اسرافِ لفظی

صابر علی سیوانی

انسان اپنے اوصاف، خصائص اور کارناموں سے پہچانا جاتا ہے ۔ ہر شخص میں کوئی نہ کوئی ایسی خاصیت ہوتی ہے جو دوسروں سے اسے ممتاز بناتی ہے ۔ کوئی چرب زبانی میں ماہر ہوتا ہے تو کوئی قصیح اللسانی میں مہارت رکھتا ہے ۔ کسی کو اپنی شیریں زبانی سے لوگوں کو گرویدہ بنانے کا ہنر آتا ہے تو کوئی خوش مقالی کے فن میں مہارت رکھتا ہے ۔ کوئی شخص کردار کا غازی ہوتا ہے، کوئی فرد گفتار کا غازی کہلاتا ہے ۔ کوئی تقریر سے لوگوں کے دل موہ لیتا ہے تو کوئی اپنی تحریر سے قارئین کے دلوں میں جگہ بنالیتا ہے، لیکن گفتگو ، تقریر اور چرب زبانی سے مشکل فن اپنے مافی الضمیر کو تحریر ی شکل میں لفظوں کی صحت اور املا کی درستگی کے ساتھ پیش کرنا ہوتا ہے ۔ جملہ ، فقرہ اور املا ایک دوسرے سے مربوط ہوتے ہیں۔ املا کے علاوہ ایک اہم معاملہ رسم الخط کا ہوتا ہے جسے صحت کے ساتھ لکھنا بھی مشکل امر ہوتاہے ۔ املا کی تعریف یہ ہے کہ ’’کسی لفظ کو ٹھیک ٹھیک لکھا جائے ۔ یعنی اس میں جتنے حروف آنے چاہئیں اور جس ترتیب سے آنے چاہئیں اسی طرح آئے ہوں‘‘۔ علاوہ ازیں ان حروف کے جوڑ پیوند بھی ٹھیک ہوں تب کہا جائے گا کہ اس لفظ کا املا درست ہے ۔ رشید حسن خان نے املا کی تعریف یوں کی ہے۔ ’’املا لفظوں کی صحیح تصویر کھینچنا ہے اور اس بات کو یوں بھی کہا گیا ہے کہ املا لفظ میں صحیح صحیح حرفوں کے استعمال کا نام ہے‘‘۔ (اردو کیسے لکھیں۔ رشید حسن خان ، مکتبہ جامعہ نئی دہلی 975 صفحہ 11 ) رسم الخط کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ’’ جو طریقہ ان حرفوں کو لکھنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے وہ رسم خط کہلاتا ہے‘‘۔

بعض ایسے الفاظ کی یہاں نشاندہی کرنے کی کوشش کی جائے گی جو یا غلط لکھے جاتے ہیں یا ان کے املا میں غیر ضروری طور پر ایک دو حروف بلکہ بعض دفعہ دو یا تین الفاظ کا اضافہ کردیا جاتا ہے جسے ادبی لفظوں میں اسراف لفظی کہا جاسکتا ہے ۔ املا میں اگر حروف یا الفاظ کی کمی زبان کو بگاڑ دیتی ہے تو دوسری جانب اس میں بعض حروف یا لفظوں کا اضافہ بھی ادبی حسن اور لسانی خوبی کو زائل کردیتا ہے لیکن غلط املا لکھتے وقت شعوری طور پر ہمیں یہ احساس ہی نہیں ہوتا ہے کہ ہم اسے غلط لکھ رہے ہیں بلکہ ہم اس پر غور و خوض بھی نہیں کرتے ہیں۔ بعض الفاظ کا املا اس لئے بھی غلط لکھنے کا رواج بن گیا ہے کیونکہ ہم میں سے بیشتر افراد فارسی زبان کی نزاکتوں اور اس کے مصادر و معانی سے واقف نہیں ہوتے ہیں جس کی وجہ سے غلط املا لکھنے کی ہمیں عادت پڑجاتی ہے اور یہ روش ہمیں اپنے پیشرؤں سے یا تو وراثتاً حاصل ہوتی ہے یا ہم بڑے اور نامور مصنفین اور مضمون نگاروں کی تحریروں کو پڑھ کر اپناتے ہیں اور یہی سلسلہ نسلاً بعد نسل چلتا چلا جاتا ہے جس سے انحراف یا تو مشکل ہوتا ہے یا تو ہم خود اپنی غلط نویسی کی عادت کو بدلنا نہیں چاہتے ہیں ۔ لفظوں کے اسراف کی چند مثالیں ملاحظہ کیجئے۔ فارسی کا ایک مقولہ ہے ’’ہرچہ باش برادرِ خُرد مباش‘‘ یعنی کچھ بھی بن جاؤ لیکن کسی کا چھوٹا بھائی مت بنو‘‘۔ یہاں عام طور پر خرد کو خورد لکھا جاتا ہے ۔ جبکہ یہاں ’’خورد‘‘ لکھنا قطعاً درست نہیں ۔ اگر خورد لکھیں گے تو اس کا مفہوم ہوگا ’’کھایا‘‘ جوخوردن مصدر سے ماضی کا صیغہ ہے ۔ اسی طرح خورد وکلاں (بڑے اور چھوٹے) لکھا جاتاہے ۔

یہاں بھی واؤ کے ساتھ خورد‘‘ لکھنا صحیح نہیں ہے کیونکہ اگر خورد و کلاں لکھیں گے تو اس کا مفہوم ’’کھایا اور بڑا‘‘ نکلے گا جبکہ لکھنے والا ’’چھوٹا اور بڑا‘‘ مفہوم پیش کرنا چاہتا ہے ۔ اس لئے ’’خرد و کلاں‘‘ لکھنا صحیح ہے ۔ ہاں ایک جگہ اس کی گنجائش بنتی ہے اور وہ ’’خورد و برد‘‘ جس کے معنی ہوتے ہیں کھانا اڑانا، غبن، خیانت ، بیجا تصرف۔ یہاں خورد ’’واو‘‘ کے ساتھ ہی لکھنا چاہئے ۔ ایک اور لفظ ’’خوردن‘‘ سے نکلا ہے اور عام طور پر اسے غلط لکھا جاتا ہے بلکہ رواج پذیر ہوچکا ہے وہ ہے’’خورد و نوش‘‘ کہا جاتا ہے کہ جلسے میں خورد و نوش کا بھی انتظام ہے۔ جب ’’خورد‘‘ لکھیں گے تو اس کے ساتھ ’’نوشید‘‘ لکھنا ہوگا لیکن جن معنی میں ’’خورد و نوش‘‘ لکھا جاتاہے، اس سے کھانا اور پینا مراد ہوتا ہے۔ خوردن مصدر کھانا اور نوشیدن مصدر پینا ہوتا ہے ۔ اس لئے جب ان دونوں مصادر کا اسم فاعل بنے گا تو ’’خور اور نوش‘‘ بنے گا ۔ یہ اسم صفت بھی کہلاتا ہے ۔ اس لئے خورد و نوش کی بجائے ’’خور و نوش‘‘ لکھنا مرجح ہے لیکن خورد و نوش لکھنے کا چلن اس قدر عام ہوگیاہے کہ اب خورد و نوش کی بجائے ’’خور و نوش‘‘ لکھنے میں اہل قلم کو یا تو قباحت محسوس ہوتی ہے یا وہ اس لفظ کی صحت کے بارے میں پوری طرح واقف ہی نہیں ہوتے ہیں۔ ایک لفظ ’’ناعاقبت اندیش‘‘ہے، جو غلط ہے لیکن ننانوے فیصد لکھنے والے ناعاقبت اندیش ہی لکھتے ہیں

جس کے معنی وہ’’ نتیجہ سے بے خبر ہونے والا‘‘ لیتے ہیں، لیکن ’’عاقبت نااندیش‘‘ لکھنا صحیح ہے کیونکہ حرفِ نفی کا استعمال فعل یا اسم فعل سے پہلے کیا جاتا ہے نہ کہ صفت یا اسم سے پہلے۔ اس لئے ’’عاقبت نااندیش‘‘ لکھنا ہی درست ہے۔ بعض افراد’’نغمہ و سرور‘‘ لکھتے ہیں اور وہی لوگ رقص و سرور بھی لکھتے ہیں۔ رقص ناچ ، اچھلنا ، کودنا ، مجرا کے معنی میں استعمال ہوتاہے اور لفظ سرور خوشی، نشہ ، اور خمار کا مفہوم ادا کرتا ہے ۔ اس طرح اس کا مطلب ہوا ناچ اور خوشی یا مجرا ، کودنا اور نشہ و خمار جبکہ اصل لفظ یہ نہیں ہے ۔ اصل لفظ ’’رقص و سرود‘‘ ہے یہاں رکی بجائے ’’د‘‘ کے ساتھ ’’سرود‘‘ لکھنا ہی مستند ہے ۔ سرود کے معنی ہوتے ہیں نغمہ ، گیت ، نغمہ اور تفریح طبع ۔ اسی طرح ایک لفظ کا عام طور پر غلط املا لکھا جاتا ہے ۔ غلط املے کے ساتھ وہ لفظ ہے ’’اژدہام‘‘ لیکن اژدھام ، یا ازدہام لکھنے کا رواج عام ہوچکا ہے لیکن اس کا صحیح املا ’’ازدحام‘‘ ہے ۔ رشید حسن خان نے بھی اپنی کتاب ’’اردو کیسے لکھیں‘‘ کے صفحہ نمبر 41 پر ’’ازدحام‘‘ لکھنے کو ہی درست قرار دیا ہے ۔ ازدحام بھیڑ ، ہجوم کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ بعض لوگ ’’حواس باختہ ‘‘ ، اور ’’ہوش و حواس‘‘ کا غلط املا لکھتے ہیں۔ کئی لوگ ہواس باختہ اور ’’ہوش و ہواس‘‘ بھی لکھ جاتے ہیں جبکہ مستند ’’حواس باختہ ‘’ اور ہوش و حواس‘‘ ہے۔ حواس باختہ کے معنی بے اوسان ، گھبرایا ہوا اور مخبوط الحواس ہوتا ہے اور ہوش و حواس کے معنی عقل و تمیز ہوتے ہیں ۔ اسی انداز سے ایک لفظ کو واؤ کے اضافے کے ساتھ لکھنے کی روایت پائی جاتی ہے اور وہ ہے ’’بلا خوف و تردید‘‘ جبکہ ’’بلا خوفِ تردید‘‘ بغیر واؤ کے لکھنا چاہئے ۔

ایک لفظ ’’بے نیل مرام‘‘ ہے جو کہ درست ہے جبکہ یہاں بھی درمیان میں واؤ کے اضافے کے ساتھ ’’بے نیل و مرام‘‘ لکھا جاتا ہے جبکہ بے نیل مرام (یعنی ناکام، نامراد، مقصد حاصل کئے بغیر) لکھنا چاہئے۔بعض الفاظ ایسے ہیں جن کا املا تو درست لکھا جاتا ہے لیکن اسے غلط پڑھا جاتا ہے یعنی اس لفظ کے حروف پر غلط اعراب لگاکر پڑھا جاتا ہے ۔ اس کی ایک مثال محو ’’ح‘‘ کے جزم اور ’’م‘‘ کے فتحہ کے ساتھ ہے جبکہ پڑھنے والے اسے محوُح کے ضمہ اور واؤ کے جزم کے ساتھ پڑھتے ہیں جبکہ محو،م کے فتح اور ح کے جزم کے ساتھ پڑھنے درست ہے۔ پڑھے لکھے حضرات یہاں تک اکثر و بیشتر اردو کے پروفیسران لفظ مقالہ کو م کے زیر کے۔ مقالہ پڑھتے اور لکھتے ہیں بلکہ ان کی زبان پر مقالہ م کے زیر کے ساتھ ہی رواں رہتا ہے ۔ محو لفظ کو ایک گمنام شاعرعاشق نے اپنے ایک شعر میں یوں باندھا ہے ۔

یہ اشتیاقِ شہادت میں محو تھا دمِ قتل
لگے ہیں زخم بدن پر کہاں نہیں معلوم
اسیطرح ایک لفظ فقر(ف کے زبر اور ق کے زیر کے ساتھ) ہے اور یہی مستند ہے جبکہ ف کے زیر اور ق کے جزم کے ساتھ بولنے اور پڑھنے کا رواج پایا جاتا ہے حالانکہ فقر ف کے زبر کے ساتھ صحیح ہے جس کا مفہوم حاجت ، احتیاج ، محتاج نکلتا ہے ۔ ذوق کا ایک شعر ہے ؎
دل فقر کی دولت سے مرا اتناغنی ہے
دنیا کے زر و مال پہ میں تُف نہیں کرتا

ایک مقالہ نگار نے اپنے مقالے میں لکھا کہ ’’بجز استثنائی صورتوں کو چھوڑ کر ہمارے استاد بہت ہی اچھے اور معاون ہیں‘‘۔ بجز کا مفہوم ہی کے علاوہ، چھوڑ کر ہوتا ہے۔ اس لئے یہاں بجز استثنائی صورتوں کے ہمارے استاد بہت ہی اچھے اور معاون ہیں‘‘ لکھنا درست ہے، لفظ ’’چھوڑ کر‘‘ کا اضافہ اسراف لفظی ہے۔ ایک مضمون نگار لکھتے ہیں کہ ’’ نومولود پیدا ہوتے ہی خدا کو پیارا ہوگیا‘‘۔ یہاں ’’نومولود‘‘ لکھنے کے بعد پیدا ہوتے ہی لکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اسی طرح ایک جملہ بار بار پڑھنے کو ملتا ہے کہ ’’بمشکل سے میرا یہ کام ہوپایا ہے اور میں اب فرحت محسوس کر رہا ہوں‘‘۔ بمشکل میں ب کا معنی ’’سے‘‘ ہوتا ہے تو بمشکل لکھنے کے بعد لفظ ’’سے‘‘ کا اضافہ کیا جواز رکھتاہے۔ پانچ ستمبر کو ایک کالم نگار کا مضمون کسی اخبار میں شائع ہوا اس میں لکھا تھا کہ ’’یوم اساتذہ کے دن طلباء نے اپنے اساتذہ کی گلپوشی کی‘‘ ۔ یوم عربی زبان کا لفظ ہے جو دن کا مفہوم ادا کرتا ہے ۔ اس لئے یہاں ’’یوم اساتذہ ‘‘ لکھنا کافی ہے ۔ یوم اساتذہ کے دن لکھنا تحصیل حاصل کے مترادف ہے۔ اسی طرح ’’یوم عاشورہ کے دن‘‘ لکھا جاتا ہے ۔ صرف یوم عاشورہ یا عاشورہ کے دن لکھنا ہی کافی ہے ۔ ایک لفظ ہے ’’سرفہرست‘‘ جو سب سے اوپر ، سب سے آگے کا مفہوم واضح کرتا ہے لیکن ایک فاضل مضمون نگار نے ایک رسالے میں اپنے ایک مضمون میں یہ جملہ لکھا کہ’’فحش فلمیں دیکھنے میں مسلمان سب سے سرفہرست ہیں‘‘۔ یہاں سرفہرست سے قبل لفظ ’’سب سے ‘‘ کا اضافہ اسراف لفظی ہے ۔ کچھ ایسا ہی طریقہ ان الفاظ یعنی شراب نوشی، سگریٹ نوشی کے استعمال کیلئے اپنایا جاتا ہے اور لکھا جاتا ہے، شراب نوشی کرنے والوں کے پھیپھڑے بہت جلد ناکارہ ہوجاتے ہیں۔ سگریٹ نوشی کرنے والے دل کی بیماریوں میں بہت جلد گرفتار ہوجاتے ہیں۔ یہاں شراب نوش افراد کے پھیپھڑے بہت جلد ناکارہ ہوجاتے ہیں اور اسی طرح سگریٹ نوش لوگوں کو دل کی بیماریاں بہت جلد لاحق ہوجاتی ہیں، لکھنا بہتر ہے ۔ سگریٹ نوشی یا شراب نوشی کا مطلب سگریٹ پینے والے اور شراب پینے والے ہوتے ہیں تو سگریٹ نوشی کرنے والوں یا شراب نوشی کرنے والوں لکھنا کس حد تک درست ہے ؟ یہاں کرنے والے کا اضافہ غیر ضروری ہے۔ سگریٹ نوش کا مطلب سگریٹ پینے والا ہوتا ہے ۔ اس لئے سگریٹ نوش شخص لکھنا ہی زیادہ بہتر ہے۔ ایک لفظ’’پیشہ ورانہ‘‘ ہے جو درست ہے ، لیکن کبھی کبھی ’’پیشہ وارانہ‘‘ بھی لکھا جاتا ہے۔ جمع الجمع لکھنے کی بھی روایت اردو میں عام ہے۔ مثلاً سلاطینوں (سلاطین) امراؤں مواقعوں (مواقع) (امراء) اقرباؤں (قرباء) اصحابوں (اصحاب) مشایخوں (مشایخ) مباحثوں (مباحث) اشرافوں (اشراف) اراضیات (اراضی) الفاظوں (الفاظ) جذباتوں (جذبات ) توہماتوں (توہمات) تعمیراتوں (تعمیرات) لکھنے کا رواج پایا جاتا ہے ۔ یہاں قوسین (بریکٹ) میں دیئے گئے الفاظ درست املا کے ضمن میں آتے ہیں ۔

اس سے قبل بھی راقم الحروف نے ایک لفظ ’’اسراف‘‘ کے استعمال کی جانب دو مرتبہ توجہ مبذول کرائی ہے لیکن اس کے باوجود ایک بار پھر اس لفظ کے معنی کی جانب اشارہ کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے ۔ دراصل ’’اسراف‘‘ فضول خرچی کو کہا جاتا ہے جو بے مقصد، بیجا طور پر پانی کی طرح رقم بہا دینے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس لئے اسراف لکھنا ہی کافی ہوتا ہے ، اس لفظ سے قبل ’’بیجا‘‘ لفظ کا اضافہ کر کے ’’بیجا اسراف‘‘ لکھنا غلط ہے۔ رسیدن مصدر پہنچنا ہوتا ہے ۔اس سے ’’رسائی‘‘ بنا ہے جو پہنچ اور گزر کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن ’’رسائی‘‘ کے ’’ساتھ حاصل کرنا‘‘ کا اضافہ کیا جاتا ہے ۔ بعض لکھنے والے اصحاب ’’قدم رنجہ فرمانا‘‘ کو قدم رنجاں فرمانا لکھتے ہیں۔ یہاں رنجاں مفہوم رنج سے ماخوذ تصور کیا جائے گا ۔ قدم رنجہ فرمانا بمعنی تشریف لانا، تشریف رکھنا استعمال ہوتا ہے۔ قصیدہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ تعریف میں قصیدہ پڑھنا لکھا جاتا ہے ۔ قصیدہ کسی کی تعریف یا ہجو کا معنی پیدا کرتا ہے لیکن ایک اہل قلم نے اپنے ایک ادبی مضمون میں لکھا کہ’’ شاعر کے اسٹیج پرآنے سے قبل ناظم مشاعرہ نے ان کی تعریف میں قصیدہ پڑھنا شروع کردیا‘‘ ۔ قصیدہ لکھنے کے بعد ’’تعریف میں ‘‘ لکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ قصیدہ پڑھنا لکھنا کافی ہے۔ ایک صاحب نے کسی بزرگ اور عمر رسیدہ شخص کی پریشانی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ ’’بوڑھا شخص بمشکل سے دفتر کی سیڑھیاں چڑھنے میں کامیاب ہوسکا‘‘۔ لفظ مشکل سے قبل’’بہ ‘‘ کا اضافہ ’سے‘ کا معنی پیدا کرتا ہے تو ’’بمشکل‘‘لکھنے کے بعد لفظ ’’سے‘‘ لکھنے کی کوئی گنجائش نہیں باقی رہتی ہے۔ ’’ لب کشائی ‘‘ کے معنی کچھ بولنا، لب کھولنا ہوتاہے لیکن لکھنے والے ’’لب کشائی‘‘ لکھ کر ’’کرنے‘‘ بھی لکھتے ہیں۔ مثلاً لکھاجاتا ہے کہ ’’فلاں شخص اس قدر بااثر، بارعب اور طاقتور ہے کہ اس کے سامنے کسی کو جلدی لب کشائی کرنے کی ہمت نہیں ہوتی ہے ۔ یہاں صرف لب کشائی لکھنا کافی ہے’’کرنے کی ‘‘ لکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ کئی اہل قلم کی تحریروں میں یہ جملہ پڑھنے کو ملتا ہے کہ ’’حد سے زیادہ مبالغہ کر کے کسی بات کو پیش کرنا کسی بھی اعتبار سے ٹھیک نہیں ہوتاہے‘‘۔ مبالغہ کہتے ہیں کسی بات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنا، حد سے بڑھانا۔ یہاں مبالغہ سے ہی مافی الضمیر ادا ہوجاتا ہے ۔ اس کے باوجود ’’حد سے زیادہ‘‘ کا اضافہ اسرافِ لفظی کے ہی خانے میں آئے گا ۔ کچھ اسی طرح کے الفاظ یہاں نقل کئے جارہے ہیں جن کا استعمال درست طورپر نہیں ہوتا ہے ۔ مثلاً باقاعدہ طورپر، باضابطہ طریقے سے ، بادل ناخواستہ طور پر یا بادل نخواستہ طور پر ۔ یہاں ان لفظوں کو صرف باضابطہ ، باقاعدہ ، بادل ناخواستہ لکھنے کی وکالت کی جارہی ہے ۔ مثلاً ’’میں بادل ناخواستہ مغرور آفیسر کے پاس حاضر ہوا‘‘۔ عمران باضابطہ تیار ہوکر آفس پہنچا۔ کریم نے باقاعدہ کام کرنا شروع کردیا ہے۔ بتانا مقصود یہ ہے کہ باضابطہ باقاعدہ اور بادل ناخواستہ لکھ دینے کے بعد ’’طور پر ‘‘ ’’طریقے سے‘‘ الفاظ کا اضافہ لسانی اعتبار سے اور زبان و بیان کے نقطۂ نظر سے بھی درست نہیں ہے ۔ ایک ترکیب’’مطمح نظر ‘‘ ہے جس کا مفہوم نگاہ کا مرکز اور اصل مقصد نکلتا ہے لیکن بعض قلمکار اسے ’’مطمحِ نظر‘‘ ح کی بجائے ’’ع ‘‘ سے لکھتے ہیں۔

یہ بھی ناقابل قبول ہے ۔ کچھ لوگ کہتے یا لکھتے ہیں کہ انشاء اللہ اگر اللہ نے چاہا تو آپ کا کام ہوجائے گا۔ اسی طرح ’’سردست ابھی میں کافی مصروف ہوں‘‘ لیکن انہیں اندازہ نہیں ہوتا کہ انشاء اللہ کا مطلب ہی اگر اللہ نے چاہا ہوتا ہے ۔ سردست کا مفہوم ’’ابھی‘‘ فی الوقت اور فی الحال ہوتا ہے ۔ اس لئے سردست لکھ کر ابھی لکھنا غیر ضروری ہوتا ہے ۔ کچھ لکھنے والے اکثر گھاس کو ’’گھانس‘‘ ن کے ساتھ لکھتے ہیں جبکہ ’’گھاس‘‘ لکھنا چاہئے۔ ایک لفظ’’سوچنا‘‘ ہے جسے ’’سونچنا‘‘ ن کے اضافے کے ساتھ لکھا جاتا ہے جو قدیم املا ہے۔ ’’سوچنا‘‘ بغیر ’’ن‘‘ کے لکھنا چاہئے۔ اسی طرح یہ بھی لکھا جاتا ہے کہ جلسے میں بہت ہی سخت ترین حفاظتی انتظامات تھے ۔ سخت ترین لکھنے سے قبل ’’بہت ہی‘‘ کا اضافہ اسراف لفظی ہے۔ ٹھیک اسی طرح یہ بھی لکھا جاتا ہے کہ آفاتِ سماوی آنے کے بعد ملک کی فوج راحت کاری کے کاموں میں لگ جاتی ہے ۔ یہاں صرف ’’راحت کاری‘‘ لکھ دینے سے بات بن جاتی ہے ۔ ’’کاموں میں‘‘ کا اضافہ غیر مستند ہے ۔ ایک شاعر نے اپنے شعری مجموعے کے ابتدائی صفحہ پر یہ لکھا کہ اس کتاب کا انتساب اردو کے کلاسیکی شعراء کے نام معنون کیا گیا ۔ یہاں معنون یا انتساب میں سے صرف ایک لفظ کا استعمال کافی ہے۔ ایک مضمون نگار نے لکھا کہ ’’آصف سابع کے عہد میں میر معظم حسین اہم اور کلیدی عہدوں پر فائز تھے‘‘۔ یہاں یا تو اہم لکھنا چاہئے تھا یا کلیدی لفظ کا استعمال کرنا چاہئے تھا ۔ دونوں کے مفاہیم تقریباً ایک ہی ہوتے ہیں۔ ایسے بہت سے الفاظ کا استعمال رواج پاچکا ہے جن کا طریقۂ استعمال درست نہیں ہے۔ ایسے اور بھی بہت سے الفاظ ہیں جنہیں درست طور پر نہیں لکھا جاتا۔ انشاء اللہ آئندہ اس کی وضاحت کی جائے گی۔
mdsabirali70@gmail.com