اقبال کی نظم نیا شوالہ۔ ہندو مسلم اتحاد کی نقیب

سید یعقوب شمیم
اقبال نے بحیثیت ایک صاحب فکر اور روشن خیال شاعر ، مغربی تصورات سے متاثر ہو کر حب الوطنی ، قومی اتحاد اور بیرونی سامراج کے خلاف جد وجہد کے جذبات کی تشو و نما کی اور اس طرح اردو ادب کو قومی اور وطنی شاعری کا بہترین سرمایہ دیا ۔
ان کی قومی شاعری کا یہ دور 1905 سے لے کر 1908 تک کے عرصہ پر محیط ہے اور یہی وہ زمانہ ہے جبکہ اقبال نے حب الوطنی اور قومی یکجہتی و اتحاد کا پرچار اپنی شاعری کے ذریعہ اس بلند آہنگی سے کیا کہ نہ صرف ملک کے ذی شعور افراد بلکہ ہندوستانی عوام سبھی حب الوطنی کے جذبہ کی کسک اپنے دلوں میں محسوس کرنے لگے ان کی مشہور نظمیں ’’ہمالہ ، پرندے کی فریاد ، صدائے درد ، تصویر درد ، ترانہ ہندی اور ہندوستانی بچوں کا قومی گیت اسی دور کی پیداوار ہیں ۔ لیکن ان کی اس قومی شاعری کا نقطۂ عروج ان کی مشہور نظم ’’نیا شوالہ‘‘ ہے جس میں انھوں نے ہندوستانی سیاست کے مشہور یک قومی نظریہ کا نہایت واضح تصور پیش کیا جو کہ اس دور کی ہندوستانی سیاست میں ایک اچھوتا خیال تھا اور جس کو آگے چل کر انڈین نیشنل کانگریس کے صاحب فکر رہنماؤں نے جن میں گاندھی جی اور نہرو خاص طور پر قابل ذکر ہیں ، آگے بڑھایا ۔ پنڈت نہرو نے اسی یک قومی نظریہ کو بڑی وقعت نظر کے ساتھ اپنی اعلی ترین ذہنی صلاحیتوں کا موضوع بنایا ۔ پنڈت جی کے مطابق ہندوستانی قوم کسی ایک طبقہ ، ایک مذہبی گروہ ، ایک نسل یا ایک لسانی جماعت کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسی دھارا ہے جس میں جگہ جگہ سے مختلف دھارے آکر شامل ہوجاتے ہیں اور اسی طرح یہ مختلف دھارے ہم آہنگ اور ایک ذات ہو کر ایک عظیم دھارے کی شکل اختیار کرلیتے ہیں ۔ ہندوستانی قومیت کی یہ خصوصیت ہے کہ اس سرزمین پر بسنے والی جماعتوں میں کوئی ایسا نہیں ہے جو ازل سے اس کا باشندہ رہا ہو ۔ مختلف تاریخی اور سماجی محرکات کے زیر اثر مختلف قومیں مختلف زمانوں میں ہندوستان  آئیں اور یہیں کی ہورہیں اور سرزمین ہند نے انہیں ہمیشہ کے لئے اپنا لیا ۔ اسی لئے پنڈت نہرو اس بات پر مصر تھے کہ ہندوستان میں بسنے والے برہمن ، مسلمان خواہ ترک ہوں یا ایرانی ، افغانستان کے باشندے ہوں یا قدیم دراوڑی یا اچھوت نسل سے تعلق رکھتے ہوں یا سامی نسل سے ، سیتھین (Sithian) ہوں یا آریائی یہ سب ایک گلدستے  کے اجزا ہیں اور اب تو یہ ایک دوسرے میں اس درجہ جذب ہوچکے ہیں کہ بالکلیہ طور پر ایک قوم کے افراد ہوچکے ہیں۔
یوں تو اقبال نے ہندو مسلم یگانگت کے موضوع پر اپنی شاعری کے اولین دور میں کئی نظمیں کہی ہیں لیکن نیا شوالہ کی سب سے بڑی خصوصیت جو اسے دیگر نظموں سے ممتاز کرتی ہے ، وہ اس کی زبان ہے ۔ اس نظم میں اقبال نے ہندی الفاظ کا جس خوبصورتی کے ساتھ استعمال کیا ہے اس کی مثال اردو شاعری میں ، سوائے نظیر اکبر آبادی اور عظمت اللہ خاں کے کسی اور شاعر کے ہاں نہیں ملتی ۔ موضوع کے اعتبار سے بھی ان الفاظ کا استعمال نہایت برجستہ اور بے تکلفانہ ہے جو اس کو مزید شیرینی بخشتا ہے ۔ اس نظم کا موضوع چونکہ ہندو مسلم اتحاد کی تلقین ہے اس لئے اقبال نے اس نظم میں ملک میں بسنے والے ایک اہم طبقہ کے نمائندے برہمن کو مخاطب کرتے ہوئے دراصل ساری ہندوستانی قوم کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے ۔ اقبال کے نزدیک ہمارے طبقہ واری اختلافات ، روشن خیالی کے اس دور میں اسی قدر ازکار رفتہ اور فرسودہ ہوگئے ہیں کہ ان کو انہیں بت بنا کر پوجنا سوائے نادانی کے کچھ اور نہیں ۔
سچ کہہ دوں اے برہمن ! گر تو برا نہ مانے
تیرے صنم کدوں کے بُت ہوگئے پرانے
کیونکہ ان کے خیال میں جب ایک طبقہ دوسرے کے خلاف نفرت کے جذبات کی نشو و نما کرتا ہے تو اس کے ردعمل کے طور پر دوسرے طبقہ میں بھی اسی قسم کے جذبات و احساسات پیدا ہوتے ہیں جس کا نتیجہ سوائے جنگ و جدال کے کچھ اور نہیں ہے ۔
اپنوں سے بیر رکھنا تو نے بتوں سے سیکھا
جنگ و جدل سکھایا واعظ کو بھی خدا نے
اقبال کہتے ہیں کہ آپسی اختلافات اور تنگ نظری سے پیدا ہونے والی اس بھیانک صورت حال پر قابو پانے کا واحد طریقہ تو یہ ہے کہ غیریت کے ان پردوں کو مل جل کر چاک کیا جائے جو سامراج نے ہمارے بیچ نقش دوئی قائم کرنے کے لئے پیدا کئے تھے ۔
آغیریت کے پردے اک بار پھر اٹھادیں
بچھڑوں کو پھر ملادیں نقش دوئی مٹادیں
دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے
عزیز احمد نے اقبال کے اس آخری شعر کو کبیر اور بھکتی تحریک کی کوشش اتحاد کی طرف ایک کھلم کھلا اشارہ کہا ہے ۔ فکری اعتبار سے بھگتی تحریک کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔ جس میں جہاں ایک طرف اتحاد مذاہب کی بات کو اہمیت دی گئی ہے ۔ وہیں دوسری طرف جلوہ ازل کو مادی پیکر میں دیکھ کر اسے پوجنے کی بات بھی بھگتی ہی میں شامل ہے ۔
ڈاکٹر محمد حسن کے مطابق ’’ان کو ہم بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں ایک وہ لوگ جو معبود حقیقی کا تصور کسی مادی پیکر کی شکل میں نہیں کرتے اور اسے ایک نور مجسم قرار دیتے ہیں جس کی کوئی شکل و صورت ہی نہیں ہوتی اسے ہندی میں نرگن واد کا فلسفہ قرار دیا گیا ہے ۔ لیکن دراصل اس جلوہ ازل کے مختلف روپ میں اس فلسفہ کو ہندی ادب میں مُسگن واد کا نام دیا گیاہے‘‘ ۔ ان مندرجہ صدر اقتباسات کی روشنی میں بآسانی یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اقبال بھی بھگتی تحریک کے فکری اور تہذیبی پس منظر سے کماحقہ واقفیت رکھتے تھے اور انھوں نے ان دونوں فلسفوں کو باہم مربوط کرکے ایک ایسا مجموعی تاثر قائم کرنے کی کوشش کی ہے جس کی مدد سے اس ملک میں بسنے والے مختلف طبقات کے درمیان یکجہتی اور اتحاد کی فضا پیدا کی جاسکے گویا اقبال کی یہ نظم ان کی دیگر قومی نظموں کے مقابلے میں یقیناً معرکتہ الآرا کہی جاسکتی ہے جس میں اس ملک میں کی جانے والی اتحاد کی کوشش کو اساسی اہمیت دے کر اس کے مضمرات کو اجاگر کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے ۔
نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستاں والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں