اقبال کی شعری زبان کا ارتقاء

سعید حسین
(بی‘ اے عثمانیہ)

مثنوی ’ ’ اسرار خودی‘‘ جب فارسی میں منظر عام پر آئی تو مغرب اور مشرق ہر جگہ اس کی گونج سنائی دی۔ مشرق میں لوگ اس لفظ کی اہمیت کو سمجھنے لگے۔ مغرب میں اہل الرائے نے اس کی تعریف کی۔ چنانچہ ہر برٹ ریڈ نے زور وشور کے ساتھ اس نظم کی پذیرائی کی۔ مثنوی کے تعلق سے ہر برٹ نے لکھا کہ ’’ ایسے وقت میں جب ہمارے یہاں لوگ طوطا مینا کی کہانی لکھ رہے ہیں مشرق میں ایک شاعر ایسا بھی ہے جو مثنوی ’’ اسرار خودی‘‘ جیسی فکر انگیز شاعری کررہا ہے۔‘‘ اقبال کہتے ہیں۔’’میں نے کبھی اپنے آپ کو شاعر نہیں سمجھا… فنِ شاعری سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں رہی‘ ہاں بعض مقاصد خاص رکھتا ہوں جن کے بیان کے لئے حالات وروایات کی رو سے میں نے نظم کا طریقہ اختیار کیا ہے۔‘‘
علامہ اقبال مشاہیر کی نظر میں : ’’ اقبال کی شاعری نے نوجوان مسلمانوں میں بیداری پیدا کردی ہے اور بعض نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ جس مسیحا کا انتظار تھا وہ آگیا ہے۔‘‘ (نکسن)’’ ہندوستان میں حرکتِ تجدید نے اپنا ممتاز ترین ظہور سر محمد اقبال کی شاعری میں حاصل کیا ہے‘‘۔(سر تھامس آرنلڈ‘ برطانیہ)’’ شاید یہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہو کہ ڈاکٹر اقبال مرحوم ایک صوفی خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والدِ مرحوم ایک خوش اوقات صوفی صافی تھے۔ اوران کے ہاں آنے والے دوستوں کا مذاق بھی یہی تھا اور اسی ماحول میں اقبال کی پرورش ہوئی‘‘۔(سید سلیمان ندویؒ پاکستان)’’ اقبال کی شاعری کی خاص غایت تھی۔ مولانا حالیؒ کی طرح اقبالؒ نے بھی اپنی شاعری سے قوم اور ملک کو جگانے اور رہنمائی کا کام لیا۔ یہ اس کے خیال وفکر کی قوت اورجِدت تھی جس نے اس کے کلام اور طرزِ بیان میں زور اور جوش پیدا کردیا‘‘(بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق)’’ علامہ اقبال کا شمار بیسویں صدی کے عظیم ترین شعراء اور مفکرین میں کیا جاتا ہے ۔ ان کی حیات ہی میںانہیں’’ شاعر مشرق‘‘ کہا جانے لگا‘‘۔(نکولائی گلیبوف ‘ روس) یہ وہ سوال ہیں جنہیں عالمی ادب میں مختلف پیرایوں میں اٹھایا گیا ہے جن کا جواب غالب کے پاس نہیں ہے۔ یہ غالب کی اولیت اور ان کی عبقریت ہے کہ اردو شعر وادب میں انہوں نے پہلی مرتبہ ان بنیادی باتوں پر غور کیا ۔ اقبال نے اپنی شاعری میں ان سوالوں کا جواب دیا ہے ۔ اس لئے کہ وہ اردو کے علاوہ فارسی‘ عربی‘ انگریزی اور جرمنی سے واقف تھے۔ انہوں نے مشرق اور مغرب دونوں کا یکساں مطالعہ کیا اور دونوں کی خوبیوں کو اپنے اندر ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔
مشرق سے ہو بیزار نہ مغرب سے غدر کر
فطرت کا تقاصہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر
انہوں نے مشرق اور مغرب دونوں کے دانشوروں سے اکتساب نور کیا۔ اور اس بات کی پیہم کوشش کی کہ شخصیت کی تعمیر میں انتہا پسندی کا شکار نہ ہوجائیں۔ وہ بارگاہ رسالت مآب  ﷺ میں دستِ دعا کرتے ہیں۔
تو اے مولا ئے یثرب اب میری چارہ سازی کر
میری دانش ہے افرنگی مرا ایماں ہے زناری
ان کی پوری شاعری میں یہی اعتدال پسندی اور میانہ روی نظر آتی ہے۔ وہ ہومر‘ دانتے‘ ورجل‘ ورڈس ورتھ‘ گوئٹے‘ شیکسپیر اور ملٹن سے بھی واقف اور رومی ورازی ‘ صائب‘ کلیم سے بھی۔ انہوں نے افلاطون اورارسطو‘ ہیگل‘ کانٹ‘ اسپنسر‘ مارکس ‘ فیورباغ نطشے سے لے کر برگساں تک ایک ایک فلسفی کا مطالعہ کیا وہ ان سے متاثر بھی ہوئے۔ مگر مرعوب کسی سے نہیں ہوئے۔ یہی سبب ہے کہ انہوںنے مارکس کی قدر کرتے ہوئے ’’ پیغمبر بے کتاب‘‘ کہا مگر اس کے اشتمالی نظریے کی کمزور بنیاد پر بڑی جراء ت رندانہ سے حرف زنی بھی کی۔
طریق کوہ کن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی
اقبال نے مکالمات فلاطوں کا نہ صرف مطالعہ کیا بلکہ اپنی نکتہ رس طبیعت سے ایک دلچسپ پہلو پیدا کرکے مساوات مرد وزن کی حقیقت کو آئینہ دکھایا۔
مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن
اُس کے شعلے سے پیدا شرار افلاطوں
اقبال نے مسولینی کے حسن وقبح کو بھی اُجاگر کیا ہے۔ لینن کو خدا کے حضور پا بہ جولاں کھڑا کرکے اس کی عذر خواہیاں ‘ اس کی حیلہ جوئیاں‘ اس کی تاویلیں اور دل لگتی تعبیریں بھی پیش کی ہیں۔
اس غزل میں اقبال کی زبان نہایت صاف ہے۔ اس میںلفظی اور معنوی رعایتیں دیگر صنائع اور تلمیحات کا ایک ہجوم ہے۔ ظاہر ہے اس غزل کا کوئی شعر ان کی اپنی کیفیت کا نمائندہ نہیں ہے بلکہ ہر شعر اقبال کی شاعرانہ صناعی کی نمائندگی کررہا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال نے اردو شاعری کا مطالعہ بڑی گہرائی سے کیا اور اساتذہ کے یہاں مروجہ صناع کی باریکیوں کو سمجھا۔
اقبال کی اردو نظموں میں جستہ جستہ ان کا نظریہ خودی واضح ہوجاتا ہے۔ جس میں وہ تکمیل انسانیت کے لئے اطاعت امر‘ نیابت الہٰی اور ضبط نفس کے وہ پیمانے مقرر کرتے ہیں جن سے ہم کنار ہوکر انسان ‘ انسانیت کی رفعتوں کو چھو سکتا ہے۔ اور گویا اپنے کمال کو پہنچ سکتا ہے مگر ان کا مستقبل ترقی کرتا شعور اس حد پر بھی نہیں رکتا۔ وہ چاہتے ہیں کہ یہ مرد کامل اس وقت مرد کامل بن سکتا ہے جب اپنی خودی کو بے خودی کے لئے وقف کردے۔ یعنی ایثار وقربانی کا وہ جذبہ اس میں پیدا ہوا کہ اس کی تمام ترقیاں‘ اچھائیاں‘ نیک نامیاں اور صلاحیتیں دوسرے کے کام آئیں وہ دوسروں کو خود پر ترجیح دینے کی ادا سیکھ لے۔ اقبال کی نظموں اور غزلوں میں یہ تمام خیالات موجود ہیں۔
اقبال کی شاعری کا مرکزی خیال انسان ہے۔ انسان کی برتری اور انسانیت کا گن گانا جتنا زیادہ اقبال کے یہاں موجود ہے اردو ہی نہیں دنیا کی کسی بھی زبان میں اس حد تک مشکل ہی سے ملے گا۔ اتنے مختلف اسالیب ہیں اور اتنے متنوع اور بو قلموں انداز میں اس لئے کہ وہ تنہا شاعرہ ے جو دانتے‘ گوئیٹے ‘ ورجلی‘ ورڈس ورتھ‘ ہومر‘ شیکسپیر سے واقف ہے۔ اسی لئے اس نے میرؔ‘ سوداؔ‘ آتشؔ‘ انیسؔ‘ غالبؔ کا غائر نگاہ سے مطالعہ کیا۔ اس نے داغؔ دہلوی سے اصلاح لی۔ تاکہ زبان دانی کا جوہر اس میں بھی پیدا ہوجائے۔ اس کے اسلوب میں یہ تمام رنگ پائے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اس کا مستقبل ترقی کرتا ہوا اور رواں دواں قلم اپنا ایک انفرادی لب ولہجہ پیدا کرلیتا ہے۔ اس طرح کہ وہ ہزاروں میں پہچانا جاتا ہے اور اس کی پیروی آسان نہیں ہے۔
اقبال کا تصور رب اس کا پیغام‘ اس کی معنی خیز اصطلاحیں اس کا نظریہ جبر وقدر‘ اس کا نظریہ عشق وعقل‘ اس کا نظریہ وطن اس کا ساز ملی‘ اس کے کلام کی عالمگیر اپیل‘ اس کے اشعار کی مقبولیت اور ان سب پر مستہزاد اس کے کلام کا روز مرہ زندگی میں بے محابا استعمال۔ کوئی ایک اردو شاعر بھی روز مرہ زندگی میں اقبال کے مقابلے میں کام نہیں آتا۔ وہ چاہے ترانہ ہندی ہو یا اسلامی ترانہ تصویر درد اور خضر راہ کے اشعار ہوں یا شکوہ وجواب شکوہ کے وہ اشعار جو زباں زدِ خاص وعام ہیں۔ وہ مسجد قرطبہ کی سی شاہکار نظم کے یا ذوق وشوق ‘ ساقی نامہ اور ابلیں وجبریل کے مکالمے جو پڑھے لکھوں کے نوک زباں بھی ہیں۔ پھیلے ہوئے موضوعات کو ہم تصدیق کی طرح سمٹنے کے کام آتے ہیں۔
وہ بات کو دلکش پیرائے میں کہنے کا سلیقہ جانتے ہیں۔ ان کی غزلیں ذہنی انتشار کے عیب سے پاک ہیں۔ تاثر کی وحدت میں بندھے ہوئے اشعار آپ اپنی کائنات میں مگن بھی ہیں۔ نظموں میں نظم وضبط اور تاثر کی توسیع کے ساتھ ساتھ ایک ایک شعر اور کبھی کبھی ایک مصرعہ غزل کے قلزم کا شناور لگتا ہے۔ انہوں نے اپنے فلسفے اور فکر دونوں کے لئے قرآن پاک اور اسوہ مبارکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے خوشہ چینی کی ہے۔ انہوں نے اپنی پوری معلومات کے نچوڑ کو پہلے اپنے قلب ونظر میں اتارا اور تحصیل کیا اور اس کے بعد ہی لب کشائی کی۔ اپنی انفرادی چھاپ کے ساتھ دراصل یہی ان کا ریاض ان کی عبادت اور ان کی اپنی زبان میں خون جگر کی نمود ہے۔ اس لئے ان کے شہ پارے ان کے ہی نہیں ان کے سب پڑھنے سننے والوں کے ہوجاتے ہیں۔ اقبال کے سے عظیم شاعر کا انتخاب کتنا مشکل کا ہے اس لئے کہ  جہاں حرف حرف آب زلال سے لکھا ہو۔ جہاں زر خالص خود کسوٹی ہو پھر اسے کونسی کسوٹی پر پرکھا جائے ۔ یہ مرحلہ دشوار تھا تاہم اس انتخاب کی آسانی خود شاعری نے مہیا کردی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کے نمائندہ اشعار کو اپنی ضرورت کے سانچے میں ڈھال لیا جائے۔ یعنی بقدر ضرورت کلام کا انتخاب کرلیا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا ہے۔ یعنی اقبال کی فکر وفلسفہ اور ان کا اسلوب۔  اس میں بھی اقبال کا تصور عشق‘ ان کا فلسفہ خودی‘ ان کا نظریہ وطن‘ ان کا عقل وعشق کا نظریہ‘ ان کے مجموعی اختصاص جن کے ذریعہ ان کی نمائندگی ہوتی ہے۔