افسانہ … سمجھوتہ

اسریٰ تبسم
دادا ابا کا خیال تھا کہ سمیرایک بہت ہی اچھا اور سمجھدار بچہ ہے ، ماں باپ بے جا سختی کرکے اسے بگاڑنے پر تلے ہوئے ہیں۔ پتہ نہیں دادا ابا کی بات کہاں تک سچ تھی لیکن خاندان کے دوسرے افراد کو سمیر ایک نہایت ہی شریر ، ضدی اوراپنی من مانی کرنے والا بچہ ہی لگتا۔ اچھی شکل وصورت کی وجہ سے اور کبھی کبھی سمجھداری کی باتیں کرلینے کی وجہ سے اسے سب چاہتے بھی بہت تھے۔ پڑھائی میں بھی اس نے کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا تھا بلکہ فیشن زدہ نوجوان کے طور پر مشہور ہوگیا تھا ۔ بہ مشکل تمام میٹرک پاس کیا تو ، امی نے اسے ایک ایسے سخت ڈسپلن والے کالج میں داخلہ دلوادیا جہاں جنس پینٹ پہننے کی اجازت نہ تھی ۔ سمیر کے پاپا اسے انجنیئر بنانا چاہتے تھے لیکن ناپسندیدہ کالج کی وجہ سے ضد میں آکر سمیر نے انٹر بھی ادھورا چھوڑدیا ۔ انٹرمیڈیٹ کے امتحانات کے دوران ہی اس کی ملاقات سارا حشمت سے ہوئی تھی ۔ سارا کا نمبر سمیر کی آگے والی نشست پر تھا۔ وہ امتحان کے دوران بڑی عاجزی سے سارا کو مجبور کرتا کہ وہ اسے نقل کروائے ۔ وہ بڑی بڑی چاکلیٹیں سارا کو تحفے میں دیتا اور کہتا سارا اب تم ہی میرا سہارا ہو۔ دیکھو مجھے نقل کروادو، ورنہ خاندان میں میری یہ اونچی ، خوبصورت ناک کٹ جائے گی۔
’’پلیز ‘‘! وہ اشاروں میں ہاتھ جوڑتا منت سماجت کرتا۔ ’’پڑھ کر کیوں نہیں آتے ‘‘؟ ناک کا اتنا خیال ہے تو ۔ سارا ناک چڑھائی۔
’’وقت نہیں ملتا نہ پڑھنے کیلئے ۔ وہ بڑے بھولے پن سے کہتا۔
’تو کیا اپنی فیملی کیلئے کماتے ہو ! سارا حیران رہ جاتی۔
’’کماتا نہیں ، باوا کی کمائی اڑاتا ہوں‘‘۔ وہ دل ہی دل میں کہتا اور ’’ہوں‘‘ میں جواب دیتا اور اس کے باوجود وہ انٹرمیڈیٹ مکمل نہ کرسکا اور فیل ہوگیا اور سعودی میں موجود پاپا کو اس نے خبر تک نہ ہونے دی تھی اور اوپن یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا تھا ۔ پتہ نہیں سارا کا نمبر سمیر نے کس طرح حاصل کرلیا تھا ۔ سارا ایسے کوڑھ مغز لڑکے سے کوئی تعلق رکھنا نہیں چاہتی تھی ۔ خوش اخلاق ، خوش گفتار اور خوش شکل سمیر اسے اپنی باتوں میں لے ہی آیا ۔ وہ بہرحال باتیں بنانے کے فن میں ماہر تھا۔
سارا نے ایم بی اے کرلیا تھا اور سمیر مارے باندھے اوپن یونیورسٹی سے بی کام کر کے بے کام ہی پھر رہا تھا ۔ سارا کے والد حشمت صاحب کو بیٹی کی سرگرمیوں کا پتہ چلا تو وہ اس کی جلد سے جلد شادی کروانے کیلئے سرگرم ہوگئے ۔ ان کی بہن ہی نے اپنے بیٹے کے لئے سارا کو مانگ لیا تھا جو یو ایس میں ہوتا تھا۔ سارا دل مسوس کر رہ گئی ۔ بابا کی نیک نامی کی وجہ سے اس نے سمیر سے قطع تعلق کرلینا ہی مناسب سمجھا تھا ۔ سمیر کی لاکھ کوششوں کے باوجود سارا سے اس کا رابطہ نہ ہوسکا تھا ۔ سمیر اپنی بلٹ پر روزانہ کم از کم تین چکر سارا کے گھر کے لگاتا اور دندناتا ہوا گزر جاتا۔ جیسے ہی بلٹ کی آواز آتی ، حشمت صاحب جن کی طرح گیٹ پرنمودار ہوکر اور دھول اڑاتی گاڑی کو کھاجانے والی نظروں سے دیکھتے۔ بیٹی کی خوشیوں کی خاطر حشمت صاحب نے سمیر کی انکوائری بھی کروائی تھی لیکن وہ ایک نااہل ، ناکارہ ، ناکام ، ناسمجھ اور نافرمان نوجوان نکلا۔ اتنے سارے ’نا‘ کے لاحقوں کے ساتھ وہ سمیر کو ریجکٹ کرنے پر مجبور ہوگئے تھے ۔
مگر سمیر کو اس بری طرح ریجکٹ کئے جانے پر بھی عقل نہ آئی ۔ جب سارا سے تعلق ختم ہوا تو وہ دوسری فضولیات میں مشغول ہوگیا ۔ چار سال کا عرصہ گزرجانے پر بھی سمیر کی روش نہ بدلی ۔ تب اس کی خالہ نے اسے ابو ظہبی بلالیا۔ جہاں واسطے کے ذریعہ اسے ابو ظہبی کی ملٹری میں ایک بہترین جاب مل گئی ۔ امی اور پاپا نے جیسے سکھ کا سانس لیا ۔ ابوظہبی میں جاب ملنے کے بعد وہ کسی قدر قاعدے کا ہوگیا تھا اور سنجیدہ بھی اسے اب سمجھ میں آیا تھا کہ ملازمت اتنی آسانی سے نہیں ملتی، اس کی قدر کرنی چاہئے ۔ دو مہینے کام کے بعد انڈیا میں ایک مہینہ چھٹی مناتا تھا۔
ایک بہت ہی اچھے خاندان میں سمیر کی شادی کردی گئی ۔ سنبل بہت ہی خوش اخلاق ملنسار اور مشترکہ خاندان کی پروردہ تھی۔ شادی شدہ ہونے کے بعد سمیر بہت ہی ذمہ دار ہوگیا تھا اور ایک خوبصورت بیٹے شاذ کا باپ بھی بن گیا تھا ۔
ایک دن یوں ہی سیل فون پر اسے سارا مل گئی ۔ سمیر نے فوری دعا سلام شروع کردی، تب سارا نے اپنی زندگی کی مشکلات کا رونا رویا ۔ اس کا خالہ زاد شوہر یو ایس میں شادی شدہ تھا ۔ اس نے گرین کارڈ کیلئے وہاں ایک امریکن لڑکی سے شادی کر رکھی تھی اور بال بچوں والا تھا ۔ والدین کے مجبور کرنے پر اس نے سارا سے شادی کرلی تھی اور جیسے ہی حشمت صاحب کا انتقال ہوا ، اس نے سارا کی خبر لینی چھوڑدی ۔ وہ اپنی چھ سالہ بیٹی کے ساتھ تنہا زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئی تھی ۔ سارا کے غم میں ماں بھی جلد ہی فوت ہوگئی تھیں۔
اتنا عرصہ گزرجانے پر اور ایک بچے کا باپ بن جانے کے بعد بھی سمیر کے دل کے کسی گوشہ میں سارا اب بھی موجود تھی ۔ وہ اس کے دکھ پر تڑپ کر رہ گیا ۔ اگر سارا کے بابا جان اس وقت مان جاتے تو آج وہ اس کے ساتھ ایک خوشگوار زندگی گزار رہی ہوتی ۔ سمیر نے اس کے شوہر سے خلع لینے کے لئے اس پر دباؤ ڈالنا شروع کیا۔ اس کا خیال تھا کہ ایک ایسے شخص کے نام پہ زندگی کیوں گزارے جسے اس کی پرواہ نہیں تھی ۔ وہ سارا کو اس کی بیٹی کے ساتھ قبول کرنے پر تیار ہوگیا ۔ سارا کو اور اس کی بہنوں کو اس بات پر اعتراض تھا کہ وہ شادی شدہ اورایک بچہ کا باپ تھا ۔ وہ اس کی پہلی بیوی کی حق تلفی کے حق میں نہ تھیں لیکن وہ سمیر ہی کیا جو دوسروں کی بات مانے ۔ سارا کو خلع دلوانے کے بعد وہ سارا اور اس کی بیٹی کو اپنی ذمہ داری سمجھنے لگا اور دونوں کا خرچ اٹھانے لگا ۔ جب اس صورتحال کی خبر سمیر کی امی اور پاپا کو ہوئی تو وہ حیران و پریشان رہ گئے کہ وہ سنبل کے والدین کو کیا جواب دیں گے۔ سنبل پر بجلی سی گر پڑی ، زندگی کے کسی موڑ پر شوہر کی بے وفائی کا دکھ بھی سہنا پڑے گا ۔ اس نے خواب میں بھی نہ سوچا تھا۔ وہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹھی تھی اور بے حد لاڈلی بھی ۔ اس کے بابا اسے لاڈ سے سنبل کی بجائے بلبل کہتے تھے ۔ اس نے سمیر کو دوسری شادی کی اجازت دینے سے صاف انکار کردیا۔ آپ ایسا نہیں کرسکتے، میں آپ کو اس کی ہرگز اجازت نہیں دوں گی ۔ اپنے معصوم بیٹے کا تو خیال کرلیا ہوتا ۔ سنبل کو رونا آرہا تھا ۔ ’’اجازت‘‘ !! اجازت کون مانگ رہا ہے۔ اس نے تمسخر سے کہا تھا ۔
’’میں تمہیں اطلاع دے رہا ہوں۔ منانا تو مجھے ممی پاپا کو ہے‘‘ کیونکہ مجھے سارا کو پوری عزت کے ساتھ اس گھر میں لانا ہے‘‘۔
اس نے سنبل کو دھمکی دے رکھی تھی اور قطع تعلق کئے ہوئے تھا ۔ جب بھی انڈیا آتا صرف ممی پاپا کو قائل کرنے میں لگا رہتا۔ سنبل مجبور ہوگئی۔ ایک لڑکے کے ساتھ اسے کون قبول کرتا۔ ا یک سال یوں ہی بیت گیا لیکن ممی اڑی رہیں کہ وہ اسے دوسری شادی کی اجازت ہرگز نہ دیں گی ۔ وہ صرف یہ چاہتا تھا کہ سارا پر کوئی انگلی نہ اٹھائے ۔ امی پاپا اس کے نکاح میں شریک ہوں اور سارا کو اپنے ساتھ گھر لے آئیں۔
آخر سنبل نے ہتھیار ڈال دیئے ، اس نے اپنے دل پر پتھر رکھ کر  ممی کو منالیا تھا کہ گھر کے سارے افراد تناؤ کے ماحول میں تھے ۔ سمیر کے ساتھ سارا کا نکاح سادگی سے کردیا گیا ۔ سمیر کی چھٹی کے دوران سنبل اپنے والدین اور بیٹے کے ساتھ عمرہ کیلئے روانہ ہوگئی ۔ اس نے وہاں اپنے دل کے سکون اور پرسکون ازدواجی زندگی کیلئے بے شمار دعائیں مانگی تھیں۔ سب کی کوششوں کے بعد بھی سمیر نے اپنی ہی کی۔
خاندان والے حیران تھے ۔ دوسری شادی کا یہ پہلا واقعہ تھا ، خاندان میں جتنے منہ اتنی باتیں، تبصرے، ایک دلچسپ موضوع ہاتھ لگ گیا تھا ، تقاریب کے دوران ہر کوئی سمیر اور اسکی دو بیویوں کو تاڑتا رہتا ۔ سوتیلی بیٹی سے سمیر کے رویے پر غور کیا جاتا لیکن سمیر بہت زیادہ حقیقت پسند واقع ہوا تھا۔ وہ دونوں بیویوں کی ذمہ داری بہ حسن و خوبی اٹھا رہا تھا ۔ ایک کو دوسرے پر ترجیح نہ دیتا۔ اس بات کا خیال رکھتا کہ سنبل اس کے والدین کی چہیتی بہو ہے ۔ سنبل تو تھی ہی وسیع القلب ، اس نے کھلے دل سے دونوں ماں بیٹی کو قبول کرلیا تھا ۔ پاپا نے سنبل کیلئے ملیشیا سے فرنیچر منگوایا تھا ۔ اب سارا کیلئے بھی اس نے پاپا سے کہہ کر ملیشین فرنیچر منگوایا تھا اور خود کمرہ سیٹ کیا تھا ۔ سب حیران رہ جاتے ۔ سنبل کا خیال تھا کہ حقیقتوں کو قبول کرنے سے ہی زندگی سہل ہوجاتی ہے ۔ منفی رویوں سے تینوں کی زندگی ہی جہنم بن جاتی اور لوگ باتیں ہی نہیں ان کی زندگی کو بھی تماشہ بنادیتے۔ خوشگوار زندگی گزارنے میں جہاں سنبل نے سمیرکا پورا پورا ساتھ دیا سارا نے بھی نہ صرف تعاون کیا بلکہ وہ اس کی وسیع القلبی کی قائل ہوگئی ۔ سنبل خوب سمجھی ہوئی تھی کہ وہ چوں بھی کرتی تو سمیر اسے گھر سے نکالنے میں دو منٹ بھی نہ لگاتا اور سارا کو بھی اچھی طرح معلوم تھا کہ سمیر کی محبت کے بل پراگر وہ کوئی بھی حق جتانے کی کوشش کرتی تو ممی پاپا اسے ایک منٹ بھی برداشت نہ کرتے۔ سارا ان سب کی مشکور تھی کہ اسے سہارا دیا گیا تھا ۔ وہ معاشرے میں سر اٹھاکر جینا چاہتی تھی ۔ ا یک بیٹی کا ساتھ جو تھا۔
دادا ابا مرحوم کا خیال کتنا درست تھا کہ سمیر واقعی ایک اچھا اور سمجھدار انسان تھا ۔ بس ذرا اسے سمجھنے کی  ضرورت تھی ۔ سمیر اس خوبی سے دونوں بیویوں کی ذمہ دار اٹھائے گا کسی نے سوچا تک نہ تھا اور … امی پاپا اس لئے خوش اور مطمئن تھے کہ بیٹے کی دونوں بیویوں میں مقابلہ آرائی تو تھی لیکن نیکی ، اچھائی اور خدمت گزاری میں۔