افغانی بچوں کو پاکستانی مدرسوں کیلئے اسمگل کیا گیا : عہدیداران

 

کابل ۔ 31 جولائی سیاست ڈاٹ کام) افغانستان کے صوبہ غزنی میں پولیس نے جب معمول کی چیکنگ کے دوران دو گاڑیوں کو روکا جس پر لائسنس پلیٹس بھی نہیں تھیں اور جب گاڑی کے اندر پولیس اہلکاروں نے جھانک کر دیکھا تو ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اس میں 27 لڑکے سوار تھے جن کی عمریں 4 تا 15 سال کے درمیان تھیں۔ صوبہ غزنی کے اس علاقہ میں طالبان نے بیشتر حصوں پر اپنا دبدبہ برقرار رکھا ہے۔ یہ تمام لڑکے غیرقانونی طور پر صوبہ بلوچستان میں واقع مدرسوں کو منتقل کئے جارہے تھے۔ دریں اثناء حکام نے نے بتایا کہ ان لڑکوں کو مدرسہ میں طالبان کے نظریات سے مطابقت والی تعلیم فراہم کرنے کے لئے لایا گیا تھا تاکہ وہ بھی انتہاء پسند نظریات پر عمل پیرا ہو تے ہوئے افغانستان واپس جائیں اور طالبان کے اسی سخت اسلامی نظریات پر عمل پیرا ہوجائیں جس پر 2001ء میں امریکی قیادت والی فوج کے غلبہ سے قبل طالبان عمل پیرا تھے۔ پولیس نے اسے بچوں کی (انسانی غیرقانونی اسمگلنگ) قرار دیا ہے اور گاڑیوں کے ڈرائیورس اور دیگر دو بالغوں کو جیل میں ڈال دیا کیونکہ ان تینوں کے علاوہ دونوں گاڑیوں میں سوار تمام بچے نابالغ تھے۔ دوسری طرف ان لڑکوں کے والدین کا استدلال ہے کہ انہوں نے اپنے بچوں کو اپنی مرضی سے کوئٹہ روانہ کیا تاکہ وہ مدرسہ میں بہترین تعلیم حاصل کریں۔ کوئٹہ کو افغانستان کے طالبان بہت اہمیت دیتے ہیں کیونکہ ان میں سے بیشتر ان ہی مدرسوں سے گریجویشن کرکے فارغ ہوئے جبکہ اسے طالبان لیڈر شپ کونسل کا ہیڈکوارٹرس بھی قرار دیا جاتا ہے اور ’’کوئٹہ شوریٰ‘‘ کہا جاتا ہے۔