اقبال اور فرزندِ عالم گیر

ڈاکٹر رؤف خیر
آج دنیا ہی میں نفسا نفسی کا عالم ہے ۔ کہا گیا ہے کہ میدانِ حشر میں کوئی کسی کے کام نہ آئے گا ۔ سب کو اپنی اپنی پڑی ہوگی ۔ نہ بیٹا باپ کو پہچانے گا نہ باپ بیٹے کو ۔ رشتے کالعدم ہوجائیں گے ۔ آج ہم یہی صورتِ حال دنیا ہی میں دیکھ رہے ہیں۔ اللہ آپ کی اولاد کو آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے اور اللہ آپ کو اپنے ماں باپ کی قدر دانی کر کے ان کی دعائیں لینے والا بنائے۔ آپ اگر اپنے آس پاس نظر ڈالیں گے تو ایسی اولاد بھی نظر آئے گی جو اپنے ماں باپ کے ساتھ بدسلوکی کرتی ملے گی ۔ انہیں بے یار و مددگار در در کی ٹھوکریں کھانے چھوڑدی ہوگی۔ تاریخ میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں جہاں اولاد نے ماں باپ کو بہت دکھ دیئے ہیں۔ یہ دراصل تربیت کا قصور ہے ۔ ایمان در حقیقت ایثار بھی سکھاتا ہے ۔ خودغرضی اور مفاد پرستی انسان کو جانور کی سطح سے بھی نیچے گرادیتی ہے۔ کچھ ادبی شخصیتوں کی اولاد بھی ناخلف نکلی۔ محسن قوم و ملت سر سیداحمد خان کے بیٹے جسٹس محمود نے سر سید کو اپنی حویلی سے نکال دیا ۔ وہ ایک صندوق لے کر سڑک پر کھڑے ہوئے تھے کہ ان کے ایک دوست اسمعیل صاحب سے دیکھا نہ گیا وہ انہیں اپنے گھر لے آئے ۔ سر سید کہتے تھے میں نے اپنے بیٹے محمود کی حویلی کو اپنی حویلی جانا ورنہ اتنی بڑی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی قائم کرنے والا کیا اپنے لئے ایک جھونپڑی نہ بنالیتا ! حویلی سے بے دخلی کا صدمہ سر سید سے برداشت نہ ہوسکا ، وہ چند ہی دن میں انتقال کر گئے ۔ تجہیز و تکفین کیلئے ان کا صندوق کھولا گیا تو مایوسی ہوئی ۔ کچھ نہ نکلا ۔ چنانچہ چندے سے میت اٹھانے کا ارادہ کیا گیا ۔ سر سید کے قریبی دوست محسن الملک نے پچاس روپئے چندہ دیا جس سے موث مٹی کی گئی ۔ جسٹس محمود کو غیرت دلائی گئی تو بڑی مشکل سے آخری وقت میں وہ شریک جنازہ ہوا ۔
قتیل شفائی نے اپنی سوانح حیات ’’گھنگھرو ٹوٹ گئے ‘‘ میں نریش کمار شاد اور اس کے باپ درد نکودری کے بارے میں لکھا کہ دونوں پیتے بیٹھے تھے۔ نریش کمار نے قتیل سے اپنے باپ کو ملواتے کہا کہ یہ ماہر عروض شاعر ہیں۔ درد نکودری نے کہا میں جیسا بھی شاعر ہوں مگر مجھے فخر ہے کہ میں نے ایک اچھے شاعر کو پیدا کیا ہے ۔ اس پر نریش کمار شاد ہتھے سے اکھڑ گیا ۔ کہنے لگا میرے اچھے شاعر ہونے کا کریڈٹ (اعزاز) آپ نہ لیں۔ اس پر باپ بیٹے میں ٹھن گئی ۔ باپ نے بیٹے کو تھپڑ رسید کیا اور بیٹے نے باپ کو گریبان سے پکڑلیا۔ بڑی مشکل سے قتیل نے بیچ بچاؤ کرایا۔
’’بجنگ آمد‘‘ کے مصنف کرنل محمد خان نے چک لالہ اسکیم نمبر III راولپنڈی میں اپنا عالیشان مکان بنوایا تو وہ پنڈی کلب سے اپنے نو تعمیر شدہ مکان میں منتقل ہوگئے اور اپنا نو تعمیر شدہ مکان امریکہ میں مقیم اپنے اکلوتے بیٹے کے نام ہبہ Gift کردیا ۔ دو تین مہینے کے اندر ہی اس زن مرید بیٹے نے اسے اپنی بیوی کے نام منتقل کردیا چنانچہ کرنل محمد خان کی بہو راولپنڈی پہنچ کر انہیں مکان سے بے دخل کرنے کی قانونی کارروائی کرنے لگی ۔ بریگیڈیئر اسمعیل صدیقی نے اس نازک صورت حال میں کرنل کو سمجھایا کہ وہ مکان تو قانونی طور پر اس بہو کا ہوچکا ہے ۔ لہذا خالی کردینا لازمی ہے۔
بریگیڈیر اسمعیل صدیقی کرنل محمد حان کو اپنے گھر لے آئے مگر یہ ایسا صدمہ تھا جسے کرنل برداشت نہ کرسکے اور جاں بحق ہوگئے ۔
اکبر الہ آبادی نے نئی تعلیم انگریزی بودو باش کے خلاف ہونے کے باوجود اپنے بیٹے عشرت حسین کو اعلیٰ تعلیم دلانے کیلئے بہ صرفِ زر کثیر ولایت (انگلستان) بھیجا تھا جہاں جاکر وہ اپنے ماں باپ ہی کو بھول گئے چنانچہ اکبر نے ’’بیٹے سے خطاب‘‘ میں کہا :
عشرتی گھر کی محبت کا مزہ بھول گئے
کھاکے لندن کی ہوا عہدِ وفا بھول گئے
پہنچے ہوٹل میں تو پھر عید کی پر وا نہ رہی
کیک کو چکھ کے سویوں کا مزا بھول گئے
بھولے ماں باپ کو اغیار کے چرچوں میں وہاں
سایۂ کفر پڑا نورِ خدا بھول گئے
موم کی پتلیوں پر ایسی طبیعت پگھلی
چمن ہند کی پریوں کی ادا بھول گئے
کیسے کیسے دلِ نازک کو دکھایا تم نے
خبرِ فیصلہ روزِ جزا بھول گئے
بخل ہے اہل وطن سے جو وفا میں تم کو
کیا بزرگوں کی وہ سب جو دو عطا بھول گئے
نقلِ مغرب کی ترنگ آئی تمہارے دل میں
اور یہ نکتہ کہ مری اصل ہے کیا بھول گئے
کیا تعجب ہے جو لڑکوں نے بھلایا گھر کو
جب کہ بوڑھے روشِ دینِ خدا بھول گئے
ایک روایت یہ بھی ہے کہ مغرب سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے لوٹے تو اعلیٰ عہدہ پر فائز تھے ۔ ایک گھریلو تقریب میں مغربی تہذیب یافتہ کسی دوست نے قلندرانہ ہئیتِ کذائی والے اکبر الہ آبادی کی طرف اشارہ کر کے ان کے بیٹے عشرت حسین سے پوچھا :
“WHO IS THAT FELLOW?” (یہ کون شخص ہے؟)
عشرت حسین نے ٹالنے والے انداز میں جواب دیا :
“HE IS MY FRIEND” (وہ میرے ایک دوست ہیں)
اکبر الہ آبادی جو Small Causes Court کے جج تھے ، بیٹے کے اس جواب کی یوں صراحت کی :
I am not his friend, I am his mother’s friend
(میں اس کادوست نہیں بلکہ اس کی ماں کا دوست ہوں)
صفیہ اختر کو تڑپنے کیلئے بھوپال میں چھوڑ کر ایک دوسری عورت کے ساتھ جاں نثار اختر ممبئی میں مزے اڑا رہے تھے ، وہ بے چاری خط پر خط لکھا کرتی تھی۔ (یہ خطوط بعد میں ’’زیر لب‘‘ کے نام سے شائع ہوئے) گلبرگہ و مدراس کے بعض اخبارات و رسائل میں جاں نثار اختر نے یہ اعلان بھی شائع کروایا تھا کہ کوئی لڑکا خود کو ان کا بیٹا بتاکر ادبی برادری کو ٹھگ رہا ہے ، اس سے ہوشیار رہا جائے ۔ پھر ایک دن وہ بھی آیا کہ فلمی د نیا میں اپنی شرطوں پر جینے والے جاوید اختر کسی بھی فلم میں جاں نثار اختر سے گیت لکھوانا تو درکنار ان کی صورت دیکھنے کے بھی روادار نہ تھے ۔ اپنے دادا مضطر خیر آبادی کی کلیات شائع کی مگر باپ سے نفرت برقرار رکھی۔
خود علامہ اقبال کے لائق و فائق فرزند جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی خود نوشت اپنا گریباں چاک ( مطبوعہ سنگ میل پبلیکیشنز لاہور نیا اضافہ شدہ ایڈیشن 2006 ) میں صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے فرقۂ ملامتیہ کے فرد کی طرح بیان کیا ۔
’’والد (اقبال) کی وفات کے بعد میں ان کے نافذ کردہ ڈسپلن سے آزاد ہوگیا ، جن باتوں سے انہوں نے منع کر رکھا تھا ، میں نے بڑی رغبت سے ان میں سے ہر ایک کو اپنایا ۔ صحیح و غلط میں سے غلط اور نیکی و بدی میں بدی کا راستہ منتخب کرنا بہتر سمجھا۔ اگر سر شام گھر میں رہنے کا حکم تھا تو میں آدھی رات سے پہلے گھر میں قدم نہ رکھتا تھا ۔
سینما دیکھنا اگر منع تھا تو ہر روز دو دو بلکہ تین تین شو دیکھتا ۔ روز مرہ کے باورچی خانے کا حساب لکھتے وقت پیسوں میں گھپلا کرتا تھا ۔ رنگ برنگی ریشمی قمیض ، مہنگے ولایتی بوٹ ، یوروپی انداز کے سیلے ہوئے سوٹ ، نک ٹائیاں، اوور کوٹ ، دستانے اور فیلٹ ہیٹ زیب تن کرتا ۔ مئے نوشی ، یوروپی طرز کے رقص اور رات کے کھانے کیلئے معروف جگہوں پر جاتا‘‘۔ اور تو اور جاوید اقبال کو بہت گراں گزرتا ہے جب لوگ انہیں علامہ اقبال کے حوالے سے یاد کرتے ہیں ۔ ان کی انا کو ٹھیس لگتی ہے ۔ اس کا اظہار انہوںنے اپنی سوانح عمری ، اپنا گریباں چاک میں ’’ کھل کر کیا ہے، حالانکہ اقبال سے تعلق کو اعزاز کے بجائے بوجھ سمجھنے والے جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال جو کچھ ہیں Thanks to iqbal ہی تو ہیں۔
قطب شاہی سلطنت کا بانی سلطان قلی لمبی عمر پانے کی وجہ سے اپنے بیٹے جمشید قلی کی آنکھوں میں کھلنے لگا چنانچہ اس نے باپ کا قتل کر کے حکومت سنبھالی۔ گولکنڈہ میں موجود قطب شاہی سات گنبدوں میں سب سے خوبصورت ہشت پہلو گبند اسی جمشید قلی کی ہے ، اس نے جب اپنے باپ سلطان قلی کو قتل کر کے اپنے راستے سے ہٹادیا تو اس کا ایک بھائی ابراہیم قلی بھاگ کر کاکتیہ خاندان کے راجا کے ہاں پہنچ گیا جہاں اس نے اس کی بیٹی بھاگیہ رتی سے شادی کرلی چنانچہ راجا نے اپنے داماد ابراہیم قلی کی فوجی مدد کے ذریعہ احیائے سلطنت میں ساتھ دیا ۔
اورنگ زیب عالم گیر تقریباً نوے (90) برس کا ہوگیا تھا اور پچاس سال سے مغلیہ سلطنت کے تخت پر بلا شرکتِ غیرے متمکن تھا ۔ ’’یہ بات اس کے ایک بیٹے ابوالمعظم شمس الدین محمد کو کھل گئی ۔ وہ اپنے باپ کی درازی عمر سے تنگ آگیا تھا ۔ اس لئے ایک نجی پرائیویٹ محفل میں اس نے اپنے مصاجوں سے یہ بات کہی کہ تخت و تاج کے انتظار میں بال سفید ہوگئے ۔ اس کی عمر پچپن سال سے متجاوز ہوچکی تھی لیکن بڈھے (عالمگیر) کو موت ہی نہیں آتی ۔ خدا کرے وہ بہت جلد اس دنیا سے رخصت ہو تاکہ میری دلی آرزو برائے (بہ حوالہ ، شرحِ پیام شرق، پروفیسر یوسف سلیم چشتی ، اعتقاد پبلیشنگ ہاؤس دہلی ۔2 ، سن اشاعت جون 1993 )
اپنے بیٹے کے مذکورہ خیالات کی اطلاع مخبروں کے ذریعہ اورنگ زیب عالم گیر کو پہنچی تو اس نے ا پنے بیٹے کو فارسی میں اک خط لکھا ۔ اسی ’’نامۂ عالم گیر‘‘ کو اقبال نے موضوع بناکر ’’پیام مشرق‘‘ میں اک نظم کہی ’’نامۂ عالمگیر‘‘
(بہ یکے از فرزندانش کہ دعائے مرگِ پدری کرد)
ندائی کہ یزدانِ دیرینہ بود
بسے دید و سنجید و بست و کشود
زماسینہ چاکانِ ایں تیرہ خاک
شنیداست صد نالۂ درد ناک
بسے ہمچو شیر درخون نشس
نہ یک نالہ از سینۂ او گست
نہ از گریۂ پیرِ کنعاں تپید
نہ ازدرد ایوب آہ ہے کشید
مہندار آں کہنہ نخچیر گیر
بدامِ دعائے تو گردد اسیر
عالم گیر نے اپنے خط میں اپنے بیٹے کو لکھا کہ کیا تو نہیں جانتا کہ ہمیشہ ہمیشہ سے ہمیشہ ہمیشہ تک رہنے والا اللہ تعالیٰ زمانے کی اونچ نیچ سے خوب واقف ہے۔ اس نے لوگوں کو اچھی طرح دیکھا اور ان کی اوقات کے مطابق انہیں تولا۔ اس نے اس ظلمت کدے کے دکھی دلوں کی پکار بھی سنی ۔ شبیر کی طرح خاک و خون میں مل کرجان دینے اور تڑپنے والے بہت دیکھے مگر اس پر ان کے نالوں کا کوئی اثر نہ ہوا ۔ اپنے بیٹے یوسف علیہ السلام کی یاد میں گریہ و زاری کرنے والے حضرتِ یعقوب علیہ السلام کی تڑپ اور بیماری سے پریشان حضرت ایوب علیہ السلام کی آہ و فریاد پر برسوں اللہ نے توجہ نہیں دی ۔ ایسے میں اے بیٹے یہ نہ سمجھو وہ پرانا شکاری تیری بد دعا کا شکار ہوکر مجھے اپنی مشیت کے برخلاف قبل از وقت دنیا سیاٹھالے گا تاکہ تیری آرزو پوری ہو۔
وہ تو اللہ کا شکر ہے کہ اورنگ زیب عالم گیر نے اپنے بیٹے کے نام سرزنش کے طور پر صرف ایک خط ہی لکھا ورنہ جس طرح اپنے باپ شاہ جہاں کو قید کردیا اور اپنے کسی بھائی کو زندہ نہ چھوڑا اسی طرح اپنے بدخواہ بیٹے کو بھی کیفر کردار تک پہنچا سکتا تھا۔
علامہ اقبال کی یہ نظم ’’نامۂ عالم گیر‘‘ ناخلف اولادوںکیلئے تازیانۂ عبرت ہے ۔ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آدمی بھلے ہی اپنے باپ اور بھائیوں کے ساتھ برا سلوک کرے ، اپنے بیٹے کیلئے کم از کم نرم گوشہ رکھتا ہے تاوقتیکہ اس کی سفاکی خوداس کی جان کی دشمن نہ ثابت ہوجائے۔