اسلام میں شوہر کے حقوق

اسلام چاہتا ہے کہ خاندان کے تمام افراد ایک دوسرے کے مددگار اور معاون ہوں۔ جن جن ذمہ داریوں کو وہ تعین کے ساتھ خاندان کے افراد پر عائد کرتا ہے، اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ فرائض بس ان ہی افراد کے ساتھ خاص ہیں، بلکہ اسلام دیگر افراد کو بھی ان کی معاونت پر اُبھارتا ہے اور تلقین کرتا ہے، ان فرائض کی ادائی میں دوسرے بھی اس کے ساتھ شریک ہوں۔ مثلاً کسب کی ذمہ داری اس نے شوہر پر عائد کی، لیکن اس میں معاونت کی ذمہ داری میں اسلام نے بیوی کو بھی شریک کردیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’عورت کو گھر میں بیکار بیٹھے رہنے کی جگہ چرخہ کاتنا اچھی کمائی کا مشغلہ ہے‘‘۔ (کنوز الحقائق)
اسی طرح تدبیر منزل کی ذمہ داری اسلام نے بیوی پر عائد کی ہے، لیکن اس کی معاونت میں شوہر کو بھی ’’قوام‘‘ (نگران) بناکر شریک کرلیا۔ یہ تعاون انسان کی تمدنی زندگی کی روح رواں ہے اور خاندان کی تربیت کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ جو لوگ یہاں تعاون نہیں سیکھتے، وہ معاشرہ کے دوسرے دائروں میں بھی کسی کے ساتھ تعاون نہیں کرسکتے۔ یہ ہیں خاندان کے وہ اہم مقاصد، جن کی تکمیل اسلام اس ادارہ سے چاہتا ہے۔ وہ ان کی تعلیم و تلقین پر اکتفا نہیں کرتا، بلکہ خاندان کے ہر فرد کے حقوق و فرائض کا تعین بھی کردیتا ہے اور بتاتا ہے کہ کس کے فرائض کیا ہیں، حقوق کیا ہیں اور اختیارات کیا ہیں۔ درج ذیل سطور میں ہم ان ہی حقوق، فرائض اور اختیارات کی نشاندہی کرنا چاہتے ہیں، جن کا تعین اسلام نے کیا ہے۔ اس تعین سے واضح طورپر معلوم ہو جاتا ہے کہ اسلام خاندانی نظام کو کن خطوط پر چلانا چاہتا ہے۔
زوجین کا لفظ بیوی اور خاوند کے لئے بولا جاتا ہے۔ نکاح کے ذریعہ یہ رشتہ تمام رشتہ داریوں میں زیادہ قریب تر اور زیادہ مستحکم ہوتا ہے، لیکن دوسری طرف یہ رشتہ انتہائی نازک بھی ہوتا ہے، جو حقوق و فرائض میں کوتاہی اور لاپرواہی کی وجہ سے ٹوٹ بھی سکتا ہے۔ جس کی وجہ سے دو خاندان عزت و وقار کھوکر رسوا ہو جاتے ہیں اور اولاد الگ تباہ ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے اسلام نے ان کے حقوق و فرائض کا تعین کردیا ہے اور ہر ایک کو تعلیم دی ہے کہ وہ دوسرے کے حقوق کماحقہٗ ادا کریں۔
شوہر کا پہلا حق یہ ہے کہ بیوی اس کی عزت اور اپنی ناموس کی حفاظت کرے۔ عفت و عصمت ہر مرد اور عورت کا سب سے بڑا حسن ہے، لیکن بالخصوص اس کو عورت کا زیور کہا جاسکتا ہے۔ بیوی، شوہر کی عزت و آبرو ہوتی ہے، اس کا تحفظ کرنا ان کا سب سے اولین فرض ہے۔ پاک دامن اور نیک عورت دنیا کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔ کسی عورت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ شوہر کی عزت و ناموس پر ڈاکہ ڈلوائے۔
شوہر کا دوسرا حق یہ ہے کہ بیوی اس کے مال و اسباب کی حفاظت کرے۔ وہ شوہر کے مال و اسباب کی امین ہے۔ کوئی شخص گھر سے باہر اسی وقت سکون و اطمینان سے کام کرسکتا ہے، جب اسے یہ اطمینان ہو کہ اس کا گھر اور مال و متاع اس کی عدم موجودگی میں بھی اسی طرح محفوظ ہیں، جس طرح اس کی موجودگی میں محفوظ ہوتے ہیں۔ شوہر کی محنت کے پھل کی حفاظت بیوی سے بہتر اور کون کرسکتا ہے؟ اسے شوہر کی محنت اور جانفشانی کا صحیح اندازہ ہوتا ہے اور پھر شوہر کے مال و اسباب کی حفاظت میں خود اس کا اپنا اور اپنی اولاد کا مفاد بھی پوشیدہ ہے۔ کون عورت اپنا اور اپنی اولاد کا نقصان گوارا کرسکتی ہے؟۔
شوہر کا تیسرا حق یہ ہے کہ بیوی اس کے گھر کے جملہ انتظامات سنبھالے اور اپنے حسن انتظام سے گھر کو جنت کا نمونہ بنائے رکھے۔ احساس کمتری میں مبتلاء افراد چار دیواری کو عور ت کا ’’قید خانہ‘‘ بتاتے ہیں، لیکن اسلام کا تصور ’’قید خانہ‘‘ کا نہیں، بلکہ عورت کی ایک چھوٹی سی ریاست کا ہے، جس کی وہ ملکہ ہوتی ہے۔ سارے اندرونی اختیارات اس کو حاصل ہوتے ہیں۔ جب وہ اپنے گھر کا بجٹ بناتی ہے تو وہ اپنی ریاست کی وزیر خزانہ ہوتی ہے۔ جب وہ اولاد کی تربیت کرتی ہے تو اس کی حیثیت وزیر تعلیم کی سی ہوتی ہے۔ جب وہ انتظامی ضابطہ وضع کرتی ہے تو اس کی حیثیت ایک وزیر قانون کی سی ہوتی ہے۔ غرض جس طرح بھی وہ اپنے گھر کا انتظام کرتی ہے تو اسی کے مطابق اس کی حیثیت اس چھوٹی سی ریاست میں کسی وزیر سے کم نہیں ہوتی۔ ایک صاحب فکر و نظر عورت تدبیر منزل میں اتنی ہی خوشی محسوس کرتی ہے، جتنا کہ کوئی وزیر ریاستی کام کرکے محسوس کرتا ہے۔
شوہر کا چوتھا حق یہ ہے کہ بیوی اس کی اطاعت کرے۔ احساس کمتری کے شکار انسان اس اطاعت کو بھی غلامی سمجھتے ہیں، لیکن اسلام کے نزدیک اس اطاعت کا تصور یہ ہے کہ نظم خاندان اور نظام خانہ کو درست رکھنے کے لئے مرد کو اس کی فطری صلاحیتوں کے سبب عورت پر ایک درجہ دے کر قوام (نگراں) بنایا گیا ہے۔ انتظامی نقطۂ نظر سے ایک سپریم اتھارٹی بہر حال ضروری ہے۔ بیوی گھر کی اتھارٹی ہے اور شوہر سپریم اتھارٹی۔ انتظامی، محکوم و مجبور نہیں ہوتی، بلکہ بڑے وسیع اختیارات کی حامل ہوتی ہے۔ سپریم اتھارٹی کو مداخلت کا حق صرف اس وقت ہوتا ہے، جب کوئی معاملہ اتھارٹی کے کنٹرول سے باہر ہو جائے۔ ایک اتنی بڑی اتھارٹی کو غلام سمجھنا بجائے خود غلامانہ ذہنیت ہے۔
دوسری طرف شوہر کی سپریم اتھارٹی کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ اس سے ناجائز فائدہ اٹھاکر بیوی پر ظلم کرے اور اسے لونڈی بنائے رکھے۔ قرآن حکیم نے بیوی اور خاوند کے لئے ’’زوجین‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے، جس میں مساوات اور ہمسری کا پہلو خود بخود شامل ہے۔ بیوی کو مساویانہ حیثیت اور ہمسری صرف اسلام نے عطا کی ہے۔ اسلام سے پہلے بیوی کے لئے ’’عورت‘‘ کا لفظ بیوی کی کمتری کا پہلو شامل تھا، لیکن اسلام نے اسے ’’زوجہ‘‘ (بیوی شریک حیات) کے لفظ سے نوازا، اس میں کمتری کا نہیں ، بلکہ برابری اور ہمسری کا پہلو شامل ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے بیوی شریک حیات ہے، لونڈی نہیں۔