افسانہ ’’دیپ جلایا پلکوں پر‘‘

خیرالنساء علیم
جاثم جب سے نانی جان کے گھر آیا تھا ، شدت سے اس بات کو نوٹ کر رہا تھا کہ اس گھر میں سا رے کام بڑے سوچ بچار اور فیصلوں کی کئی سیڑھیاں عبور کرنے کے بعد طئے ہوتے ہیں۔ جیسے چھوٹی خالہ جس لڑکے کو چاہتی تھیں۔ نانی جان ، بڑے ماموں پسند نہیں کرتے تھے ، بڑے ماموں اور چھوٹے ماموں کی شادیوں کا مسئلہ بھی ایسے ہی انکار ہوا تھا کہ نانی جان جس جگہ شادی کرنا چاہتیں ، وہاں ماموں لوگ تیار نہیں تھے ۔ یوں کسی کی کچھ پسند تو کوئی کسی کو پسند کرتا تھا ۔
نازنین نانی جان کی منجھلی بیٹی کی بیٹی تھی جو ابھی صرف دو سال کی ہی تھی کہ اس کے ماں اور باپ دونوں ہی بس کے ایکسیڈنٹ میں گزر گئے ۔ نتھی سی نازنین کی پرورش نانی جان نے کی تھی ۔ ان کی سخت تربیت سے وہ بہت ڈری سہمی ہی رہتی تھی ۔ حالانکہ اب وہ B.A. کی طالبہ تھی مگر اس میں اعتماد کی بہت کمی تھی ۔
پڑھنے کیلئے جاثم جب دو سال تک نانی جان کے ساتھ رہا تو اس کی خوش اخلاقی و ملنساری نے نازنین کے رویے میں اعتماد کی کمی کو دور کیا ۔ یوں اس میں ہمت و حوصلہ پیدا ہوا ۔
میرے امتحانات ختم ہوگئے تھے ۔ مجھے اپنے گاؤں واپس جانا تھا ۔ جب میرے جانے کا نازنین کو معلوم ہوا تو وہ بہت اداس ہوگئی ۔
’’جاثم ! تم یہاں پھر کبھی نہیں آؤ گے ؟
’’کیوں نہیں آؤں گا۔ میں ضرور آؤں گا ۔ صرف تم سے ملنے…‘‘
میں اس نازک سی لڑ کی کو دیکھ رہا تھا جو میری سنگت میں کتنا کھلی گئی تھی پھر پل بھر میں ایک فیصلہ میں نے کر ہی لیا ۔
’’مجھ سے شادی کروگی نازنین ؟‘‘ میں نے اپنے سینے پر ہاتھ باندھ کر ہلکا سا خم ہوکر کہا اس نے حیرت سے میری جانب دیکھا ۔ اس کے چہرے پر قوس قزح کے رنگ بکھر گئے تھے ۔
’’مجھے معلوم تھا جاثم ‘‘ ۔ وہ کچھ شرما رہی تھی ۔
’’میری بات کا جواب دو … میرے ساتھ خوش رہو گی …‘‘

’’ہاں ‘‘ اس نے اقرار کرتے ہی وہاں سے دوڑ لگادی۔
گاؤں پہنچ کر میں نے اپنا دل نکال کر امی کے سامنے رکھ دیا ۔امی بھی خوش ہوئیں۔ مگر ان کے دل میں خدشے بھی بہت تھے۔
’’سوچ لو بیٹا ! اگر انکار ہوا تو میری بڑی سبکی ہوگی‘‘۔
’’آپ بلا وجہ پریشان ہورہی ہیں۔ انکار نہیں ہوگا ‘‘۔ مجھے اپنی محبت پر اعتبار تھا مگر جب امی ابو واپس آئے تو ان کے اترے چہرے دیکھ کر میرے اندر مایوسیاں اُترنے لگیں پھر ہمت کر کے میں نے خود ہی اپنے ذہن میں اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا کیونکہ مجھے نازنین پسند ہے اور وہ بھی مجھے پسند کرتی ہے ۔ نانی جان کو اپنا فیصلہ بدلنا ہوگا۔
اتفاقاً گیٹ کھلا ہوا تھا میں بے دھڑک اندر داخل ہوگیا ۔ حسب توقع وہ سب لاونچ میں براجمان تھے ۔ مجھے یوں اچانک دیکھ کر وہ سب لوگ ششدر رہ گئے ۔
’’ارے جاثم ! تم کب آئے‘‘؟ بڑے ماموں نے زبردستی مسکراہٹ ظاہر کرتے ہوئے کہا۔
’’ہاں … نہ اطلاع نہ فون ‘‘؟ چھوٹی خالہ پٹ سے بولیں…
’’بیٹھو بیٹا ‘‘۔ چھوٹے ماموں نے ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا ۔
’’میں یہاں بیٹھنے نہیں آیا بلکہ آپ سب سے یہی پوچھنے آیا ہوں کہ آخر آپ لوگوں نے مجھے کیوں مسترد کیا ، کیا کمی ہے مجھ میں ‘‘ ؟ میری آواز خاصی بلند تھی۔
’’جاثم بیٹا ! تم میں کوئی کمی نہیں ‘‘۔ بڑے ماموں نے چھوٹے بھائی کی شکل دیکھتے ہوئے کہا … آنکھوں ہی آنکھوں میں گفت و شنید کی ۔
’’لیکن ہم تمہارے ماں باپ کو جواب دے چکے ہیں‘‘۔ نانی جان کے چہرے پر تاثرات ناگواری کے اثرات ابھر گئے تھے ۔
’’میں یہی پوچھنے آیا ہوں کہ کیوں انکار کیا آپ لوگوں نے … میرے والدین کو ٹکاسا جواب دینے کی وجہ کیا ‘‘؟ میں خاصہ جذباتی ہورہا تھا ۔
’’دیکھو میاں! نازنین ہماری بیٹی ہے ، اس کی زندگی کے فیصلے ہم کریں گے ‘‘۔ بڑے ماموں کے چہرے پر کئی زاویے بن رہے تھے ۔
’’بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں، بھائی جان !‘‘ چھوٹے ماموں نے بڑے ماموں کی ہاں میں ہاں ملائی۔
’’جاثم بیٹا …یہ بڑوں کے کام ہوتے ہیں …‘‘ چھوٹی خالہ نے ذرا آہستہ سے مجھ پر ہاتھ رکھ کر محبت سے کہا …
’’تو کیا آپ نے نازنین سے پوچھا تھا کہ وہ کیا چاہتی ہے؟ ‘‘ میرے اس جملہ پر وہ سب حیرت سے مجھے دیکھنے لگے …
’’ بیٹا ! یہ تم نے خوب کہی ، وہ کیا بولے گی ، وہ تو بچی ہے…‘‘ نانی جان نے اپنا چشمہ اتارتے ہوئے غور سے میری جانب دیکھتے ہوئے کہا ۔
’’اسے کیا علم کہ اسے کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں ؟ ‘‘بڑے ماموں نے تلخ لہجے میں کہا
’’اور پھر وہ کب سے اپنے فیصلے خود کرنے لگی…اسے تو اتنا بھی نہیں معلوم کہ اسے خود کونسا رنگ پسند ہے ۔ وہ اپنے کپڑے مجھ سے پوچھ کر میری پسند کے مطابق پہنتی ہے ‘‘۔
چھوٹی خالہ نے بڑے تفاخر سے کہا …

’’اور میں بھی یہی کہتا ہوں کہ نازنین تمہیں پسند ہی نہیں کرتی۔ اس لئے کہ ہم جانتے ہیں… وہ کیا چاہتی ہے ، آخر کو وہ ہماری بچی ہے ، ہم نے اسے بچپن سے پالا ہے ، اس کی تربیت کی ہے ، چھوٹے ماموں سینہ ٹھونک کر بولے …
’’ہمیں اپنی بچی کی پسند ناپسند کا خوب علم ہے میاں ، ہم اسے بچپن سے جانتے ہیں، ہمارے گودوں میں پلی بڑھی ہے ‘‘، نانی جان نے فیصلہ کن لہجہ میں کہا ۔
’’جی نہیں ، آپ لوگوں کو میری پسند اور ناپسند کا بالکل بھی علم نہیں ہے ، کسی کو بھی کچھ غور و فکر کی عادت نہیں ہے ، چھوٹی خالہ کی پسند سے میں کپڑے پہنتی ہوں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں … اس پر رقت طاری ہو نے لگی۔ نہ جانے کہاں سے وہ خود نمودار ہوگئی جس کی زندگی کے متعلق سب لوگ اپنی اپنی پسند کی رائے دے رہے تھے ۔
میں نے اس کی جانب دیکھا ۔ اس کے معصوم سے چہرے پر پہلی بار مجھے اعتماد کی واضح تصویر نظر آرہی تھی۔ اس کی روشن آنکھوں کی چمک سب کی آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی۔
’’نازنین ! یہ تم کیا کہہ رہی ہو ؟ ‘‘
’’میں بالکل ٹھیک کہہ رہی ہوں بڑے ماموں ! میں آپ کی طرح نہیں بننا چاہتی کیونکہ آپ بزدل ہیں ، اگر آپ میں ذرا بھی ہمت ہوتی تو آپ کب کا زرینہ آنٹی کو میری ممانی بناکر اس گھر میں لے آتے لیکن آپ ڈرپوک ہیں، میں آپ کی طرح ڈرپوک یا بزدل بننا نہیں چاہتی ، مجھے جاثم پر پورا اعتماد ہے، بھروسہ کرتی ہوں میں ان پر … میں سب کو بتا رہی ہوں کہ جاثم مجھے پسند ہے بلکہ ہم دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں‘‘، وہ نہایت اعتماد سے ان سب سے مخاطب تھی ۔ جاثم اسے حیران سا تک رہا تھا ۔ وہ نہایت پر اعتماد اور باوقار نظر آرہی تھی ۔ اپنی بات ختم کرنے کے بعد اسنے مسکراکر جاثم کی طرف دیکھا ، اس کی آنکھوں میں موتی چمک رہے تھے۔ ’’جاثم ! تم مجھے لینے آؤگے نا‘‘۔ ہاں نازنین ! میں ضرور آؤں گا ‘‘۔ شاید میری آنکھیں بھی نم ہورہی تھیں، یہ تشکر کے آنسو تھے ، یا خوشی کے ، البتہ ان سب چہرے فق پڑ گئے تھے ۔ یہ آج تاریخ کی بڑی عجیب داستان تھی کہ جس میں ایک بڑا عجیب فیصلہ بغیر کسی باہمی اصلاح مشورے کے ایک نازک سی لڑکی نے خود صادر کر دیا تھا ۔
ٹھیک ایک مہینے بعد جب جاثم کی بارات اس گھر کے دروازے پر پہنچی تو دور دور سے لوگ اس بارات کو دیکھنے آرہے تھے ۔ اس محلہ کی کھڑکیوں اور دروازوں سے کئی آنکھیں جھانک رہی تھیں کیونکہ اس خاندان کے بارے میں مشہور ہوچکا تھا کہ وہ سب گھر والے آپس میں بحث مباحثے کر کے کسی کا رشتہ بھی طئے ہونے نہیں دیتے تھے ۔ دونوں ماموں ، خالہ اور نانی جان سب کی الگ الگ پسند ۔ جس کی وجہ سے رشتے طئے نہ ہوپاتے ، اب سب سمجھنے پر مجبور تھے کہ ان کے آپسی فیصلے بے جاضد کی وجہ سے ادھورے رہ جاتے تھے ۔ اب نازنین اور جاثم نے ثابت کردیا تھا کہ سچی محبت ہو تو بڑے سے بڑا قدم اٹھایا جاسکتا ہے ۔ یوں ان دونوںکی زندگی میں خوشیاں ہی خوشیاں قطار باندھے کھڑی تھیں۔