افسانہ نئی صبح

ولی تنویر
آج کی رات برسات کی سب سے اندھیری اور خوفناک رات ہے ۔ رات کا سیاہ کاجل فضا میں بکھر چکا ہے ، موسلادھار بارش ہورہی ہے ، بادلوں کے دبیز پردے کائنات کو اپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں ۔ بادلوں کی گرج اور بجلی کی خوفناک چمک سے ماحول بڑا ہی وحشت ناک ہوگیا ہے ہر طرف بارش کا شور اور اندھیرے کا سیاہ کاجل ہے ، دور دور تک کوئی ذی روح نظر نہیں آتا ۔ شہر سونا سونا اور اداس ہوگیا ہے ، ماحول پر نحوست برس رہی ہے ، خاموشی اور نحوست کی چادر میں لپٹے ہوئے اس شہر کی آبادی سے دور جنگل کے کنارے ایک چھوٹی سی بوسیدہ گھاس پھونس کی جھونپڑی واقع ہے ۔ یہ پگڈنڈی جس پر میں اس وقت چل رہا ہوں اسی خستہ حال جھونپڑی تک جاپہنچتی ہے ۔ پگڈنڈی کے اردگرد لمبی لمبی گھاس اگ آئی ہے ۔ اندھیرے میں راستہ سجھائی نہیں دیتا ، کبھی کبھی بجلی چمک جاتی ہے تو دور تک چلی گئی یہ سونی پگڈنڈی نظر آجاتی ہے اور میں آہستہ آہستہ چلنے لگتا ہوں ۔ کس قدر دشوار گذار ہے یہ راستہ ، بے شمار کانٹے پڑے ہیں ، بے حد پتھریلی ہے یہ زمین ۔ میں بہت دیر سے اس راہ پرچل رہا ہوں ، میرے قدم نڈھال ہیں میری منزل اب کچھ ہی دوری کے فاصلے پر ہے ، میں بڑی ہمت سے اپنے نڈھال اور لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہوں ، میرے کاندھوں پر کافی بوجھ ہے ، اتنا بوجھ ہے کہ اگر کوئی میری جگہ ہو تو شاید اس بوجھ تلے دب کر رہ جائے ، چلتے ہوئے کبھی میں چاہتا ہوں کہ اس بوجھ کو یہیں پر پھینک دوں اور اس دشوار گذار راہ سے کہیں دور بھاگ چلوں ۔ لیکن دوسرے ہی لمحے مجھے اس مقدس بوجھ کو سنبھال کر لے چلنے کی ذمہ داری کا احساس چونکادیتا ہے ۔ میری ہمت اور بھی بڑھ جاتی ہے ۔ اور میں پہلے سے زیادہ جوش و خروش کے ساتھ اس پتھریلے راستے کو طے کرنے لگتا ہوں ۔ تھوڑی دیر بعد ایک بار پھر بجلی چمکتی ہے تو اس کی روشنی میں جھونپڑی کو میں اپنے قریب پاتا ہوں ۔

میں ٹین سے بنے ہوئے دروازے کو کھٹکھٹاتا ہوں ۔ کون ہے ؟ دروازہ کھلا ہے اندر چلے آؤ ! ۔ اس کی بیمار اور نحیف آواز جھونپڑی کے اداس ماحول کو چیرتی ہوئی میرے کانوں سے ٹکراتی ہے اور ٹین کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوجاتا ہوں ، اندر بے حد اندھیرا ہے اور اس اندھیرے میں اس کے کراہنے کی دردناک آواز ابھر رہی ہے ۔ ’’تم جہاں کھڑے ہو وہیں پر محراب میں چراغ رکھا ہوا ہے روشن کرلو‘‘ ۔ وہ کراہوں کے درمیان کہتی ہے ۔ پاس رکھی ہوئی دیا سلائی جلا کر میں چراغ روشن کرلیتا ہوں ۔ چراغ کی مدھم روشنی جھونپڑی میں پھیل جاتی ہے ، وہ قریب ہی ایک بوسیدہ چارپائی میں دھنسی درد سے کراہ رہی ہے ۔ میں اس کے پاس بیٹھ جاتا ہوں ۔ چراغ کی ہلکی روشنی میں اس کا اداس اور مرجھایا ہوا چہرہ صاف نظر آرہا ہے ۔ اتنی سردی کے باوجود اس کے چہرے پر پسینے کے قطرے نکل آئے ہیں ۔ میں اپنے رومال سے جب پسینہ پونچھتا ہوں تو ششدر سا رہ جاتا ہوں ، اس کا جسم بخار کی شدت سے بھٹی کی طرح جل رہا ہے۔ ایک ساتھ کتنی بیماریاں اس پر ٹوٹ پڑی ہیں ؟ وہ اب اس وقت نحیف اور کمزور ہوچکی ہے کہ بات کرنا تک اس کے لئے دشوار ہوگیا ہے ۔ یہاں اس اس کا اپنا کوئی نہیں ہے ۔ یوں تو اس کے عاشقوں اور پرستاروں کی تعداد ہزاروں اور لاکھوں میں ہے سب ہی اس سے محبت جتاتے ہیں ۔ لیکن وہ اب یہاں اس بوسیدہ جھونپڑی میں تن تنہا کسمپرسی کے عالم میں اپنی زندگی کے دن کاٹ رہی ہے !

پچھلے چند برسوں سے مجھے بھی اس سے محبت ہوگئی تھی ۔ یوں تو میں اس کو بچپن سے ہی جانتا اور چاہتا آیا ہوں اس سے ملنے اور بات چیت کرنے سے پہلے میں نے اس کے بہت چرچے سنے تھے لوگوں کی زبانیں اس کے حسن و نزاکت کی تعریف کرتے ہوئے تر رہا کرتی تھیں ۔ مجھے بھی اس سے ملنے کا شوق ہوا اور یہی جذبہ مجھے اس کے پاس کھینچ لایا تھا ، پہلی بار جب میں نے اس کو دیکھا تھا تو اس کی حالت مجھ سے پہچانی نہ جاتی تھی ۔ اسکے تعلق سے لوگوں کی جو رائے تھی اس سے وہ بہت مختلف تھی ۔ نہ تو اب وہ جوان اور حسین رہی تھی اور نہ ہی کوئی بات اس میں ایسی رہ گئی تھی جس کی تعریف کی جاسکتی تھی وہ یکسر بدل گئی تھی …

۔ میں اس سے روز ملتا رہا ۔ اس طرح دن گزرتے رہے ، ایک دن اس نے مجھے بتایا کہ وہ کسی زمانہ میں واقعی بہت حسین اور جوان تھی ، لوگ اس وقت اس کی جوانی کی داستانیں بیان کیا کرتے رہے ۔ اس کے عشق ومحبت کے قصیدے پڑھتے تھے لیکن اب یہ عالم ہے کہ اس کے عاشق اور پرستار اس سے ڈر کر دور بھاگتے ہیں ۔ اس نے گلوگیر آواز میں مزید کہا ’’اب تو میرا نیلام کیا جاتا ہے ، میرے جسم اور میرے جذبات کی قیمت وصول کی جاتی ہے ۔ مجھے سر بازار رسوا کیا جاتا ہے ، میری جی بھر کے بے عزتی کی جاتی ہے ۔ لوگ مجھے لوٹتے ہیں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے ، کوئی میری صورت تبدیل کرنا چاہتا ہے تو کوئی میری صورت اور سیرت دونوں کے درپے ہیں ۔ یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھیں نم ہوگئیں ۔ ایک دن میں نے اس سے اس کی پچھلی زندگی کے بارے میں سوال کیا تھا ۔ میرے سوال پر وہ بہت غمگین ہوگئی وہ مجھے پہلے تو ٹال دینا چاہتی تھی ۔ کہنے لگی ’’میری داستان سن کر تم کیا کروگے ۔ وہ لوگ کیا کررہے ہیں جو میری کہانی سے واقف ہیں ؟‘‘ لیکن میں مصر تھا کہ وہ اپنی داستان مجھ سے بیان کرے ۔ تب اس نے بڑے متاثرکن انداز میں کہنا شروع کیا ’’سنا ہے کہ میں نے دہلی کے کسی باعزت گھرانے میں جنم لیا تھا ۔ میں ابھی اپنے بچپن کے لطیف اور آرام دہ زینے طے کرکے لڑکپن کی چوکھٹ پر قدم رکھ رہی تھی ،

مجھے یہاں تک پہنچتے پہنچتے بہت سے مصائب برداشت کرنے پڑے ۔ میرے حسن اور جوانی کے چرچے بھی ساتھ ساتھ ملک بھر میں ہورہے تھے ، جہاں مجھے مصائب و آلام سے دوچار ہونا پڑا وہیں پر مجھے عزت اور شہرت بھی بہت ملی ۔ ہر کس و ناکس میری چاہت میں میری طرف بڑھنے لگا تھا ، ہر کوئی مجھے اپنا لینا چاہتا تھا ، اپنی جوانی کے کچھ دن میں نے لکھنؤ میں گزارے ۔ لکھنؤ کا گھرانہ بھی مجھے راس نہ آسکا ۔ میں جوان اور حسین تو تھی ہی اس لئے میری جان کے لالے پڑگئے ۔ اب لکھنؤ میں میری جان بچانے والا کوئی نہیں رہا تھا ، اس کو اتفاق ہی کہنا بہتر ہوگا کہ میرے حسن و شباب کے چرچوں سے نظام دکن کے کان بھی آشنا ہوگئے ۔ وہ تو شروع ہی سے حسن پرست واقع ہوئے تھے ۔ انہوں نے مجھے فوراً اپنے پاس بلالیا اور اپنی ریاست کی ملکہ بنادیا ۔ یہاں میری خوب خاطر مدارات ہونے لگی ، خوب چاؤ ہونے لگے ۔ وہ دن میری زندگی میں بہار کے دن تھے ۔ نظام کی خاص توجہ سے میری جوانی میں اور بھی نکھار پیدا ہوگیا ۔ نظام نے مجھے اٹوٹ پیار دیا ۔ ہمیشہ وہ میرے آرام و آسائش کی طرف مائل رہتے ہیں ۔ میری خوبصورتی اور حسن کی بقا و ترقی کیلئے انہوں نے بہت کچھ کیا ۔ میری بہتر تعلیم و تربیت کے لئے انہوں نے کافی دولت خرچ کی ، محض میری خاطر ایک یونیورسٹی قائم کرڈالی اور جس کی دنیا بھر میں مثال نہیں ۔ میں یہاں آکر بہت خوش تھی ، بے حد مطمئن ، میری زندگی اب پرسکون راہ پر گزر رہی تھی ۔ اب مجھے اپنی مندگی کی کوئی پروا نہیں رہی تھی ۔ مجھے شہرت کے ساتھ ساتھ اتنی عزت اورہمت ملی کہ میں بلاکسی جھجک کے اپنی ہم عمر سہیلیوں سے آنکھیں چار کرسکتی تھی‘‘ ۔ اتنا کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے اور آواز بھاری ہوچلی تھی ۔

اس نے پھر کہا ’’لیکن میری اس بہار کی عمر بہت کم تھی ۔ نظام کی حکومت ختم کیا ہوئی کہ میرا سہاگ لٹ گیا ۔ بس یہیں سے میری زندگی کی کتاب کا تاریک باب شروع ہوتا ہے ۔ میں اب معذور ہو کر رہ گئی ۔ اب میری یہاں پر کوئی وقعت نہیں رہی ۔ اس یونیورسٹی سے جو محض میرے لئے کھولی گئی تھی مجھے بڑی بے دردی اور بے رحمی کے ساتھ نکال دیا گیا ۔ اب میرے شہر میں داخلے پر بھی پابندی سی لگی ہوئی ہے ، میں کس کو اپنا حال سناؤں ۔ میری اب کون سنتا ہے ۔ میرے چاہنے والے ہی خود اب مجھ سے انجان بنے بیٹھے ہیں ۔ میری پرستار اب مجھ سے آنکھ ملانے خوف محسوس کرنے لگے ہیں ۔ اب مجھے اپنا کہتے ہوئے انہیں ڈر سا ہونے لگا ہے ۔ وہ مجھے بدنام اور رسوائے زمانہ کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے‘‘ ۔ یہ کہتے ہوئے وہ رنجیدہ ہوگئی ۔ اور آنکھیں پرنم ہوگئیں ۔ میں نے اسے دلاسادیا کہ ’’یہ تمہاری پریشانی کی زندگی بھی باقی نہیں رہے گی ۔ ضرور پھر سے تمہاری زندگی میں بہار آجائے گی ۔ تمہارے دن پھر سے سنور جائیں گے‘‘ ۔ تب اس نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور ایک کھوکھلے قہقہے کے درمیان کہا ’’تم بھی عجیب باتیں کرتے ہو ۔ یہ سب خوش فہمیاں ہیں ۔ خواب کی کوئی حقیقت ہوتی ہے ۔ میرے دن کیسے پھر سے بدل سکتے ہیں؟‘‘ ۔ یہ بات کہنے والے ساون کے اندھے ہیں انہیں ہرابھرا ہی نظر آتا ہے ہمیشہ ……

اس دن ہم دیر تک باتیں کرتے رہے تھے … میں ہر روز اس سے ملتا جی بھر کے باتیں ہوا کرتی تھیں ۔ اور دن گزرتے رہے اور آج تو اس کی صحت بہت ہی خراب ہوگئی ہے ۔ شاید یہ رات اس کی زندگی کی آخری رات ہو ۔ ابھی کچھ دیر پہلے اس کو دل کا دورہ پڑا تھا ، درد کی شدت سے وہ تڑپ گئی تھی اور میں مجبورو بیکس اس کو دیکھتا رہ گیا تھا ۔ بے انتہا تکلیف کو برداشت کرتے ہوئے اس نے بڑے دردبھرے انداز میں کھانستے ہوئے کہا ۔ میری زندگی بھی برسات کی اسی اندھیری رات کی طرح خوفناک اور سرد ہے ۔ میری زندگی کے تاریک آسمان پر بھی غم کے بادل چھائے ہوئے ہیں ۔ سکون و چین اور آرام نام کا کوئی ستارہ نہیں چمکتا ۔ ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا چھایا ہوا ۔ بجلی کی چمک اور بادلوں کی گرج سے دل دہل جاتا ہے ۔ مجھے یقین ہے اب میں مزید زندہ نہ رہ سکوں گی ۔ میری زندگی کی اس تاریک رات کی کبھی سحر نہیں ہوگی ۔ اب روشنی کی کوئی کرن نہیں پھوٹے گی‘‘ ۔ یہ کہتے ہوئے وہ بری طرح کھانسنے لگی ۔ میں نے سہارا دے کر اس کو تھام لیا اور دوا پلانے کے بعد اس کو قدرے سکون نصیب ہوا تو میں نے اس سے کہا ’’تم اس قدر ناامید کیوں ہوتی ہو ، تمہاری زندگی بہت قیمتی ہے ۔

تمہاری زندگی کی اس تاریک اور اندھیرے رات کی ضرور صبح ہوگی …! وہ دیکھو تمہاری زندگی کے تاریک آسمان کے کنارے پر ستارۂ سحر چمک اٹھا ہے ۔ ابھی کچھ دیر بعد شفق طلوع ہوگا اور پھر ایک روشن سورج تمہاری زندگی کو سنوار دے گا … تم ناامید مت ہونا ۔ تم پھر سے صحت مند ہوجاؤ گی ۔ جوان اور حسین ہوجاؤگی ، لوگ پھر سے تمہیں چاہنے لگیں گے ۔ اس نئی صبح کی روشنی میں سب تمہارا جوان اور خوبصورت چہرہ پھر سے دیکھ سکیں گے ۔ تمہاری زندگی میں پھر بہار آجائے گی ، گزرے ہوئے دن عود کر آئیں گے !! ادھر دیکھو … دیکھو باہر بارش ختم ہوچکی ہے ۔ افق کے کنارے اب رنگین ہونے لگے ہیں ۔ دیکھو تو … اب ذرا غور سے سنو … ان آوازوں کو … دور بہت دور شہر سے ابھرتی ہوئی ان آوازوں پر غور کرو ۔ غور سے سنو !! وہ آواز آج کے بہادر نوجوانوں کی آوازیں ہیں ، آج کے یہ نوجوان تمہاری زندگی میں دوبارہ نئی جان ڈالنے کی طرف متوجہ ہوچکے ہیں ۔ یہ نوجوان اپنی دھن کے بڑے پکے ہیں یہ تمہاری زندگی کو سنوار کر ہی دم لیں گے ۔ یہ نوجوان تمہاری زندگی کی بقا کے لئے اپنی جان کی بازی لگا بیٹھے ہیں ۔ انہیں پورا یقین ہے کہ وہ بہت جلد اپنے مقاصد میں کامیاب ہوجائیں گے ۔ وہ آوازیں تو تمہاری طرف بڑھ رہی ہیں ۔ ارے وہ تو ایک قافلہ سا ہے ۔ دیکھو تو وہ قافلہ تمہاری طرف بڑھ رہا ہے وہ بہت جلد یہاں پہنچ جائیں گے ۔ انہیں اپنی منزل مل جائے گی ۔ دیکھو تو ان کا جوش اور ولولہ ۔ ان کا جذبہ ایثار دیکھو ! وہ تمہاری خاطر اپنا سب کچھ قربان کردینے کو تیار ہیں۔ اور یہی لوگ شاید تمہاری زندگی کو صحیح انداز میں سنوار سکیں گے …!!

ارے یہ کیا ؟ تم تو مسکرارہی ہو … تمہارا مرض کدھر غائب ہوگیا ؟ تمہارے لب و رخسار گلاب کی طرح سرخ ہورہے ہیں ۔ سر کے بال سیاہ اور چمکدار ہوگئے ہیں ۔ تمہارا لباس کس قدر قیمتی ہے ۔ تم کتنی حسین اور خوبصورت ہوگئی ہو تم اتنی جلد کس طرح بدل گئی …؟؟ کس قدر خوش نصیب ہو تم !!
ٹرن … ٹرن … ٹرن!! کال بیل کی تیز آواز پر میں چونک کر نیند سے بیدار ہوگیا ۔ ’’اخبار لے جاؤ‘‘ ۔ باہر دروازے پر اخبار والا پکار رہا تھا ۔ صبح پوری طرح مسکراچکی تھی ۔ میں بستر سے فوراً اٹھا اور باہر کی طرف لپکا … اخبار والا آج کا تازہ اخبار ڈال کر بہت دور نکل گیا تھا ۔ دور بہت دور سے اس کے پکارنے کی آواز آرہی تھی ’’آج کی تازہ خبر ۔ طلباء اردو کے سارے مطالبات حکومت کی جانب سے قبول کرلئے گئے ۔ دو طلباء کی گیارہ روزہ بھوک ہڑتال کا کامیاب اختتام … طلباء اور نوجوانوں کی اردو کیلئے کی گئی جد وجہد کامیاب، آج کی تازہ خبر ، آج کی تازہ خبر‘‘ ۔ اخبار کو اٹھا کر میں بے اختیار چومنے لگا !!