑھا دی جائے تو سخن میں اور بھی لطف بڑھ جاتا ہے۔ البتہ نظم، ردیف کی محتاج نہیں قافیہ تو ہونا چاہیے۔ اب کچھ عرصے سے بلاردیف و قافیہ نظمیں لکھی جاتی ہیں اور یہ انگریزی نظموں کی تقلید ہے جس کا نام انگریزی میں بلینک ورس ہے۔ جس کو (نثر رجز) کہنا چاہیے۔ اگرچہ پبلک مذاق کچھ ایسا ہو چلاہے مگر میرے خیال میں یہ روش آئندہ مقبول نہ ہوگی۔ نظموں کے لیے اولاً سبجیکٹ اور مضامین تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ نیچرل مضامین تو سبجیکٹ ہی کے اعلیٰ انتخاب سے کچھ لطف دیتے ہیں۔‘‘اقبال کی نظر میں ردیف کی اہمیت غزل اور رباعی میں اس لیے ہے کہ اس سے شعر میں آہنگ پیدا ہوتا ہے لیکن خود اقبال نے غیرمردف غزلیں کہی ہیں۔ اقبال کی ایما پر پانی پت میں یومِ حالی منایا گیا تھا جس میں نواب بھوپال بھی شریک ہوئے تھے۔ اس موقعے پر اقبال نے حالی کی مدح میں ایک رباعی پڑھی تھی۔
اقبال مولوی صالح محمد ادیب تونسوی کو ایک خط میں لکھتے ہیں:
’’ان اشعار کی دقتِ زبان کی وجہ سے نہیں میں تو اتنی فارسی ہی نہیں جانتا کہ مشکل زبان لکھ سکوں۔ وقت جو کچھ بھی ہے واردات و کیفیات کے فقدان کی وجہ سے ہے اگر کیفیات کا احساس ہو تو مشکل زبان بھی سہل ہوجاتی ہے۔ بہرحال آپ کی کوشش ایک مبارک فال ہے لیکن یہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جذبات انسان کی تخلیق یا بیداری کے کئی ذرائع ہیں جن میں سے ایک شعر بھی ہے اور شعر کا تخلیقی یا ایقاضی اثر محض اس کے مطالب و معانی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس میں شعر کی زبان اور زبان کے الفاظ کی صورت اور طرزِ ادا کو بھی بہت بڑا دخل ہے اس واسطے ترجمے یا تشریح سے وہ مقصد حاصل نہیں ہوتا جو مترجم کے زیرنظر ہوتا ہے۔ بہرحال اس تشریح میں آپ کو ان لوگوں کی کیفیات و خیالات کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے جن کے قلوب میں آپ پیام کے جذبات پیدا کرنا چاہتے ہیں… اس کے علاوہ یہ بھی گُر کی بات ہے کہ مجھ سے مشورہ نہ کیجیے۔ جس شعر کا اثرجو آپ کے دل پر ہوتا ہے اس کو صاف و واضح طور پر بیان کرنے کی کوشش کرنا چاہیے، مصنف کا مفہوم معلوم کرنا بالکل غیرضروری ہے بلکہ مضر ہے۔ ہاں ایک ضروری شرط ہے اور وہ یہ کہ جو تشریح آپ کریں اس کی تائید شعر کی زبان سے ہونی چاہیے۔ ایک ہی شعر کا اثر مختلف قلوب پر مختلف ہوتا ہے بلکہ مختلف اوقات میں بھی مختلف ہوتا ہے اس اختلاف کی وجہ قلوبِ انسانی کی اول فطرت اور انسانی تعلیم و تربیت او تجربہ کا اختلاف ہے۔ اگر کسی شعر سے مختلف اثرات مختلف قلوب پر پیدا ہوں تو یہ بات اس شعر کی قو ت اور زندگی کی دلیل ہے۔‘‘

اقبال کے ان چند خطوط کا مطالعہ ایک خاص موضوع کے تحت کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد خطوط نگاری کے فن کو ملحوظ رکھتے ہوئے اقبال کے خطوط کا جائزہ لینا نہیں تھا بلکہ ان کے چند خطوط کے ذریعہ اقبال کے بعض علمی و ادبی معاملات کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان معاملات سے اقبال کی شخصیت کے بعض گوشوں تک ہماری رسائی بھی ہوتی ہے۔ ان خطوط کی روشنی میں اقبال کے ادبی موقف کے بارے میں کوئی آخری یا حتمی بات نہیں کہی جاسکتی۔ ادبی موقف کا تعلق لکھنے والے سے تو ہوتا ہی ہے ساتھ ہی جس کو خط لکھا جارہا ہے اس سے بھی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ ان چند خطوط کے مطالعے سے اقبال کے نظریۂ ادب کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔