افسوس! انسان انساسانیت پر نہیں پہنچ سکا

سید جلیل ازہر

انسان چاند پر پہنچ گیا، سمندر کی تہہ تک پہنچ گیا لیکن افسوس انسان انسانیت تک پہنچ سکا ، آج سارے ملک میں آصفہ کی عصمت ریزی کے واقعہ کو لیکر لوگ سڑکوں پر اتر آئے ہیں، ان درندوں کی درندگی کو اور کیا نام دیاجائے، کسی کے پاس الفاظ ہی نہیں۔ آج ملک کے وزیراعظم اپنی کرسی سنبھالتے ہی بیٹی بچاؤ ، بیٹی پڑھاؤ کا نعرہ دے رہے ہیں تو دوسری طرف درندہ صفت ذہنیت کے حامل افراد کی آبیاری ہورہی ہے ، آج انسانیت کے زندہ ہونے کا ثبوت پیش کرتے ہوئے ملک کی اکثریت بلا لحاظ و مذہب و ملت سڑکوں پر اتر آئی ہے ، کسی بھی علاقہ میں جائیں صرف آصفہ کے مسئلہ پر تبصرہ ہورہاہے ، سوال یہ ہے کہ ان درندوں کی حوصلہ افزائی کونسے دلال کر رہے ہیں۔ کیا انہیں بیٹیاں نہیں ہیں ، ارے ایک بات عام ہے کہ چار چھ لوگ بیٹھے ہوئے ہوںاور کسی کو کانٹا چبھ جائے تو اس کی چیخ کے ساتھ وہاں موجود سب ہنسنے لگتے ہیں، وہ شحص نہیں ہنستا جس کو پہلے کانٹا چبھا ہو کیونکہ درد کی شدت کو وہی محسوس کرسکتا ہے جس کو پہلے کانٹا چبھا ہو۔ یہ بدقسمتی ملک کی عوام کی ہے کہ ہندوستان کے جلیل القدر عہدہ پر فائز وزیراعظم کو اولاد ہی نہیں تو بیٹی کا درد یہ کیسے محسوس کریں گے۔ آج آصفہ کی عصمت نہیں ملک کی بیٹی کی عصمت تار تار ہوئی ہے ۔ ایک معصوم لڑکی کو ایسی جگہ لے جاکر منہ کالا کیا گیا جہاں کا تقدس ہر انسان کے ذہن میں ہے ۔ مندر بھی ایک عبادت گاہ ہے ، ان درندوں کو انسانیت کا درس ہی نہیں ملا تو عبادت گاہ کیا معنی رکھتی ہے ۔ ایسے درندوں کو حمایت کے تناظر میں ایک شاعر نے بے قابو ہوکر اپنے جذبات کی ترجمانی اس انداز میں کی ہے ۔
کانٹا بن کر چبھتے ہیں جو پھول سے نازک جسموں میں
اپنی قسمت اپنے ہاتھوں کالی بھی کرسکتے ہیں
وہ جو حمایت میں نکلے ہیں عصمت لوٹنے والوں کی
وہ تو اپنی بیٹی کی دلالی بھی کرسکتے ہیں
اب وقت آچکا ہے کہ ایسے نازک حالات میں بلا لحاظ مذہب و ملت آصفہ کے حق میں آواز بلند کرتے ہوئے زانیوں اور قاتلوں کو ان کے انجام تک پہونچانے کیلئے اپنے زندہ اور حساس ہونے کا ثبور دیں ملک کے وزیراعظم کو بھی چاہئے کہ ان درندوں کو ایسی سزا دلائیں کہ اس سزا کو دیکھ کر آنے والی نسلوں میں سزا کے خوف سے درندگی کا تصور بھی نہ آئے ، آج اگر ملک کی بیٹی پلٹ جائے تو ملک کے حالات غیر یقینی ہوجائیں گے جس ملک میں ہرن کی حفاظت اور گائے کے تحفظ کے لئے ٹھوس قدم اٹھائے جارہے ہیں ، افسوس کہ معصوم بیٹیوں کا تحفظ نہیں ہوپا رہا ہے ۔ یاد رکھو جس زمین پر بارش نہ ہو وہاں کی فصلیں برباد ہوجاتی ہیں اور جس ملک کی حکومت کمزور ہو وہاں کی نسلیں برباد ہوجاتی ہیں ۔ کہتے ہیں ؎

ہے جن کے خون میں نفرت محبت کر نہیں سکتے
دلوں پر وہ کسی کے بھی حکومت کر نہیں سکتے
سنو کرسی پے رہنے کا ذرا بھی حق نہیں تم کو
اگر تم بہن بیٹی کی حفاطت کر نہیں سکتے
آج ملک ہی نہیں ساری دنیا میں اس شرمسار واقعہ پر لوگ افسوس کرتے ہوئے اپنے آنسوؤں کو روک نہیں پارہے ہیں۔ آصفہ کی عمر کا تصور کرو کہ اس عمر کی لڑکی عام گھرانوں میں بھی نیند سے بیدار ہوجائے اور پانی کی ضرورت پڑے تو وہ ا پنے مائی یا ماں کواٹھائے گی، فریج تک اپنے ہی گھر میں جانے کیلئے گھبراتی ہے، ایسی عمر کی لڑکی کی درندوں نے ایسی جگہ پر اجتماعی عصمت ریزی کی جس کی چیخ و پکار صرف درندوں کو ہی سنائی دے رہی ہوں گی ۔ آصفہ پر کیا گزری ہوگی ۔ اس کی تصور سے آج سارا ملک عجیب و غریب کیفیت سے دوچار ہے ۔ ہر مذہب کے خواتین ، لڑکیاں ، لڑکے اس واقعہ پر افسوس کرتے ہوئے ایک ہی بات کہہ رہے ہیں کہ ایسے درندوں کی سزا کسی چوراہے پر کھڑا کر کے سولی پر چڑھا دینا ہے ورنہ لوگ اپنی معصوم بچیوں کو اسکول وغیرہ بھیجنے سے بھی گھبرائیں گے۔

غور سے دیکھ میری معصومیت کو اے ابن آدم
میں حوا کی نشانی ہوں تیرے ہاتھ کا کھلونا نہیں
بیٹی کی محبت ماں باپ کا غرور ہوتی ہے، معصومیت کے دور سے ہی وہ تہذیب میں اپنے آپ کو ڈھالتی ہے ۔ بیٹی کی معصومیت اور اس کی تہذیب کی ایک مثال یہ ہے کہ ’’بیٹی ماما میں آپ کی انگلی چھوڑدوں ماما کیوں بیٹی ایسا کیوں ؟
بیٹی : ماما چلتے چلتے آپ کا سایہ میرے پاؤں کے نیچے آتا ہے ، ایسی کمسن بیٹی کی سوچ پر ماں باپ فخر کرتے ہیں۔ آج سماج میں آصفہ کے واقعہ نے ملک کے ہر طبقہ میں بے چینی کی کیفیت پیدا کردی کہ انسان نما جانور سماج میں ناسور بنتے جارہے ہیں۔ ملک کے وزیراعظم کو چاہئے کہ وہ اپنی خاموشی توڑیں اور انتہائی سخت قدم اٹھاتے ہوئے ایسے واقعات کے تدارک کے لئے کام کر یں ورنہ ملک کا ہر شہری یہی تصور کرے گا کہ جب سے نریندر مودی نے حکومت سنبھالی ہے ، بیٹی بچاؤ ، بیٹی بچاؤ ، بیٹی بچاؤ کا نعرہ دے رہے ہیں۔ عوام یہ نہ سمجھیں کہ کہیں اسی لئے بیٹی بچاؤ پر توجہ دی گئی ؟ یاد رکھو ایک لڑکی تب تک کمزور ہوتی ہے جب تک وہ روتی ہے۔ جس دن اس نے رونا چھوڑدیا تو ان کو رونا پڑے گا جنہوں نے اس کو رلایا ہے اس کے چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ، وہ بھی نہ کبھی مل ہی جاتی ہیں، صرف انسان ہیں جن کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا ۔ وہ دوبارہ بھی نہیں ملتے۔ ہر بیوی اپنے شوہر کیلئے ملکہ تو نہیں ہوتی لیکن ہر بیٹی اپنے باپ کیلئے شہزادی ضرور ہوتی ہے ۔ آج آصفہ کے والد کی شہزادی کے ساتھ جو ہوا اس کی سلطنت برباد ہوگئی ۔ پھول جیسی بچی کو درندوں نے اپنی ہوس کا شکار بناکر موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ آج ملک کی اکثریت صف آرا ہوتے ہوئے ذات پات کے بھید بھاو سے ہٹ کر آصفہ کو انصاف دلانے کیلئے کمربستہ ہے کیونکہ یہاں انسانیت شرمسار ہوئی ہے۔ اب وقت آچکا ہے کہ حکومت ایسے واقعات کی روک تھام اور خاطیوں کو سخت سے سخت سزا جلد سے جلد انصاف دلائے ورنہ ملک کی مائیں عمران پرتاپ گڑھی کے اس شعر کویاد کرتے ہوئے ملک کے وزیراعظم کو احساس دلانے پر مجبور ہوجائیں گے۔
اور کتنا ہمیں برباد کروگے صاحب
کیا ستم اور نیا انجام کروگے صاحب
خود کو اولاد نہیں ہے تو بتاؤ اتنا
کتنی ماؤں کو بے اولاد کروگے صاحب
بزرگوں کا قول ہے کہ اگر بیٹیاں نہیں ہوتی تو والدین کے جنازے سناٹوں میں اٹھتے کیونکہ بیٹیاں گھبرا جاتی ہیں جب ماں باپ پاس نہیں ہوتے، آج اس واقعہ پر عوامی جذبات کی ترجمانی پر قلم بھی کانپ رہا ہے۔