اسلام کا حیات آفرین پیغام بنی نوع انسان کیلئے رحمت

سمینار سے مولانا خالد سیف اللہ رحمانی و دیگر کا خطاب

حیدرآباد 7 جنوری (سیاست نیوز) اسلام کا حیات آفرین پیغام بنی نوع انسان کے لئے موعظت اور رحمت ہے اور اس کے ماننے والوں کو اس بات کا حکم دیتا ہے کہ وہ اس قانون پر عمل آوری کریں۔ لیکن باطل طاقتیں وقفہ وقفہ سے اسلام اور مسلمانوں کو ہراساں کرنے کی کوشش میں ہے۔ نکاح و طلاق مسلمانوں کے عائیلی قوانین ہیں اور ہندوستان کے دستور میں آرٹیکل کے تحت ہر مذہب کے ماننے والوں کو اُن کے مذہب پر پابند رہنے کی آزادی دی ہے۔ جب تک مسلمان اسلامی نقطہ نظر سے طلاق و خلع، نان و نفقہ اور عائیلی قوانین سے واقفیت حاصل نہ کریں گے تو اُنھیں ایسے ہی مسائل سے دوچار ہونا پڑے گا۔ ان خیالات کا اظہار مولانا خالد سیف اللہ رحمانی سکریٹری و ترجمان آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے آج تلگو یونیورسٹی میں سمینار سے کیا۔ انھوں نے ایسے مسلم طلباء جو حیدرآباد کے مختلف کالجس میں قانون کی تعلیم حاصل کررہے ہیں اُنھیں اسلامی قانون شریعت سے واقف کرواتے ہوئے یہ بات بھی کہاکہ محمڈن لاء جو شریعت اسلامی سے میل نہیں کھاتا اس سے شریعت پر اثر پڑرہا ہے اور یونیورسٹیوں میں طلباء کو اس کی بھی تعلیم دی جارہی ہے۔ انھوں نے کہاکہ موجودہ مرکزی حکومت ملک میں وقفہ وقفہ سے مسلمانوں کو ہراساں و پریشان کرنے کے لئے نت نئے مسائل میں اُلجھا رہی ہے اور ایک سیاسی ایجنڈے کے تحت اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے اُس نے یہ ہتھکنڈے استعمال کئے ہیں۔ اُنھوں نے کہاکہ جو طلباء قانون کی ڈگریوں کے متمنی ہیں اور جنھوں نے قانون کی ڈگری حاصل کی اور وہ عدالتوں میں برسر روزگار ہیں اُن پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ شریعت اسلامی کے قوانین کو ہر کس و ناکس میں عام کیا جائے۔ انھوں نے طلاق کے اسلامی قوانین پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور کہاکہ طلاق کی نیت مرد کی طرف منسوب ہے اور اُسے اختیار دیا گیا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے۔ انھوں نے سال 2010 ء کے اعداد و شمار بتاتے ہوئے کہاکہ اس ملک میں 23 لاکھ سے زائد ایسی خواتین ہیں جو ہندو شوہروں کے ظلم و زیادتی میں ہیں اور اس انتظار میں ہے کہ اُنھیں طلاق دے کر علیحدہ کردے۔ جی سلطانہ ایڈوکیٹ کنوینر پروگرام نے مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی تقریر کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا۔ اس موقع پر سید عطاء حسین انجم، محمد عارف رضوان ڈائرکٹر آف اکیڈیمک آفیسرس RITS ، ابرار احمد خان اور دوسرے موجود تھے۔