افروز سعیدہ بحیثیت افسانہ نگار

(پانچ واں مجموعہ ’’زندگی خفا خفا سی‘‘ کے حوالہ سے )

ڈاکٹر سید حسام الدین
حیدرآباددکن میں انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کی ابتداء سے خاتون ادیب ، شعراء اورافسانہ نگاروں کی کہکشاں کا ایک سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری وساری ہے۔ اس خصوص میں صغرا ہمایوں مرزا کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔یہاں کی خاتون افسانہ نگاروں جیلانی بانو ، آمنہ ابو الحسن ، فریدہ زین نے افسانوں کی دنیا میں ایک معتبر مقام حاصل کیا ہے ۔
زندگی خفا خفا کی خالق افروز سعیدہ اسی کہکشاں کا ایک حصہ ہیں ۔زندگی خفا خفا سی ، ان کے افسانوں کا پانچواں مجموعہ ہے ۔ انہوں نے 1990 سے افسانہ نگاری شروع کی 1994میں پہلا افسانوں کا مجموعہ ’’نایاب ‘‘ منظر عام پر آیا چار کتابوں پر اردو اکیڈیمی آندھرا پردیش اور اردو اکیڈیمی تلنگانہ سے ایوارڈ پاچکی ہیں۔افروز سعیدہ نے حیدرآباد کے ایک قدامت پسند گھرانے میں جنم لیا ۔جب تک والدین کی سرپرستی میں زندگی گذاری چین سے گذری ۔جیسے ہی کارگاہ حیات میں قدم رکھا۔زندگی کی کشمکش اور نیرنگی سے دوچار ہوئیں ۔سعیدہ کی زندگی ماضی اور حال کے تجربات سے مزین ہے ۔ان کے دیکھتے دیکھتے زندگی کیا سے کیا ہوگئی ۔ لکھتی ہیں آج ہمارے معاشرہ میں اقدار پامال ہورہے ہیں۔ کردار داغدار ہورہے ہیں اور افکار بدل رہے ہیں ۔افراتفری کا عالم ہے ۔افروز سعیدہ نے اپنے ذاتی مشاہدات اور تجربات کو پیش نظر رکھ کر لکھا ہے ۔یوں تو ادیب اور شاعر ایک دوسرے کے فن سے متاثر ہوئے ہیں ایک دوسرے کا عکس ان کی تخلیقات میں نظر آتا ہے ۔افروز نے کسی رجحان یا کسی خاص ادیب کی پیروی نہ کرکے اپنے موضوع ومواد کی مناسبت سے کہانی کو ڈھالا ۔جہاں تک افروز سعیدہ کے افسانوں کا تعلق ہے ان کا اپنا ایک علیحدہ رنگ ہے ۔ وہ اپنے تجربات کو پوری طرح عیاں نہیں کرتیں پاس وضعد داری کہیے یا مذہبی اور سماجی حد بندیاں ان کے اور ہمارے درمیان حائل ہوجاتی ہیں ۔گویا ایک چلمن ہے جو ان کے اور قاری کے درمیان حائل ہوجاتی ہے ۔یہ رکاوٹ اور حد بندی بری نہیں لگتی ۔
لکھنے کا ان کا اپنا ایک Styleہے افروز سعیدہ کسی کی نقالی نہیں کرتیں ۔وہ ایک کھری Semineافسانہ نگار ہیں۔ ان کے ہاں تخیل کی بلند پروازی اور قلم کی روانی ہے ۔انہوں نے مسلمانوں کے متوسط گھرانوں کے لڑکے لڑکیوں کی جذباتی الجھنوں اور اس ماحول کی قدامت اورگھٹن کو موضوع بنایا جس کے وہ پروردہ ہیں ۔ ایک پختہ کار افسانہ نویس اپنے تجربات زندگی اور مشاہدات کو اس طرح پروان چڑھاتا ہے کہ اس میں کئی ایک خوبیاں پیدا ہوجاتی ہیں وہ بیک وقت اچھا معلم ، ماہر نفسیات ، فلسفی ، سماجی جہدکار ، مصلح ہوتا ہے ۔افسانہ انجان جزیرے ، میں افروز سعیدہ نے ایک لڑکی ’’نگار ‘‘ کی نفسیاتی کشمکش کو بہت ہی عمدہ طریقہ سے پیش کیا ہے اور بتایا ہے کہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں جب بچپن کی دہلیز پار کرکے باغ جوانی میں قدم رکھتی ہیں تو کس طرح ان کے ذہنی اورجسمانی رویوں میں تبدیلی آتی ہے ۔بچپن سے جوانی کا جو مرحلہ ہے بڑا خطرناک ہوتا ہے ۔ اگر نوجوان نسل اس مرحلہ سے خیر خوبی سے گذر جاتی ہے تو ان کی زندگی کامیاب ہوتی ہے ورنہ بربادی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔زندگی کے اس مرحلہ پر والدین کی بچوں پر نگرانی ضروری ہوتی ہے ۔اگر والدین غفلت برتیں تو بچوں کا مستقبل تباہ ہوجاتا ہے ۔
اس افسانہ میں افروز نے بتایا ہے کہ کس طرح افسانہ کی اصل کردار ایک قدامت پسند ماحول سے نکل کر اسٹیج کی چکاچوند زندگی میں قدم رکھتی ہے ۔وہ زندگی کے دونوں مراحل میں توازن قائم نہیں رکھ سکتی نتیجتاً قعر مذلت میں گر گئی ۔اس افسانہ کا کردار نگارکس طرح زندگی کے رخ بدلتا ہے اس کی خواہشات اور اضطراب کا ٹھکانہ نہیں ۔افروز سعیدہ نے اس کردار کے ذریعہ ثابت کیا ہے کہ انسان سیمابی کیفیت کا حامل ہے ۔ وہ کسی ایک رویہ پر تادیر قائم نہیں رہتا ۔تبدیلی اس کے مزاج میں داخل ہے اس لئے دیکھا جاتا ہے کہ انسان کائنات کی Most changeable creature ہے غالبؔ نے انسانی فطرت کی اس سیمابی کیفیت کو بہت ہی عمدہ طریقہ سے پیش کیا ہے ۔
ہے کہاں تمنا کا دوسرا رخ یارب
ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا جانا
بہر حال اس افسانہ میں سعیدہ نے ایک جوان ہوتی ہوئی لڑکی کی نفسیاتی گتھیوں پر روشنی ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ اگر جذبات کو بے لگام چھوڑ دیا جائے تو خطرناک نتائج برآمد ہوتے ہیں ۔اس افسانہ کے تجزیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ افروز عورت کو شمع محفل نہیں چراغ خانہ کے روپ میں دیکھنا چاہتی ہیں ۔
افروز سعیدہ کے ذہنی رویہ کا ایک رخ معلم کا ہے وہ آج تعلیم کی اہمیت سے خوب آگاہ ہیں ۔افسانہ اعتبار کا زخم میں وہ اپنے تعلیمی نظریات کو اپنے ایک کردار وقار احمد کی زبانی اس طرح عیاں کرتی ہیں ۔’’ بیٹا تعلیم آدمی کو انسان بناتی ہے ۔دولت وامارت سے وہ عزت نہیں ملتی جو تعلیم سے حاصل ہوتی ہے ایک تعلیم یافتہ انسان کی سوچ ہی الگ ہوتی ہے ‘‘۔اسی افسانہ میں ان کا نسوانی کردار ،زیبا تعلیم نسواں کا موئید اور حامی ہے وہ لڑکیوں کے لئے اسکول کھولنا چاہتی ہے ۔
افروز سعیدہ کے افسانوں میں عصر حاضر کی دھڑکنیں صاف سنائی دیتی ہیں اسی افسانہ میںانہوں نے طلاق اور خلع کے موضوع پر ہلکے سے اشارے کئے ہیں ۔ یہ مذہبی ، سماجی اور اخلاقی موضوع آج کل مسلم معاشرہ کے لئے ایک چیلنج بنا ہوا ہے ۔اس افسانہ کو پورا کرتے ہوئے آخر میں عائلی زندگی کے بارے میں ایک مشرقی عورت کے تاثرات کو اس طرح پیش کیا ہے ۔مشرقی عورت شوہر کی وفادار اور جانثار ہوتی ہے ۔اسے اپنے خاندان کی عزت وآبرو پیاری ہوتی ہے۔ جہاں تک شادی بیاہ کامعاملہ ہے افروز صالح اقدار پر پروان چڑھی محبت کی قائل ہیں ۔جذباتی محبت کی ان کے پاس کوئی اہمت نہیں افسانہ’’ انا کی صلیب ‘‘میں انہوں نے سوچی سمجھی محبت کا انجام محبوب کی موت اور لڑکی کی رسوائی سے تعبیر کیا ہے ۔
افروز نے محبت سے متعلق اپنے فلسفہ کو یوں بیان کیا۔’’ محبت کی معراج وہ ہوتی ہے جو کہ بندہ اپنے معبود سے کرتا ہے یا والدین اولاد سے کرتے ہیں ۔ایک محبت جسمانی ہوتی ہے اور دوسری روحانی‘‘ ، یہاں پر اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ محبت ایک ارتقاء پذیر شے ہے ۔زندگی کے مختلف مراحل میں اس کا رنگ جداگانہ ہوتا ہے ۔بچپن کی محبت معصوم، جوانی کی محبت جذباتی اور جسمانی تقاضوں سے لیس ہوتی ہیں ۔پیرانہ سالی محبت بندہ کو معبود سے قریب کرتی ہے ۔بہر حال یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ سچی محبت ،جس طرح کی بھی ہو فاتح عالم ہے ۔بقول افروز محبت کے کئی روپ ہوتے ہیں ایک روپ بھائی اور بہن کی محبت ہے ۔ اس خونی رشتہ کی عظمت اور گہرائی کو انہوں نے اپنے افسانہ’’ ایسا بھی ہوتا ہے‘‘ میں ظاہر کیا ہے ۔آج کل ہماری زندگی سمنٹ اور کنکریٹ کے حصار میں ہے ۔ اسی افسانہ میں انہوں نے بتایا ہے کہ کس طرح عورت اور مرد مزدور عمارتوں کی تعمیر میں دن رات مصروف رہتے ہیں ۔کام کے وقفہ کے دوران کس طرح ایک جٹ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں ۔
افروز کی تیز نگاہی اور گہرا مشاہدہ زندگی کے مختلف مراحل کا جائزہ لیتا ہے ۔ جس کا ثبوت Braddiy Coسے ان کی دلچسپی ہے ۔افروز سعیدہ نے اپنے افسانون میں متوسط مسلم گھرانوں کے سماجی واخلاقی مسائل کی عکاسی کی ہے ۔مسلم معاشرہ میں گھوڑے جوڑے کی لعنت کس قدر تباہ کن اثرات مرتب کئے ہیں اسکا اندازہ’’ سب کچھ لٹا کے ہوش میں‘‘ افسانہ سے ہوتا ہے ۔گھوڑے جوڑے کی لعنت نے مسلم لڑکیوں کو غیر مسلم لڑکوں کا ہاتھ تھام لینے پر مجبور کردیا ہے ۔اولاد کی پرورش میں والدین کی غفلت کے کس قدر بھیانک نتائج برآمد ہوتے ہیں اسی افسانہ میں روشنی ڈالی گئی ہے ۔ان افسانوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ افروز اپنے آس پاس ہونے والی سماجی ،مذہبی اور اخلاقی ناہمواری سے متاثر ہیں ۔نیکی ، بدی ، خیر وشر کا معرکہ ازل سے چل رہا ہے اور ابد تک قائم رہے گا ۔افروز نے اس معرکہ آرائی کی عکاسی افسانہ ’’دلدل‘‘ میں بڑے خوبصورت انداز میں کی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ آخر کار خیر ،شر پر فتح پالیتا ہے مگر اس میں وقت لگتا ہے ۔
1857ء کے بعد ہندوستان میں کرسچن مشنری بہت فعال ہوگئی تھی ۔ یہ مشنری عیسائیت کی تبلیغ کی غرض سے مختلف طریقے اپنائے ۔ طرح طرح سے لالچ دے کر اپنا مقصد پورا کرتی تھیں ۔ تبلیغ کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔ افروز اپنے افسانے ’’ تیسرا راز ‘‘میں اسی موضوع کو اپنایا ہے ۔افروز نے بتایا ہے کہ کس طرح خوبصورت عورتیں اپنے جسم کی خوبصورتی ، نازوادا کے ذریعہ مردوں کو اپنی طرف راغب کرتی ہیں جب غافل مرد ان کے دام الفت میں پھنس جاتے ہیں تو اپنا اصل مدعا ’ تبدیل مذہب‘ پیش کرتی ہیں ۔
آج کل ضعیف العمر والدین کی نگہداشت کا مسئلہ سنگین صورتحال اختیار کرچکا ہے ۔اولاد سنہرے مستقبل اور بہتر زندگی کی تلاش میں غیر ممالک کا رخ کر رہی ہے ۔ وطن میں ضعیف ماں باپ بیماریوں اور تنہائی کا شکار ہو کر زندگی گذارتے ہیں ۔ اولاد سمجھتی ہے کہ ضعیفی اور تنہائی کا علاج روپیہ پیسہ ہے ۔وہ یہ سمجھ نہیں پاتی کہ مادی دولت تنہائی اور یادوں پر قابونہیں پاسکتی ہے ۔ ماں باپ کے روحانی کرب اور جسمانی کمزوری کا علاج روپیہ پیسہ نہیں بلکہ محبت کی ایک نظر ہے۔پیرانہ سالی کے حقانیت کا مسئلہ نہ صرف ہمارے ملک تک محدود ہے بلکہ ترقی یافتہ ممالک بھی اس مسئلہ سے دوچار ہیں ۔اس افسانہ میں افروز نے اس مسئلہ کا بہت ہی خوبصورت اور دلکش انداز میں احاطہ کیا ہے ۔اسی افسانے میں انہوں نے بچوں کے اغوا کے موجودہ جرائم پر روشنی ڈالی ۔
افروز نے اس افسانہ میں فریب نظر Halinationکی تکنیک سے فائدہ اٹھایا ہے ۔افسانہ’’ وقت کا طمانچہ ‘‘ میں سعیدہ نے مکالماتی تکنیک کو اپنایا ہے ۔کہانی کو اس طرح Twistکیا ہے کہ دولت مند نواز معصوم اور غریب لڑکی نایاب کی عزت لوٹ کر اسے تہی دامن کردیتا ہے ۔ زمانہ کی الٹ پھیر نایاب کو دولتمند اور نواز کو مفلس بنادیتی ہے ۔ اس کی مفلسی نے نایاب کے در پر ڈرائیور کے روپ میں پہنچادیا ۔’’مجرم کون‘‘ افسانہ میں افروز سعیدہ نے ایک اور سماجی لعنت قحبہ گری ، کو موضوع بنایا ہے اور بتایا ہے کہ کس طرح گوشت کا کاروبار کرنے والے مرد حسین عورتوں کا استحصال کرکے روپیہ پیسہ کماتے ہیں اپنی غرض پوری ہونے کے بعد انہیں چھوڑ دیتے ہیں۔افروز سعیدہ کے مذکورہ افسانوں کے تجزیہ سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ وہ افسانہ کہنے کے ڈھنگ سے بخوبی واقف ہیں ۔افسانہ کے لئے مختلف موضوعات چنتی ہیں جن کا تعلق ہماری روز مرہ کی زندگی سے ہوتا ہے ۔افسانوں میں سعیدہ نے جن مسائل کو موضوع بنایا ہے وہ ہمارے معاشرے کے رستے ہوئے ناسور ہیں ۔
ان کے افسانوں کی اک خصوصیت یہ ہے کہ ان میں کہانی کے اہم کردار یعنی ہیرو اور ہیروئین کے درمیان چند افسانوں کو چھوڑ کر شدید جذباتی اتار چڑھاؤ نہیں ۔اس کے علاوہ ان کے ہاں کرداروں کا جنگل نہیں چند کرداروں کو لیکر کہانی شروع کرتی ہیں اور ان ہی کو مدنظر رکھتے ہوئے افسانہ ختم کرتی ہیں ۔کرداروں کے انتخاب میں بھی ان کا رویہ دیگر افسانہ نگاروں کے مقابلہ کچھ الگ سا ہے ۔ ان کے ہاں مردوں کی بہ نسبت صنف نازک کی تعداد زیادہ ہے ۔اس کے علاوہ ان کے کردار قاری کے لئے غیر مانوس نہیں ۔ان کے زیادہ تر کردار اک رخے United وہ کم سے کم کرداروں کے ذریعہ اپنے افسانوں میں زیادہ سے زیادہ معنیٰ خیزی پیدا کرتی ہیں ایک زمانہ تھا جب اردو ناولوں اور افسانوں میں شدید عاشقانہ ماحول ہوتا تھا لیکن آج کل یہ بات نہ رہی ۔
افروز کے پیش نظر افسانوں میں محبت کی دھیمی دھیمی آنچ ہے ۔ ان کی کہانیاں حقیقت پسندانہ رویے سے بنی گئی ہیں ۔زیر نظر افسانوں کے مجموعہ’’ زندگی خفا خفا سی‘‘ میں مسلم معاشرہ کو درپیش مسائل کو افروز نے کامیابی کے ساتھ پیش کیا ہے ۔افروز سعیدہ پر مذہبیت کا بے حد اثر ہے ۔جن کے تئیں ان کے اکثر افسانوں میں واعظانہ اسلوب اپنایا گیا ہے ۔ جیسے’’ صحت مند اور طاقتور بننا ہمارے دین کا ایک جزو ہے‘‘ ۔(اعتبار کا زخم)’’ محبت کی معراج وہ ہوتی ہے جو بندہ اپنے معبود سے کرتا ہے‘‘ (انا کی صلیب ) ’’یہ تقدیر کا مذاق نہیں فرحان صاحب بلکہ مقدر کا لکھا ہے ‘‘۔(زندگی خفا خفا سی ) رخسانہ کے دماغ میں سورہ رحمان کی آیت گھوم رہی تھی (زندگی خفا خفا سی )
افروز سعیدہ کا طرز تحریر بہت ہی دلکش ہے ۔ جملوں کے دروبست سے موسیقی ریز وہ فضاپیدا کردیتی ہیں ۔ ان کی ہلکی پھلکی تحریر اس طرح آگے بڑھتی ہے مانو کہ کوئی صاف وشفاف پانی کا جھرنا آہستہ آہستہ بہہ رہا ہے ۔’’زندگی خفا خفا سی‘‘ ایک اور سعیدہ کا افسانہ ہے ۔ انہوں نے افسانہ کی ابتداء میں شعور کی رو کی تکنیک اپنائی ہے ۔ افسانہ کا پلاٹ 28سالہ ایک نوجوان اور شادی شدہ خاتون کے عشق پر رکھا گیا ۔فرحان علی ایک پر جوش نوجوان ہے جو پہلی ہی نظر میں رخسانہ پر عاشق ہوجاتا ہے ۔دوسری طرف حواس باختہ رخسانہ گومگوں کی حالت میں رہ جاتی ہے ۔ فرحان کا عشق جوالا مکھی کی طرح آتش ریز جب کہ رخسانہ کو پاس وفاداری کا احساس ہے ۔سیگر یا کا سرد ماحول اس کو یخ بستہ بنا دیتا ہے ۔
سیدھی سادھی رخسانہ کی زندگی کا یہ پہلا تجربہ سے ایک المناک حادثہ سے دوچار کردیتا ہے ۔کسی نہ کسی طرح وہ اس احسا س کو اپنے لاشعور میں دفن کردیتی ہے ۔لیکن یہ مردہ احساس اس کے ساتھ سایہ کی طرح چمٹا رہا ۔ لیکن رخسانہ کا پندار زندگی کے آخری موڑ پر قائم نہ رہ سکا۔وہ موت سے پہلے ایک بار سیگریا کے اس ماحول میں جانا چاہتی ہے جہاں اس کے احساس میں پہلی مرتبہ سہمی سہمی سی محبت نے جنم لیا تھا ۔ غالب کا یہ شعر افسانہ کے آخری پڑاؤ کی بہترین عکاسی کرتا ہے ۔
پھر ترے کوچہ کو جاتا ہے خیال
دل گم گشتہ مگر یاد آیا
اس افسانہ میں افروز سعیدہ نے بتایا ہے کہ زندگی کا کوئی اچھوتا تجربہ یا یہ احساس جسے ہم لاشعور کی عمیق گہرائیوں میں دھکیل دیتے ہیں موقع پاتے ہیں شعور کی سطح پر ابھرکر گل کھلاتا ہے ۔’’زندگی زندگی خفا خفا سی‘‘ محبت کے لطیف احساس پر مبنی نفسیاتی گرہوں کو کھولتا ہے ۔ان کی تحریروں میں آبشاروں کا شور ہے اور نہ بادلوں کی گھڑ گھڑاہٹ وہ اپنے چھوٹے چھوٹے جملوں میں بڑی بڑی باتیں کہہ جاتی ہیں جیسے ’’مرد طاقتور اور مکار ہوتا ہے ۔اس سے ٹکر لینے والی عورت پاش پاش ہوجاتی ہے‘‘ (وقت کا طمانچہ ) عورت بھلا کس طرح ایک مرد سے بدلہ لے سکتی ہے وہ تو ایثار اور وفا کی مورت ہوتی ہے ۔راہ وفا میں ہوجاتی ہے (وقت کا طمانچہ)’’ محبوب اور شوہر میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے‘‘ (انا کی صلیب )
افروز سعیدہ خلاق ذہن کی مالک ہیں ان کے تخیل کی اونچی اڑان اور زود قلم ہے وہ بڑی روانی سے اپنے خیالات کو صفحہ قرطاس پر بکھیرتی ہیں ۔ادیب ہو یا شاعر یا کوئی اور فنکار اس کی کامیابی کی اولین شرط تخیل کی بلند پرواز ہے ۔افروز کا مشاہدہ عمیق اور تجربہ زندگی بہت ہی پختہ ہے ۔اپنے تخیل کی بلند پرواز تجربات زندگی کے خمیرسے اپنی کہانیاں بنتی ہیں اس کے علاوہ افسانہ کی مروجہ تکنیک سے اچھی طرح واقف ہیں اور انہیں بخوبی برتی ہیں ۔ ان تمام خوبیوں کی حامل افروز کو ایک کامیاب افسانہ نگار کہنے میں کوئی تامل کی گنجائش نہیں ۔جیسا کہ اس سے قبل کہا جاچکا ہے کہ مذہبی ذہن کی حامل ہیں اور اسلامی اقدار کی دلدادہ ہیں ان کی تحریر جاندار اور موثر ہے ۔اگر وہ تاریخ اسلام کے مشہور واقعات کو افسانہ کے روپ میں پیش کریں تو بے حد کامیاب رہیں گی ۔اسلامی تاریخ کے واقعات کو افسانہ کے روپ میں اب تک بہت کم پیش کیا گیا ہے ۔