اسلوب قرآن کی انفرادیت اور علمی نہج

(Scientific Approach)

اہل عرب میں عام طورپر کلام کی تین اقسام رائج تھیں (۱) نظم (اشعار)، (۲) نثر ( روزمرہ کی بول چال ، خطوط اور خطابت کی زبان) ، (۳) سجع: یعنی مقفی و مسجع عبارت جو عام طورپر کاہن بولتے تھے اور جس میں الفاظ زیادہ سے زیادہ شوکت مگر معانی بے وقعت اور کمزور ہوا کرتے تھے ۔
(دیکھئے ابی خط البیان والتبین ، المبرد: الکامل)
قرآن حکیم کا اسلوب ان سب سے منفرد اور ان سے بالکل مختلف ہے ، نہ تو وہ شعر ہے ، نہ ہی مروجہ نثر اور نہ مسجع کلام بلکہ یہ کلام کہیں چھوٹی چھوٹی آیات پر مشتمل ہے تو کہیں بڑی بڑی آیات سے عبارت ہے مگر ہرجگہ الفاظ کی رونق اور چمک دمک کے ساتھ ساتھ معانی کا ایک بحر بے کراں ٹھاٹھیں مارتا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔اسی بناء پر فصحاء عرب کو اس کلام کی صنف متعین کرنے میں بے حد دشواری ہوئی ۔ ایک مرتبہ ولید بن مغیرہ نے قرآن کی کوئی آیت سنی تو وہ اس سے متاثر ہوا ۔ ابوجہل نے جب اسے متاثر دیکھا تو اس کا اثر دور کرنے کے لئے کہا کہ یہ نظم کی کوئی قسم ہے۔ ولید نے کہا : بخدا مجھ سے زیادہ تم میں عربی اشعار کا جاننے والا کوئی نہیں ، شعر سے اس کلام کو کوئی مناسبت ہی نہیں ۔ ایک دوسرے موقعہ پر کسی نے آپ کو کاہن ، جادوگر یا نعوذباﷲ مجنون کہنے کی تجویز پیش کی تو ولید نے مخالفت کی اور کہا نہ تو یہ کاہن ہیں (کیونکہ ان کے کلام کو کاہنوں کے کلام سے کوئی واسطہ نہیں )اور نہ ہی جادوگر و مجنون ۔ ( الشفاء ص : ۱۲۹)
عتبہ بن ربیعہ سردار قریش نے یہ کلام سنا تو کہا : واﷲ آج تک میں نے ایسا کلام نہیں سنا ، نہ تو یہ شعر ہے اور نہ سحر ( کتاب مذکور ص : ۱۳) اسی طرح حضرت انسؓ جوکہ حضرت ابوذر غفاریؓ کے بھائی ہیں وہ خود بھی بلند پایہ شاعر تھے ، استفسار حال کے لئے مکہ پہنچے اور قرآن مجید سنی تو اسلوب قرآن کی نسبت یہ گواہی دی ’’میں نے آپ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کا کلام سنا مگر آپ کے بلند پایہ کلام سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ آپ جو کہتے ہیں سچ ہے اور آپ کے دشمن جھوٹے ہیں‘‘۔ (حوالہ مذکور)
ماہرین فن نے قرآنی آیات کو تین حصوں پر تقسیم کیا ہے طویل آیات مثلاً سورۃ البقرہ ۔ اوساط ( درمیانی ) مثلاً سورۃ الاعراف اور سورۃ الانعام قصار (مختصر آیتیں) ان سب میں قرآنی آیات کے الفاظ و حروف کا ایک خاص اسلوب ہے اور معانی کی وسعت کے ساتھ ساتھ آیات کے الفاظ و حروف اور ان کی اصوات ایک خاص سماعتی ماحول اور ایک خاص لذت پیدا کرتی ہیں جب یہ آیات پڑھی جارہی ہوں تو ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی دریا رواں دواں ہو ، آواز کے اُتار چڑھاؤ سے بلاشبہ کسی آبشار کے گرنے کا سماں بندھتا ہے ۔
شہر حیدرآباد کی ایک علمی و تحقیقی شخصیت کا نام گرامی ڈاکٹر حسن الدین احمد ہے جنھوں نے بڑی گہرائی سے قرآن مجید کا مطالعہ کیا ہے ۔ وہ قرآن مجید کے اسلوب و ادب سے متعلق رقمطراز ہیں : ’’قرآن مجید ادب عالیہ کا عظیم شاہکار ہے وہ تمام محاسن جو کسی ادب عالیہ کے مثبت پہلو اس قرآن مجید میں موجود ہیں۔ اس میں پیام اور خیال کی حکمرانی ہے یعنی معنویت کو اولیت دی گئی ہے ۔ قرآن مجید میں بنیادی اہمیت خیال کی ہے جو سراسر حق اور حکمت ہے ۔ اصل مقصد خیال کی ترسیل ہے جس کیلئے اسلوب ، زبان و بیان کی خوبیوں کو بطور وسیلہ اختیار کیا گیا ہے ۔ ادائے مطلب کے لئے موزوں ترین الفاظ ، معنی خیز اصطلاحات ، موزوں اور پرشکوہ الفاظ کا استعمال ، ترکیب کلام ، اسلوب بیان اور اس کی تاثیر بے مثال ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ قرآن مجید کے اسلوب کی خوبیوں کے تجزیہ کے نتیجے میں زبان و بیان اور اسلوب کے بہت سے معیار سامنے آئے جو کسی بھی زبان کی تحریروں ( نظم و نثر ) میں مفقود تھے اور ان میں اسلوب اور زبان و بیان کی وہ خوبیاں نہیں پائی جاتیں جو قرآن مجید میں پائی جاتی ہیں۔ اس طرح اس معیار نے ادبی تنقید کو نئی راہ دکھلائی ۔ یہ تمام نمایاں خوبیاں اپنی جگہ ہیں لیکن قرآن مجید کے حکیمانہ خیالات فکر و خیال کی نیرنگی ، معانی ومطالب ، اس کا معروضی ، آفاقی اور ابدی پیام اس کی حقیقت پسندی ، اس کے اعلیٰ مقاصد ، ارشادات اور ہدایات ان تمام ادبی خوبیوں پر حاوی ہیں۔ قرآن مجید نے بنی نوع انسان کے خیالات ، اخلاق ، تہذیب اور طرز زندگی پر گہرے اثرات ڈالے ۔ شائد ہی کوئی کتاب اس قدر انقلاب آفریں اور فکر انگیز ہو۔ ( ڈاکٹر حسن الدین احمد ، کاروان خیال ، حرف آغاز ص : ۶)
قرآن مجید کے اسلوب بیان کا خصوصی انداز ہے یعنی ایسے لفظی اور معنوی اصولوں کے استعمال کی کثرت نظر آتی ہے جن کی وجہ سے کوئی کلام درجۂ کمال کو پہنچتا ہے ۔ امام سیوطی نے الاتقان فی علوم القرآن میں سورۂ ھود کی آیت (۴۴) نقل کی ، ترجمہ : اور حکم دیا گیا کہ اے زمین ! اپنا پانی نگل لے اور اے آسمان تھم جا اور پانی خشک کردیا گیا اور حکم تمام ہوا اور کشتی جودی ( پہاڑ) پر پہنچی اور فرمایا گیا کہ ہلاک ہوں ظالم لوگ۔
اس آیت کی نسبت ابن ابی الاصبح کا قول نقل کرتے ہیں کہ میں نے آج تک اس جیسے کلام کی مثال نہیں دیکھی ۔ اس میں ۱۷ الفاظ ہیں اور (۲۰) اسلوب بیان کی خوبیاں ہیں۔
ڈاکٹر حسن الدین احمد کے مطابق قرآن مجید جس طرح تاریخ ، قانون ، معاشیات ، نفسیات ، جغرافیہ ، فلکیات کی کتاب نہیں ہے ۔ اسی طرح سائنس کی کتاب بھی نہیں ہے لیکن قرآن مجید ذہن انسانی میں ایسا بنیادی تغیر پیدا کردیتا ہے جس سے تمام انسانی علوم کے ساتھ ساتھ سائنس کی ترقی اور ارتقاء کی راہ ہموار ہوتی ہے ۔ قرآن مجید ہر مطالعہ و قراء ت کرنے والے سے مطالبہ کرتا ہے کہ کس بات کو قبول کرنے کیلئے استدلال اور فہم و فراست کو استعمال کیا جائے اس سے علمی نہج (Scientific Approach) کا راستہ کھل گیا ۔ کائنات میں جو مظاہر قدرت (Objects of Nature) ہیں انسان ان کی عبادت اور پوجا کیا کرتے تھے ۔ قرآن مجید نے ان مظاہر کو مطالعہ کا موضوع بنادیا ۔ اس انقلابی تبدیلی نے سائنس کی ترقی اور ارتقاء میں نہایت اہم رول ادا کیا ۔
قرآن مجید کے بموجب کائنات میں سبب اور نتیجہ (Cause and effect) کا قانون کارفرما ہے ۔ یعنی کائنات میں کوئی عمل محض اتفاقی سے نہیں بلکہ اﷲ تعالیٰ کے اٹل قوانین کے تحت ظہور پذیر ہوتا ہے ۔
عام طورپر علماء کا رویہ یہ ہے کہ وہ سائنس کی ان دریافتوں کا شہرہ جو زیادہ تر غیرمسلم اور مغربی سائنس دانوں کے سر جاتا ہے حوالہ دیکر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کا ذکر قرآن مجید میں پہلے سے موجود ہے ۔ یہ محض سرسری انداز فکر ہے ۔ کرنے کا کام تو یہ ہے کہ ہم مسلمان جو حامل قرآن ہیں قرآن مجید کی تعلیمات کی روشنی میں عصری علوم کو آگے بڑھائیں یعنی ضرورت اس کی ہے کہ سائنس کی دریافتوں کو جنھیں اور کئی منازل طئے کرنے ہیں اور آگے بڑھانے کیلئے قرآن مجید سے استفادہ کی راہ ہموار کریں ۔ اس کے لئے سائنس سے بخوبی واقفیت اور قرآن مجید کے گہرے مطالعہ (indepth Study) کی ضرورت ہے ۔
(کاروان قلم ص:۲۶)