اعتکاف کے دوران میت کو غسل دینے کیلئے جانا

سوال :  میں اس سال محلہ کی مسجد میں اعتکاف میں تھا، مسجد کا پڑوس میں ایک صاحب کا انتقال ہوگیا، غسال کو تلاش کیا گیا لیکن ہر وقت غسال سے رابطہ نہیں ہوسکا۔ میت کو زیادہ دیر نہیں رکھا جاسکتا تھا ۔ مرحوم کے عزیز و اقارب میں کوئی مسنون غسل دینے سے واقف نہ تھا، سب پس و پیش کررہے تھے اور مجھ سے اصرار کر رہے تھے۔ میں بادل ناخواستہ چلے گیا اور غسل دیکر فوری اعتکاف کیلئے مسجد کو واپس آگیا۔ کیا ایسی صورت میں اعتکاف باقی رہا یا نہیں۔
حافظ ابرار، تالاب کٹہ
جواب :  اعتکاف کے دوران غیر طبعی حاجت کے سواء مسجد سے نکلنا ، بیمار کی عیادت کرنا اور نماز جنازہ میں شریک ہونا منع ہے۔ البتہ کوئی ا یسا نہ ہو جو میت کو غسل دیتا ہو، نماز جنازہ پڑھاتا ہو تو ایسی صورت میں معتکف کا مسجد سے نکلنا شرعاً درست ہے ۔ تاتار خانیہ جلد دوم کتاب الصوم ص : 412 میں ہے : ولا یخرج لاکلہ و شربہ ولا لعیادۃ للمریض ولا لصلوۃ الجنازۃ ، وقیل : و ینبغی أنہ اذالہ یکن ثمۃ احد یقوم بأمور المیت و بصلی علیہ ان یخرج ۔ وفی مختصر خواھر زادہ ، ولا بأس بأن یعود المریض و یشھدالجنازۃ۔
پس دریافت شدہ مسئلہ میں میت کو غسل دینے والا کوئی نہ تھا اور معتکف میت کو غسل دینے کی خاطر مسجد سے نکلا ہو اور غسل کے بعد فی الفور مسجد واپس ہوگیا ہو تو شرعاً اس کا اعتکاف باقی رہا۔

’’طلاق‘‘ کے لام کو تشدید کے ساتھ ادا کرنا
سوال :  کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک صاحب نے انتہائی غصہ کی حالت میں اپنی اہلیہ کو طل لاق ، طل لاق ، طل لاق کہہ دیا۔ مندرجہ بالا الفاظ کی ادائی سے کیا ’’طلاق‘‘ واقع ہوگئی ۔ راقم کی تاویل یہ ہے کہ ’’طلاق‘‘ کے الفاظ صحیح طور پر ادا نہیں کئے گئے تو پھر کس طرح واقع ہوگی ۔ اگر نیت کو بنیاد بنانا چاہیں تو راقم کا استدلال یہ ہے کہ ’’غصہ کی حالت میں نیت کا قائم ہونا محال ہے ۔ برائے مہربانی جواب سے سرفراز فرمائیں تو مین نوازش ۔
محمد عبدالرشید، جہاں نما
جواب :  شوہر نے بیوی کی طرف طلاق کی نسبت کرتے ہو ئے تین طلاق دی ہیں تو شرعاً تین طلاق واقع ہوگئیں۔ نیز شوہر غصہ کی حالت میں بالقصد بالارادہ تین طلاق دیا ۔ البتہ الفاظ طلاق کو صحیح طور پر ادا نہ کیا مثلاً ’’طلاق ‘‘ میں لام کو شدہ کے ساتھ ادا کیا تب بھی طلاق واقع ہوگئی ۔ بھجۃ المشتاق فی احکام الطلاق کے ص : 15 میں ہے : لابد فی الطلاق من خطا بھا او الا ضافۃ الیھا کما فی البحر اور عالمگیری جلد اول ص : 357-356 کی عبارت سے مستفاد ہے ۔ ولو حذف القاف من طالق فقال انت ’’طال‘‘ فان کسراللام وقع بلا نیۃ والا کان فی مذاکرۃ الطلاق او الغضب فکذلک والا توقف علی النیۃ …رجل قال لامراتہ ترا طلاق ھھنا خمسۃ الفاظ تلاق، تلاغ ، طلاغ وطلاک و تلاک عن الشیخ الامام الجلیل ابی بکر معتمدین الفضل رحمتہ اللہ تعالیٰ انہ یقع۔
پس دریافت شدہ مسئلہ میں شوہر نے اپنی زوجہ کو غصہ میں جس وقت تین مرتبہ طلاق کہا اگرچہ طلاق میں لام کو شدہ سے کہا ہو اسی وقت تین طلاقیں واقع ہوکر شوہر سے تعلق زوجیت بالکلیہ منقطع ہوگیا ۔ اب وہ دونوں بغیر حلالہ آپس میں دوبارہ عقد بھی نہیں کرلے سکتے۔

کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنا
ٹخنوں کے نیچے کپڑے چھوڑنا
سوال :  بعض حضرات گھٹنوں میں تکلیف کی وجہ سے کرسیوں پر بیٹھ کر نماز ادا کرتے ہیں، برائے مہربانی کرسی پر بیٹھ کر نماز ادا کرنے کا طر یقہ تفصیل سے بتائیے
(2 اکثر لڑکے تکبر کی وجہ سے نہیں بلکہ پینٹ دراز ہونے کی وجہ سے نیچے سے یا اوپر سے موڑ کر نماز ادا کرتے ہیں ، شرعاً کیا حکم ہے ؟
محمد انواراللہ خان ، عیدی بازار
جواب :  جو شخص نماز میں قیام سے عاجز ہو وہ بیٹھ کر رکوع و سجود ادا کرتے ہو ئے نماز پڑھے گا۔ قیام سے عاجز ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ اگر قیام کرے تو اس کو ضرر لاحق ہوتا ہو، یا بیماری کے بڑھ جانے یا شفاء میں تاخیر کا اندیشہ ہو یا قیام کی صورت میں چکر آتی ہو یا وہ تکلیف محسوس کرتا ہو یا قیام سے سجدہ میں جانے اور سجدہ سے قیام کیلئے اٹھنے میں تکلیف تو ایسی صورتوں میں حسب سہولت بیٹھ کر نماز ادا کرنے کی شرعاً اجازت ہے ۔ عالمگیری جلد اول ص : 136 میں ہے : اذا عجز المریض عن القیام صلی قاعدا یرکع و یسجد کذا فی الھدایۃ۔ واصح الاقابل فی تفسیر العجز ان یلحقہ بالقیام ضرر و علیہ الفتوی کذا فی معراج الدرایۃ ، و کذالک اذا خاف زیادۃ المرض او ابطاء البرء بالقیام او دوران الراس کذا فی التبیین او یجد و جعا لذلک۔
اور اگر قیام کرنے میں کچھ مشقت ہو تو وہ تھوڑی سے مشقت سے بچنے کیلئے قیام کو ترک نہیں کرسکتا ۔ اسی میں ہے : فان لحقہ نوع مشقۃ لم یجز ترک ذلک القیام کذا فی الکافی۔
پس جو کچھ قیام پر قادر ہو اور قیام سے سجدہ میں جاسکتا ہو اور سجدہ سے قیام میں واپس آسکتا ہو البتہ اس کیلئے اس میں تھوڑی سی مشقت ہو تو کچھ مشقت سے بچنے کیلئے کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنا شرعاً جائز نہیں اور اگر کرسی کا استعمال ناگزیر ہو تو جس صف میں کرسی ہو وہ صف اور پچھلی صف والوں کو خلل نہ ہو۔ اس کے کوئی مخصوص طریقہ یا مخصوص کرسی نہیں ہے ۔
(2 نماز اور غیر نماز ہر حال میں کپڑے ٹخنوں سے اوپر رکھنا ہے ۔ لباس ٹخنوں سے نیچے ہو تو اس کے لئے سخت وعیدیں وارد ہوئیں ہیں۔ طبرانی کی روایت میں ہے کہ نبی کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو ملاحظہ فرمایا کہ وہ اپنی تہہ بند کو ٹخنوں کے نیچے چھوڑے ہوئے ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابی رسول نے فرمایا تم اپنا تہہ بند اوپر کرلو۔ انہوں نے پاؤں میں عیب کا عذر پیش کیا تو حضور پا ک صلی اللہ علیہ وسلم نے ار شاد فرمایا : اپنے ازار کو اونچا کرو۔ اللہ کی تمام خلقت اچھی ہے اور ایک روایت میں ہے ، جو عیب تمہاری پنڈلیوں میں ہے یہ اس سے بھی زیادہ برا ہے (الحدیث) لہذا ٹخنوں کے نیچے کپڑا چھوڑنا منع ہے ۔ تکبر کیلئے ہرحال میں درست نہیں۔ تکبر نہ بھی ہو تب بھی منع ہے۔

طلاق دینے و الے کے منہ پر ہاتھ رکھنا
سوال :  ہندہ کو اس کے شوہر نے گھریلو تکرار کے دوران غصے کی حالت میں کہاکہ آج میں یہ قصہ (رشتہ) ہی ختم کردوں گا اور بہ آواز بلند کہاکہ ’’میں ابن فلاں اپنے پورے ہوش و حواس میں اپنی بیوی کو طلاق دی ۔ ایک بار ، دوسری طلاق کہنے سے پہلے ہی اس کی ماں نے اس کا منہ اپنے ہاتھ سے بند کردیا اور اس کو دوسرے کمرے میں لے گئی۔ اگر وہ ایسا نہ کرتی تو ہندہ کا شوہر ہندہ کو تین طلاق دے چکا ہوتا کیونکہ اس کا ارادہ تو تین طلاق دینے کا ہی تھا ، اس کے بعد وہ ہندہ کو گھر سے نکال دیا اور بیرون ملک چلے گیا ۔ شرعاً کیا حکم ہے ؟
مرزا اکرم بیگ، چھاؤنی ناد علی بیگ
جواب :  بشرط صحت سوال شوہر نے ہندہ کو ایک بار طلاق دی، دوسری بار طلاق کا لفظ کہنے سے قبل ہی اس کی ماں نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور اس نے طلاق کا لفظ نہیں ادا کیا تو ہندہ پر صرف ایک طلاق رجعی واقع ہوئی ۔ طلاق رجعی میں شوہر کو اندرون عدت (تین حیض) رجوع کرلینے کا حق ہے ۔ اگر وہ اندرونِ عدت رجوع نہ کرے تو عدت ختم ہوتے ہی دونوں میں تفریق ہوجائے گی ۔ عالمگیری جلداول ص : 259 میں ہے : ولو قال أنت طالق و ھو یرید ان یقول ثلاثا فقبل أن یقول ثلاثا أمسک غیرہ فمہ اومات تقع واحدۃ کذا فی محیط السرخسی فی باب التشکیک والتخییر۔

عورت کا ظلم اور زیادتی
سوال :  میری اہلیہ کا ارکان خاندان و اپنی ہی اولاد اور خاوند کے ساتھ بہت ہی سخت اور ظالمانہ رویہ رہتا ہے ۔ خاص طور سے اپنی بہو کے ساتھ اور گھر کی خادماؤںکے ساتھ انتہائی بے رحمانہ اور سخت لہجہ سے مخاطب ہوتے ہیں ۔ ہمیشہ زبان سے بڑے بڑے الفاظ اور گندی قسم کی گالیاں بکتے رہتے ہیں۔ براہ مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں ہدایت فرمایئے تاکہ معاشرہ خراب نہ ہونے پائے۔
نام…
جواب :  اسلام میں خوش کلامی و بزم گفتاری کا حکم ہے۔ سخت کلامی و دلآزاری سخت منع ہے۔ اسلام اپنے متبعین کو تلقین کرتا ہے کہ وہ بڑوں سے ادب و ا حترام ، تعظیم و توقیر سے پیش آئیں اور چھوٹوں سے پیار و محبت اور شفقت کا برتاؤ کر یں اور مسلمان یہی ہے کہ اس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ (بخاری) اس لئے مذکور السؤال خاتون کو اپنی اصلاح کرنی چاہئے اور اپنی طرز گفتگو میں تبدیلی لاتے ہوئے شیریں کلامی کو اختیار کریں کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں ایک خاتون کا ذکر کیا گیا کہ وہ عبادت گزار تو ہے لیکن اپنی زبان سے دوسروں کو تکلیف پہنچاتی ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ جہنمی ہے۔ اسی طرح ایک حدیث شریف میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ اللہ تعالیٰ نے جب جنت کو پیدا فرمایا تو جنت نے عرض کیا : پروردگار ! مجھے تقویت عطا فرما تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حسنِ اخلاق اور سخاوت کو پیدا کیا ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے دوزخ کو پیدا فرمایا تو دوزخ نے بھی کہا : پروردگار مجھے تقویت عطا فرما تو اللہ تعالیٰ نے بد اخلاقی اور بخالت کو پیدا فرما یا۔ متذکرہ بالا تفصیلات کی روشنی میں واضح ہے کہ سخت کلامی دلآزاری جہنم کی طرف لے جانے والی ہے ۔ اس لئے اس سے پرہیز کرنا چاہئے ۔ بعض خواتین اپنی برتری کے ا ظہار کے لئے اس طرح کا طریقہ اختیار کرتی ہیں جو شرعاً منع ہے اور سخت مذموم ہے ۔

نماز کی نیت کا طریقہ
سوال :  سنت نماز کیلئے رکعت کس طرح باندھنا چاہئے ؟ میں عرصہ سے اس طرح رکعت باندھتی ہوں۔ ’’ ظہر کے چار رکعت سنت نماز پڑھتی ہوں، رسول اللہ کے واسطے منہ میرا کعبہ شریف کی طرف تابع قرآن کے اللہ اکبر ‘‘ لیکن بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کہنے سے شرک سرزد ہورہا ہے ۔ برائے مہربانی رکعت باندھنے کا صحیح طریقہ کیا ہے ؟ تفصیل سے واضح کیجئے ۔
عالیہ فاطمہ ، نلگنڈہ
جواب :  سوال میں ذکر کردہ نماز کی زبانی نیت کا طریقہ صحیح نہیں۔ آپ اس طرح نیت کیجئے کہ میں چار رکعت ظہر کی سنت نماز واسطے اللہ تعالیٰ کے ادا کرتی ہوں منہ میرا کعبہ شریف کی طرف اللہ اکبر ۔