اعلیٰ حضرت میر عثمان علی خان بہادر شاہ جہانِ دکن

ڈاکٹر امیر علی
حیدرآباد فرخندہ بنیاد عہدِ قدیم ہی سے اردو زبان و ادب کا گہوارہ رہا ہے ۔ حیدرآباد دکن پر قطب شاہی حکمرانوں نے تقریباً دو سو سال تک یعنی (1518 ء تا 1686 ء) حکمرانی کی ہے۔ اس طرح اس طویل عرصہ میں اردو زبان و ادب نے ارتقائی مدارس طئے کئے ہیں۔ شہر حیدرآباد کا بانی و قطب شاہی حکمراں محمد قلی قطب شاہ صاحب دیوان بادشاہ تھا ۔ وہ اردو کا پرگو شاعر ، علم دوست اور رعایا پرور حکمراں تھا ۔ اس نے اردو زبان و ادب اور رعایا کی خوشحالی اور ترقی کیلئے گراں قدر خدمات انجام دی ہے جس کو تاریخ و ادب کا مورخ کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ قطب شاہوں کے بعد آصف جاہی دور (1724 ء تا 1948 ء) تاریخ دکن میں علوم و فنون اور شعر و ادب کے ارتقاء کے اعتبار سے ایک روشن باب کی حیثیت رکھتا ہے ۔ سلطنت آصفیہ کے بانی نواب میر قمر الدین نظام الملک فتح جنگ آصف جاہ اول نے 1136 ھ مطابق 1724 ء میں آصف جاہی سطنت کی بنیاد رکھی تھی ۔ سلطنت آصفیہ میں اردو زبان و ادب اور دوسری زبانوں کو بڑی ترقی ہوئی ۔ بڑے بڑے شعراء اور ادیب اور اہلِ کمال نام آور پیدا ہوئے اور اردو ادب میں نظم و نثر کے بے شمار دیوان اور کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ خود حکمراں وقت آصف جاہ اول بڑے مدبر ، ذی علم اور علم و ہنر کے قدرداں رہے۔ اُن کا دربار باکمال اور اہل ہنر کا ملجا و ماوا تھا ۔ اُن کا دور بہت ہی روشن زمانہ تصور کیا جاتا ہے ۔ اُس دور کی رعایا پروری ، خدمت خلق اور رواداری کے روح پرور مناظر اور علمی سرپرستی کے عروج و ترقی کی مثال شاید ہی ملے ۔ قطب شاہی اور آصف جاہی دور کے تمام حکمراں رعایا پرور اور روادار تھے ۔ انہوں نے بلا لحاظ مذہب و ملت رنگ و نسل عوام کے دلوں پر حکمرانی کی ہے اور ان حکمرانوں نے عملی طور پراردو زبان و ادب کی زبردست خدمات انجام دی ہیں۔ ان کا دربار ہمیشہ علماء، دانشوروں ، شاعروں ، ادیبوں اور اہل کمال کا مرکز رہا ہے ۔ آصف جاہ اول شاعری میں پہلے شاگرد اور بعد اذاں آصف تخلص اختیار کیا ۔ آپ فارسی کے پرگو شاعر تھے اور مرزا بیدل سے مشورہ سخن کیا کرتے تھے ۔ آپ کے فارسی کلام کا دیوان موجود ہے۔
عہد آصفی میں غفران مکان نواب میر محبوب علی خان بہادر آصف جاہ سادس کا دور حکمرانی سنہرا دور کہلاتا ہے ۔ اس دور میں ہر طرف امن و امان تھا ۔ دکن کی تمام رعایا خوشحال تھی ۔ خاص کر شاہان آصفیہ کے دور حکومت میں قیام امن اور مختلف فرقوں کے درمیان اتحاد و یکجہتی اور محبت و یگانگت کے روح پرور مناظر قابل ذکر ہیں۔ اعلیٰ حضرت و عزت مآب آصف جاہ اول کے عدل آمیز آئین مملکت ان کے جانشینوں کیلئے ہمیشہ طرہ امتیاز رہے ہیں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ مملکت آصفیہ میں مختلف مذاہب کے افراد کے ساتھ ہمیشہ رواداری برتی گئی ۔ ذاتِ شاہانہ کو اپنی رعایا بلا تفریق مذہب و ملت رنگ و نسل حد درجہ عزیز تھی اور تمام رعایا کی فلاح و بہبود ہمیشہ ان کے پیش نظر رہتی تھی اور مملکت کی ہمہ جہت ترقی میں یہی چیزیں سب سے اہم اور نمایاں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہر طبقے کے افراد اپنے محبوب بادشاہ پر نازاں و فرحان دکھائی دیتے ہیں جس کی مثال ہندوستان کے کسی اور حصے میں نہیں ملتی ۔ غفران  مکان نواب میر محبوب علی خان بہادر آصف جاہ سادس ایک رعایا پرور اور کامیاب حکمراں ہونے کے علاوہ اردو کے پرگو اور کہنہ مشق شاعر تھے ۔ وہ اپنی رعایا کی ہمہ جہت ترقی  اور ریاست میں امن و امان کے علمبردار تھے ۔ آصف جاہ سادس کے یہ اشعار ان کے قول و فعل کی ترجمانی کرتے ہیں۔

آصف تو کبھی قول سے اپنے نہیں بھرتا
وہ اور کوئی ہوگا کہا اور کیا اور
مجھ سے ہوگی نہ رعایت کبھی اس موقع پر
ترکِ انصاف کروں یہ مری عادت میں نہیں
آصف کو جاہ و مال سے اپنے نہیں دریغ
گر کام آئے خلق کی راحت کے واسطے
اعلیٰ حضرت آصف جاہ سادس کی رعایا پروری مثالی تھی ۔ وہ ہمیشہ رعایا کے دکھ درد اور مصیبت کی گھڑی میں رعایا کے ساتھ رہتے یہ دکھاوا نہیں بلکہ عملی طور پر انہوں نے کئی فلاحی اقدام کئے اور انہوں نے رعایا کے سچے ہمدرد ہونے کا ثبوت دیا ہے جس کا جواب نہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ 1905 ء میں موسیٰ ندی میں بارش کی وجہ سے طغیانی آئی تھی جس سے حیدرآباد کے کئی علاقے طغیانی کی زد میں آگئے تھے اور کئی لوگوں کا جانی و مالی نقصان ہوا تھا ۔ مگر جب اس کی اطلاع اعلیٰ حضرت آصف جاہ سادس کو ہوئی تو آپ نے فرمان جاری کردیا کہ فوراً طغیانی کے مصیبت زدہ لوگوں کی امداد اور بازآبادکاری کی جائے اور انہوں نے عوام کی امداد کیلئے اپنے خزانے کے دروازے کھول دیئے اور آپ خود دن رات عوامی خدمت میں جٹے رہے اور مصیبت زدہ عوام کے دکھ درد اور مدد میں شریک رہے ۔ آج بھی لوگ آپ کی فیاضی اور دریا دلی کو یاد کرتے ہیں۔ میرؔ کا یہ شعر ا علیٰ حضرت آصف جاہ سادس پر پورا اترتا ہے ۔ ملاحظہ ہو:
بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو
ایسا کچھ کر کے چلو یاں کہ بہت یاد رہو
اعلیٰ حضرت آصف جاہ سادس ایک کامیاب رعایا پرور حکمران کے علاوہ وہ ایک علمی و ادبی شخصیت کے مالک تھے ۔ شعر و شاعری میں خاصی دلچسپی رکھتے تھے اور اعلیٰ درجہ کے شعر کہتے تھے ۔ شاعری  میں حضرت داغ دہلوی سے مشورہ سخن لیتے تھے جو آپ کے استاد بھی تھے۔ اعلیٰ حضرت آصف جاہ سادس داغ اور امیر کی شخصیت اور ان کی شاعری کے بڑے مداح تھے ۔ داغ اور امیر اعلیٰ حضرت کے دربار سے وابستہ رہے اور حیدرآباد  میں ہی انتقال فرمائے ۔  غفران مکان نواب میر محبوب علی خان بہادر آصف جاہ سادس والی حیدرآباد دکن کا انتقال 3 رمضان المبارک 1329 ء میں ہوا اور آپ کی آخری آرام گاہ حیدرآباد میں واقع ہے اور اس طرح آپ نے اپنی جان  جانِ آفرین کے سپرد  کردی اور اپنے مالکِ حقیقی سے جا ملے اور اس جہان فانی کو خیر باد کہہ دیا۔
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
آپ کے انتقال کے بعد آپ کے فرزند اکبر اور حیدرآباد دکن کے ساتویں حکمراں اعلیٰ حضرت نواب میر عثمان علی خان ، بہادر آصف جاہ سابع ، تخت نشین ہوئے اور حکومت کی باگ ڈور سنبھالی ۔ آپ کی تخت نشینی حیدرآباد دکن کی رعایا کیلئے باعث نعمت ثابت ہوئی ۔ اعلیٰ حضرت نواب میر عثمان علی خان بہادر آصف جاہ سابع کی ولادت باسعادت 12 اپریل 1886 ء بروز شنبہ شب کے نو (9) بجے پرانی حویلی حیدرآباد میں ہوئی ۔ اس دور کے لحاظ سے آپ کی تعلیم و تربیت نامی گرامی اساتذہ کی نگرانی میں ہوئی ۔ فضیلت جنگ بہادر جامعہ نظامیہ کے بانی عربی کے نواب عماد الملک سید حسین بالگرامی اردو کے استاد مقرر ہوئے ۔ آغا سید علی سے آپ نے فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ انگریزی تعلیم اور ددیگر علوم کیلئے بھی نامی گرامی اساتذہ مقرر ہوئے۔ اعلیٰ حضرت آصف جاہ سابع نے بہت ہی قلیل عرصہ میں تمام علوم میں مہارت حاصل کی تھیں اور امورِ سلطنت کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔ 1906 ء میں آپ کی شادی ہوئی ۔

اعلیٰ حضرت نواب میر عثمان علی خان بہادر آصف جاہ سابع والیٔ حیدرآباد کا سلسلہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفۂ اول سے (33) واسطوں اور (17) واسطوں سے حضرت شیخ شہاب الدین سہروردیؒ سے راست ملتا ہے ۔ آپ کا خاندان علم و فضل ، خدمت خلق ، شراف، رواداری، اعلیٰ اخلاق و صفات اور عدل و انصاف میں شہرت رکھتا ہے۔ بڑے گھرانے کے وارث اور بڑے باب کے بیٹے ہونے کے باوجود بھی آپ کی طبیعت میں غرور و تکبر کیلئے کوئی جگہ نہ تھی ۔ آپ کے مراسم امیروں ، رئیسوں سے بھی تھے۔ مگر آپ غریبوں سے بھی اکڑتے نہ تھے اور ہمیشہ عوام کی خدمت اور بھلائی کے بارے میں فکرمند رہتے تھے اور آپ ایک نیک دل اور کامیاب حکمراں ہونے کے ساتھ ساتھ اردو کے بہترین شاعر بھی تھے ۔ شاعری میں عثمان تخلص فرماتے تھے ۔ آپ کا دربار علماء ، دانشوروں ، شاعروں، ادیبوں اور اہل کمانوں کا مرکز تھا ۔ صرف سلاطین آصفیہ بلکہ امرائے عظام اور امیروں و جاگیرداران بلند مقام نے بھی شعراء اور اصحاب ہنر کی قدردانی اور دستگری کی چنانچہ ارسطو جاہ جو ایک طویل عرصہ تک حیدرآباد کے وزیراعظم رہے۔ شعراء اور اہل علم و فن کی سرپرستی کے لحاظ سے بڑے مشہور ہیں ۔ انہوں نے اپنے سیاسی کارناموں کے ساتھ ساتھ تہذیب و تمدن ، علم و فضل کی آبیاری سے بھی حیدرآباد دکن کی بیش بہا خدمت انجام دی ہے۔ ان کا دربار ہر علم و فن اور اصحاب ذوق کا ملجا و ماوا تھا۔ ان کی سخن فہمی اور علم دوستی کے واقعات سے تاریخ دکن بھری پڑی ہے ۔ آپ نے دو سو سے زائد شعرائش کی سرپرستی کی ہے ۔ ارسطو جاہ کے علاوہ امیر کبیر شمس الامراء امیر پائیگاہ اور مہاراجہ چندولال اور مہاراجہ کشن پرشاد شادؔ کی اردو دوستی اور شعراء کی سرپرستی سے بھی دکن کی سرزمین علم و فن اور تہذیب و تمدن اور رواداری کا مرکز بنی رہی، جس کے اجلے نقوش آج بھی موجود ہیں۔ مولوی نصیر الدین ہاشمی اس طرح رقمطراز ہیں کہ : یہاں جو تمدن پیدا ہوا تھا وہ مغلیہ تمدن کی یاد دلاتا رہا  اور جو کلچر وجود میں آیا وہ ’’ہندو مسلم‘‘ اتحاد اور اتفاق کا انمول گجینہ تھا‘‘۔  (باقی آئندہ)