اعلیٰ حضرت میر عثمان علی خان بہادر (شاہ جہانِ دکن)

ڈاکٹر امیر علی
مہاراجہ چندولال کا نام شعر و سخن کے لئے اور نواب شمس الارا کا نام تراجم کی ابتداء کے لئے تاریخ دکن میں ہمیشہ جلی حرفوں میں لکھا جائے گا ۔ مہاراجہ چندولال کے مشاعرے اور نواب شمس الامراء کی علمی اور سائنسی تحقیقات اصحاب علم کے  ذوق کا دلچسپ سامان مہیا کرتے تھے ۔ آصف جاہی دور میں شعر و شاعری ، تہذیب و تمدن ، مصوری اور موسیقی کو بے حد ترقی ہوئی ۔ ماہ لقابائی چندا کی موسیقی کی محفلوں اور مشاعروں میں بڑے بڑے شعراء شریک ہوتے تھے  اور اس کی تعریف میں نظمیں کہتے تھے۔ سلطنت آصفیہ کی سرکاری زبان ابتداء میں فارسی تھی ۔ علماء اور شعراء کا ا یک بڑا حصہ فارسی میں تصنیف و تالیف کو پسند کرتا تھا اور یہاں فارسی کے بے شمار شعراء اور ادیب موجود تھے ۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ اردو زبان و ادب کو کافی ترقی ہوئی ۔ بے شمار قصائد لکھے  گئے اور غزلیات کے دیوان مرتب ہوئے ۔ مرثیے مرتب ہوئے اور مثنویاں لکھی گئی ۔ اس طرح شاہانہ سرپرستی سے اردو کا باغ سرسبز و شاداب ہوگیا ۔ 1805 ء کے بعد نواب شمس الامراء کی  ذاتی دلچسپی کی بدولت اردو میں انگریزی اور فرانسیسی کتابوں کے سائنسی ترجمے شروع ہوئے اور کتابیں چھپ کر منظر عام پر آگئی تھیں۔ ان میں فلسفہ ، نفسیات ، تاریخ و جغرافیہ ، عمرانیات ، سیاسیات، معاشیات، قانون ، ریاضی ، سائنس اور انجنیئرنگ ، طب اور ٹکنالوجی قابل ذکر ہیں ۔ اس کے علاوہ تعلیم کو عام کرنے کی غرص سے اعلیٰ حضرت نے کئی مدارس قائم کئے اور اسکے علاوہ صحت عامہ کیلئے انہوں نے کئی دواخانے قائم کئے اور اس طرح آپ کے دور حکمرانی میں زندگی کے ہر شعبوں میں قابل قدر ترقی ہوئی تھی ۔ قطب شاہی بادشاہوں نے دکن پر تقریباً دو سو سال تک کامیاب حکمرانی کی اور شہر حیدرآباد کا بانی سلطان محمد قلی قطب شاہ نے دکن کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے لئے بے مثال کارنامے انجام دیئے جس کے نقوش آج بھی موجود ہیں۔ مگر آصف جاہی حکمرانوں نے بھی تقریباً دو سو سال تک کامیاب حکمرانی کی اور دکن کی ہمہ جہتی ترقی میں اہم رول ادا کیا ہے جس میں نواب میر محبوب علی خان آصف جاہ سادس اور ان کے فرزند اکبر نواب میر عثمان علی خان آصف جاہ سابع کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مغل شہنشاہ شاہجہاں کے دور حکومت کو مغلوں کے سنہری دور سے تعبیر کیا جاتا ہے کیونکہ شاہجہاں کے دور میں ہر طرف امن و امان تھا۔ ملک میں ہر طرف رعایا خوشحال تھی ۔ اسی شہنشاہ کے دور حکمرانی میں تہذیب و تمدن اور علم و ادب کو کافی ترقی ہوئی تھی ۔ مغل حکمرانوں کو اپنی حکمرانی سے زیادہ ’’ہندو مسلم اتحاد‘ بہت عزیز تھا۔ آصف جاہی حکمرانوں نے بھی دکن کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کیلئے مثالی خدمات انجام دی ہیں اور دکن کے سبھی حکمراں ’’ہندو مسلم اتحاد‘‘ کے علمبردار تھے اور آصف جاہ سابع ہمیشہ ’’ہندو اور مسلمان‘‘ کو اپنی دو آنکھ تصور کیا کرتے تھے ۔
اعلیٰ حضرت نواب میر عثمان علی خان بہادر آصف جاہ سابع کی تخت نشینی 1911 ء کے بعد حیدرآباد میں بیداری کی روح پیدا ہوگئی تھی ۔ چند دردمندان قوم نے جن میں مولوی محمد مرتضیٰ (مرحوم) پیش پیش تھے ۔ حیدرآباد ایجوکیشنل کانفرنس کی بنیاد ڈالی اور حیدرآباد  میں نظام اردو یونیورسٹی کے قیام کو اپنا مقصد بنالیا۔ اہل ملک کے اس عام رجحان اور اعلیٰ حضرت نواب میر عثمان علی خان بہادر آصف جاہ سابع کی خاص سرپرستی سے واقف ہونے کے بعد سر اکبر حیدری حیدر نواز جنگ نے جو اس وقت معتمد تعلیمات تھے ۔ اعلیٰ حضرت کی خدمت میں 1917 ء کو قیام جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کی اجازت کے لئے عرض داشت پیش کی تھیں جس کے ملاحظہ کے بعد اعلیٰ حضرت نے فرمایا کہ ’’شہر حیدرآباد میں یونیورسٹی قائم کرنے کی کارروائی شروع کی جائے اور یونیورسٹی کا نام ’’جامعہ عثمانیہ حیدرآباد‘‘ ہوگا۔ اس طرح اعلیٰ حضرت کی ذاتی دلچسپی کی بدولت 1918 ء میں اس عظیم الشان  کالج ’’کلیہ جامعہ عثمانیہ‘‘ کا جو آرٹس کالج کے نام سے دنیا بھر میں شہرت رکھتی ہے ، افتتاح عمل میں آیا۔ یہاں جملہ علوم و فنون  کی تعلیم اردو زبان میں دی جاتی تھی  اور 1952 ء کے بعد سے انگریزی ذریعہ تعلیم ہوگئی۔

اعلیٰ حصرت آصف جاہ سابع نے عظیم علمی درسگاہ کو قائم کر کے اپنی علمی دوستی اور فراخدلی کا ثبوت پیش کیا ہے ۔ خود اعلیٰ حضرت نے آرٹس کالج کی تعمیر کیلئے بنیاد رکھی اور اس عظیم الشان اور جاذب نظر عمارت کا افتتاح بھی آپ کے مبارک ہاتھوں سے عمل میں آیا تھا ۔ اس عمارت کی تعمیر و تکمیل پر 27 لاکھ 13 ہزار کے مصارف آئے تھے اور اس تاریخی عمارت کے نقشے کی تیاری کیلئے بلجیم کے مشہور آرکیٹکٹ ارسنٹ جاسپر کا تقرر عمل میں آیا تھا ۔ جاسپر اور نواب زین یار جنگ و نواب علی رضا مشہور آرکیٹک اور دیگر ماہر انجنیئروں کے مفید مشوروں پر آرٹس کالج کی شاندار عمارت تعمیر کی گئی اور اس کے بعد دوسرے کالجوں ، دفتروں اور طلباء کے قیام کیلئے طعام خانے اور لائبریری بلڈنگ بنائی گئیں جس پر کروڑہا روپیوں کے اخراجات آئے ۔ یونیورسٹی میں تعلیم کے آغاز کے ساتھ ہی ملک کے نامور اور علمی و ادبی ہستیوں کا درس و تدریس کیلئے پرکشش تنخواہوں پر تقرر عمل میں لایا گیا تھا ۔ یونیورسٹی کو منظم طور پر چلانے اور اس کو ترقی دینے کیلئے اعلیٰ حضرت خود ذاتی دلچسپی لیتے تھے اور یونیورسٹی کی سرگرمیوں پر خاص نظر رکھتے تھے۔ اعلیٰ حضرت یونیورسٹی میں طلباء کی اعلیٰ تعلیم ریسرچ اور ذ ہنی تربیت کے لئے یونیورسٹی کو غیر معمولی گرانٹ منظور کیا کرتے تھے اور عثمانیہ یونیورسٹی کو قائم کرنے کیلئے آپ نے کئی ہزاروں ایکٹر قیمتی اراضی خرید کر یونیورسٹی کے لئے وقف کردی اور اس طرح عثمانیہ یونیورسٹی چند ہی عرصہ میں تعلیم و تربیت کے میدان میں ایک عظیم درسگاہ  بن گئی اور جس کا فیض آج بھی جاری ہے اور یہاں سے فارغ التحصیل طلباء نے تعلیم ، ریسرچ ، تربیت اور کھیل کے میدان میں اپنے کارناموں  سے بین الاقوامی سطح پر شہرت حاصل کی اور ساری دنیا میں حیدرآباد اور ملک کا نام روشن کردیا۔ اعلیٰ حضرت نے تعلیمی سرگرمیوں کے علاوہ یونیورسٹی میں طلباء کے لئے کھیل کے میدان اور اس کو فروغ دیے کیلئے ایک الگ شعبہ کھیل کود قائم کیا اور ملک کے نامور کھلاڑیوں اور ہنرمندوں کا تقرر کیا گیا تھا ۔ پدم شری غوث محمد خان صاحب ، ثناء اللہ صاحب، غوث الدین صاحب اور پروفیسر کے رنگا راؤ صاحب کی ذاتی محنت اور دلچسپی سے شعبہ نے کافی ترقی کی تھی اور ان لوگوں کی وجہ سے عثمانیہ یونیورسٹی کے کئی طلباء تربیت پاکر ملک کے مشہور اور نامور کھلاڑی بن گئے اور یونیورسٹی کا نام سارے ملک اور ساری دنیا میں رو شن کیا ۔ آج بھی کئی نامور کھلاڑی جو عثمانین ہیں ، ملک و بیرون ملک کئی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں ۔
عثمانیہ یونیورسٹی کیمپس عمارتوں کا جنگل نہیں ہے بلکہ منصوبے کے تحت پوری حسن کاری اور سلیقہ شعاری کے تحت عمارتوں کی تعمیر ہوئی ہے اور یہاں تعلیم و تربیت حاصل کرنے والے طلباء اس عظیم یونیورسٹی کے انمول ہیرے ہیں اور ملک و قوم کا سرمایہ بھی ہیں۔ فرزندان جامعہ عثمانیہ کی  ذہنی تربیت اور شاعرانہ قابلیت کو پروان چڑھانے میں جن نامور شخصیتوں نے حصہ لیا اُن میں علامہ حیدر طباطبائی ، پروفیسر وحید الدین سلیم ، ڈاکٹر سید سجاد اور مولوی عبدالحق قابل ذکر ہیں۔ ان اصحاب کے بعد ڈاکٹر محی الدین قادری زورؔ، پروفیسر عبدالقادر سروری ، محترمہ ڈاکٹر جہاں بانو نقوی ، ڈاکٹر زینت ساجدہ، ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ ، ڈاکٹر حفیظ قتیل ، پروفیسر سید محمد ، ڈاکٹر اکبرالدین صدیقی ، پروفیسر ابو ظفر عبدالواحد، ڈاکٹر سیدہ جعفر قابل ذکر ہیں۔ اس طرح اعلیٰ حضرت آصف جاہ سابع کی ذاتی دلچسپی اور فرزندانِ جامعہ کے علمی و ادبی کارناموں سے عثمانیہ یونیورسٹی ملک کی ایک اہم تعلیمی و تربیتی درسگاہ بن گئی ہے ۔

1918 ء میں جامعہ کے پہلے وائس چانسلر (معین امیر جامعہ) محمد حبیب الرحمن خاں شروانی مقرر ہوئے اور اس کے ہر دور میں ملک کی اور جامعہ کی علمی و ادبی شخصیتوں کو منتخب کر کے اس باوقار عہدہ پر مامور کیا گیا ۔ 1948 ء میں نئی حکومت حیدرآباد نے نواب علی یاور جنگ کو یونیو رسٹی کا کارگزار وائس چانسلر نامزد کیا۔ اُن کے بعد یونیورسٹی کے کئی نامور شخصیتوں کو وائس چانسلرس بنایا گیا تھا ۔ ان میں ڈاکٹر ایس بھگونتم ، ڈاکٹر ولی محمد ، ڈاکٹر ڈی ایس ریڈی ، ڈاکٹر روڑا ستیا نارائنا ، ڈاکٹر جی رام ریڈی ، ہاشم علی اختر صاحب ، ڈاکٹر ٹی نونیت راؤ ، ڈاکٹر ایم ملا ریڈی ، ڈاکٹر وی رام کشٹیا ، ڈاکٹر ڈی سی ریڈی ، ڈاکٹر جے اننتھا سوامی ، ڈاکٹر سلیمان صدیقی ، ڈاکٹر ٹی تروپتی راؤ ، ڈاکٹر ایس ستیا نارائنا قابل ذکر ہیں اور حال ہی میں ڈاکٹر ایس راما چندرم کا بحیثیت یونیورسٹی کے وائس چانسلر تقرر عمل میں آیا ہے جن کے دور وائس چانسلری میں عثمانیہ یونیورسٹی 2017 ء میں اپنی عمر کے 100 سال مکمل کرنے جارہی ہے ۔

غرض اعلیٰ حضرت نواب میر عثمان علی خان بہادر آصف جاہ سابع کی قائم کردہ ’’جامعہ عثمانیہ ‘‘ نے جو آج عثمانیہ یونیورسٹی کے نام سے ساری دنیا میں شہرت رکھتی ہے، اپنی گراں قدر علمی و ادبی اور تہذیبی خدمات سے اردو زبان و ادب کو حیات جاودانی بخشی اور اس جامعہ نے ایسے ایسے عظیم سپوت پیدا کئے جو آگے چل کر کئی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے ۔ علم دوست اور رعایا پرور حکمراں اعلیٰ حضرت آصف جاہ سابع کی بدولت شہر حیدرآباد پر جو علمی ، ادبی اور تہذیبی فضاء چھائی ہوئی تھی ، وہ اردو زبان و ادب ،تہذیب و تمدن ، اتحاد و یکجہتی اور دوسرے علوم و فنون کے لئے ایک نہایت پرشان و شکوہ مستقبل کی کفیل تھی اور آج بھی زبان و ادب اور تہذیب و تمدن کے جو رو شن نقوش نظر آرہے ہیں ، اعلیٰ حضرت کے مرہون منت ہیں۔ جب کبھی دکن کی تاریخ لکھی جائے گی تو اعلیٰ حضرت میر عثمان علی خان بہادر آصف جاہ سابع کی سیاسی ، علمی و ادبی اور عوامی خدمات کو مورخ کبھی فراموش نہیں کرسکتا اور آپ کے عہد کو ’’عہد زرین ‘‘ سے تعبیر کیا جائے گا ۔ ایسے بے لوث رہنما و محسن علم و ادب نے 1967 ء میں اپنی جان ، جانِ آفرین کے سپرد کردی اور اس جہان فانی سے کوچ کر گئے ۔ آپ کی آرام گاہ حیدرآباد میں واقع ہے ۔ وہ بلا شبہ شاہجہان دکن کے خطاب کے مستحق ہیں۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا