اسلامی معاشرہ میں استاد کا مقام

پیارے بچو! اسلامی نظام تعلیم میں استاد کو مرکزی مقام حاصل ہے۔ معلم کی ذات علمی ارتقاء سے وابستہ ہے۔ نئی نسل کے مستقبل کی تعمیر کے سلسلے میں استاد کی مثال ایک کسان اور باغبان کی سی ہے۔علامہ اقبال ؔ کے یہ الفاظ معلم کی عظمت و اہمیت کے عکاس ہیں:
’’ استاد دراصل قوم کے محافظ ہیں، کیوں کہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور ان کو ملک کی خدمت کے قابل بنانا انہی کے سپرد ہے۔ سب محنتوں سے اعلیٰ درجے کی محنت اور کارگزاریوں میں سب سے زیادہ بیش قیمت کارگزاری معلموں کی ہے۔ معلم کا فرض سب سے زیادہ مشکل اور اہم ہے، کیوں کہ تمام قسم کی اخلاقی، تمدنی اور مذہبی نیکیوں کی کلید اس کے ہاتھ میں ہے اور ہر قسم کی ترقی کا سرچشمہ اس کی محنت ہے۔‘‘ ہارون الرشید کے دربار میں کوئی عالم تشریف لاتے تو بادشاہ ان کی تعظیم کے لئے کھڑا ہوجاتا۔ درباریوں نے کہا: ’’ اس سے سلطنت کا رعب جاتا رہتا ہے تو جواب دیا کہ اگر علمائے دین کی تعظیم سے رعب سلطنت جاتا ہے تو جانے ہی کے قابل ہے۔‘‘ ہارون الرشید نے اپنے بیٹے مامون کو علم و ادب کی تعلیم کیلئے امام اصمعی کے سپرد کردیا تھا۔ ایک دن ہارون اتفاقاً ان کے پاس پہنچا۔ دیکھا کہ اصمعی اپنے پاؤں دھو رہے ہیں اور شہزادہ پاؤں پر پانی ڈال رہا ہے۔ہارون الرشید نے برہمی سے کہا : ’’ میں نے تو اسے آپ کے پاس اس لئے بھیجا تھا کہ آپ اس کو ادب سکھائیں گے۔ آپ نے شہزادے کو یہ حکم کیوں نہیں دیا کہ ایک ہاتھ سے پانی ڈالے اور دوسرے ہاتھ سے آپ کے پاؤں دھوئے۔‘‘
٭٭٭ ٭ ٭٭٭