افغانستان میں طالبان کی پیشرفت

قتل جب سے بھائی کو بھائی کا گوارا ہوگیا
گھر کے آنگن بھی ہمارے تب سے مقتل ہوگئے
افغانستان میں طالبان کی پیشرفت
شام میں دولت اسلامیہ (داعش) کے ٹھکانوں پر بمباری کرنے والے روس کو افغانستان میں داعش کے جڑپکڑ جانے کی فکر لاحق ہوگئی ہے۔ سابق سوویت یونین کی فوج کے لئے 1979ء کی جنگ نے افغانستان قبرستان میں تبدیل ہوا تھا اب یہاں طالبان کی پسندیدہ تنظیم داعش بنتے جارہی ہے تو یہ روس کیلئے تشویش کی بات ہے۔ امریکی صدر بارک اوباما نے بھی افغانستان سے اتحادی افواج کے تخلیہ کے فیصلہ پر نظرثانی کرتے ہوئے 2016ء کے بعد بھی امریکی فوج کو افغانستان میں رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ افغانستان کی سرزمین جنگجویانہ کارروائی کیلئے جانی جاتی ہے۔ یہاں سے امریکی فوج کے انخلاء کے منصوبے میں تبدیلی لانے کی وجہ داعش کے بڑھتے قدم ہیں۔ آئندہ سال بھی افغانستان میں امریکہ کی 10 ہزار فوج تعینات رہے گی اور 2017ء تک یہ تعداد گھٹ کر 5500 ہوجائے گی۔ افغانستان کی فوج کو مدد فراہم کرنے کیلئے امریکی فوج کی برقراری کو یقینی بنایا جارہا ہے۔ جنگ زدہ ملک میں قیام امن کی کوشش سے زیادہ طالبان کے دوبارہ مضبوط ہونے کی خبروں نے وائیٹ ہاؤز کے ساتھ ساتھ روس کو بھی متفکر کر رکھا ہے تو اس فکر کو دور کرنے کیلئے امریکن فوج کی بربریت کو ختم کرنا ہوگا۔ طالبان کے دوبارہ مجتمع ہونے اور شمالی صوبہ قندوز میں طالبان کے حملے و جزوی قبضہ کے بعد امریکہ اور روس کو یہ یقین ہوگیا ہوگا کہ طالبان کی طاقت اگر متحد ہوجائے تو ان کیلئے مسائل پیدا ہوں گے۔ امریکہ افغانستان میں 14 سال تک طالبان سے جنگ کرتا رہا اور امداد کے طور پر کئی بلین ڈالر خرچ کئے گئے مگر نتائج خاص برآمد نہیں ہوئے۔ طالبان رہنما ملاعمر کے انتقال کی خبر کے بعد سے صدر افغانستان اشرف غنی نے ملک میں کسی متوازی سیاسی طاقت کو قبول نہ کرنے کا اعلان کیا تھا مگر طالبان کی طاقت اور اب داعش کی افغانستان میں دلچسپی دکھانے کے بعد صورتحال تشویشناک ہوگئی ہے۔ شام میں داعش کے خلاف صف آراء ہونے والے روس کو سب سے پہلے اپنے عوام کو یقین دلانا ہوگا کہ یہ ان کی کوششوں کے نتیجہ میں ہی امن کی جانب پیشرفت ہورہی ہے۔ طالبان کے سربراہ ملا عمر کے انتقال کے بعد ملا اختر منصور کو طالبان شوریٰ کی فسادات کے بغیر تحریک کا نیا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ افغانستان کی خفیہ جنگوں سے تباہی کے سواء کچھ نہیں ہے۔ اس ملک کو دو طاقتور ملکوں کی جانب سے لہولہان کیا جارہا ہے۔ شام میں جنگ شروع کرنے کے بعد روس اور امریکہ نے افغانستان میں اپنے وجود کا احساس دلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ افغانستان کی صورتحال عالمی امن کے علمبرداروں کیلئے اچھی خبر نہیں ہے۔ شام میں روس کی سرگرمیوں سے دنیا کے بقائے امن کا مسئلہ پیدا ہوگا۔ پاکستان کے ساتھ امن مذاکرات عمل جاری رکھتے ہوئے طالبان کو اگر اپنی سرزمین پر داعش جیسی تنظیم کی حمایت ملتی ہے تو پھر روس کے ساتھ ساتھ امریکی منصوبوں کو بھی دھکہ پہنچے گا۔ طالبان چاہتے ہیں کہ وہ اپنی جنگ کو جاری رکھیں مگر اس سے افغانستان میں عوام کی روزمرہ کی زندگی ہلاکت خیز واقعات سے ہوکر گذر رہی ہے۔ شام میں روس کی کارروائیوں کو روکنے کیلئے ترکی اور سعودی عرب نے قدم اٹھایا ہے مگر اس کے نتائج ہرگز مثبت نہیں ہوں گے۔ داعش کے نظریات اور اس کی طاقت نے طالبان کو متاثر کردیا ہے۔ اس لئے طالبان کے ارکان کی بڑی تعداد داعش میں شامل ہونے جارہی ہے تو یہ ایک خطرناک اور تباہ کن تبدیلی ہوگی۔ اس لئے اوباما نظم و نسق کو افغانستان کیلئے اپنی حکمت عملی پر ازسرنو غور کرنا پڑے گا۔ طالبان نے قندوز پر قبضہ کے بعد افغانستان کے دیگر شہروں پر بھی قبضہ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اگر یہ گروپ افغانستان کے جنوب میں دو مرکزی صوبوں قلط اور غزنی میں پیشرفت کرنے میں کامیاب ہوتا ہے تو یہ افغان سیکوریٹی فورس اور امریکہ کی فوج کیلئے شدید دھکہ ہوگا۔ افغان افواج کی کمزوریاں ظاہر ہونے کے بعد ہی امریکہ نے اپنی فوج کے انخلاء کے فیصلہ پر نظرثانی کی ہے لیکن طالبان کے نئے سربراہ کی حکمت عملی افغانستان کے مواضعات سے شہروں کی جانب رخ کرچکی ہے تو پھر خون ریزی میں اضافہ ہوگا۔