اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر کنٹرول کے لیے خصوصی میکانزم کی ضرورت

دال ، چاول ، گیہوں ، گھی ، خوردنی تیل ، شکر اور دیگر اشیاء مہنگی
حیدرآباد ۔30 ۔ جون ۔ (سیاست نیوز) ماہِ رمضان المبارک کے دوران اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہونے والے اضافہ پر کنٹرول کرنے خصوصی میکانزم کی ضرورت ہے چونکہ ماہِ رمضان المبارک کے دوران جو اشیائے ضروریہ اضافی استعمال ہوتی ہیں، ان کی قیمتوں میں بلا وجہ اضافہ کا رجحان پیدا ہوچکا ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے جاری اس رجحان میں کسی بھی طرح سے کمی واقع نہیں ہورہی ہے بلکہ آئے دن یہ رجحان بتدریج بڑھتا جارہا ہے۔ شہر حیدرآباد میں ماہِ رمضان سے قبل سونا مسوری چاول نمبر ایک جو کہ 3400 تا 3600 روپئے کنٹل فروخت ہورہا تھا، اس کی قیمت 4100 تا 4300 روپئے فی کنٹل پہنچ چکی ہے ۔ اسی طرح 3200 تا 3400 روپئے فی کنٹل رمضان سے قبل فروخت کئے جانے والے سونا مسوری چاول نمبر 2 کی قیمت 3700 تا 3800 روپئے تک پہنچ چکی ہے۔ اسی طرح شربتی گیہوں جو رمضان سے قبل 2800 روپئے فی کنٹل فروخت کیا جارہا تھا، اب اس کی قیمت 3100 روپئے فی کنٹل ہوچکی ہے۔ اس طرح صرف گیہوں میں 300 روپئے فی کنٹل کا اضافہ ہوا ہے۔ 15 کیلو تیل کا ڈبہ 1130 روپئے میں فروخت کیا جارہا تھا ، اس میں 70 روپئے کے اضافہ کے ساتھ اب یہ تیل کا ڈبہ 1200 روپئے ہوچکا ہے۔ شکر جو کہ 27 روپئے فی کیلو ماہِ مقدس سے قبل فروخت کی جارہی تھی ، اس میں سیدھے 5 روپئے کا اضافہ ہوا ہے اور شکر اب کم از کم 32 روپئے فی کیلو فروخت کی جارہی ہے۔ اصلی گھی کی قیمت میں 100 روپئے کا اضافہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اصلی گھی جو کہ ماہ اپریل کے ابتدائی دنوں میں 340 روپئے فی کیلو فروخت کیا جارہا تھا ، اب اس کی قیمت 440 روپئے ہوچکی ہے۔ اسی طرح چنے کی دال کی قیمت میں بھی فی کنٹل تقریباً 800 روپئے کا اضافہ ہوا ہے اور اس کی قیمت 4000 روپئے فی کنٹل ہوچکی ہے ۔ ماش کی دال میں سب سے زیادہ 3700 کا اضافہ فی کنٹل ریکارڈ کیا گیا ہے اور اب ماش کی دال کی قیمت 8700 روپئے فی کنٹل کو پہنچ چکی ہے۔ مونگ کی دال کی قیمت میں بھی ڈھائی ہزار روپئے فی کنٹل اضافہ کے ساتھ 9500 روپئے پہنچ چکی ہے ۔ تور کی دال میں 500 روپئے فی کنٹل اضافہ ہوا ہے اور تور کی دال 6500 روپئے فی کنٹل فروخت کی جارہی ہے ۔ آٹے کی قیمت میں بھی 500 روپئے فی کنٹل کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے اور پیاز بھی 2600 روپئے فی کنٹل پہنچ چکی ہے۔ دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد میں موجود بعض ٹھوک بیوپاریوں نے اچانک قیمتوں میں ہوئے اس اضافہ کے متعلق دریافت کرنے پر بتایا کہ رمضان سے عین قبل ان اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کی بنیادی وجہ مصنوعی قلت ہے۔ اجناس کے ایک تاجر نے بتایا کہ بڑے ٹھوک بیوپاریوں کی جانب سے عین رمضان کی آمد سے قبل ان اجناس و اشیائے ضروریہ کی مصنوعی قلت پیدا کرتے ہوئے ان اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کیا جارہا ہے اور ماہِ رمضان المبارک کے اختتام کے بعد ان اشیاء کی قیمتوں میں معمول کے مطابق کمی رونما ہوجاتی ہے۔ ماہِ مقدس کے دوران ان اشیاء کی مصنوعی قلت کے سبب عوام اضافی قیمت ادا کرتے ہوئے بھی اشیائے ضروریہ حاصل کرنے سے گریز نہیں کرتے جس کا ناجائز فائدہ ٹھوک بیوپاری اٹھارہے ہیں۔ تاجرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت کی جانب سے قیمتوں کے اضافے و کمی کے سلسلہ میں خصوصی میکانزم تیار کیا جائے اور رمضان کے دوران قیمتوں میں ہونے والے اضافہ کا جائزہ لیا جائے تو اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کافی کمی لائی جاسکتی ہے ۔ تاجرین کا احساس ہے کہ اشیائے ضروریہ بالخصوص اجناس کی قیمتوں میں اضافہ کے مضر اثرات ہوٹلوں کی اشیاء پر بھی پڑ رہے ہیں اور بتدریج مہنگائی میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے ۔