اسرائیل کا بیت المقدس میں 25 ہزار مکانات کی تعمیر کا اعلان

تل ابیب ۔ 29 اپریل (سیاست ڈاٹ کام) اسرائیلی حکومت نے مقبوضہ بیت المقدس میں یہودی آباد کاروں کیلئیبڑے پیمانے پر مکانات کی تعمیر کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت مشرقی بیت المقدس میں 15 ہزار نئے مکانات جب کہ مقبوضہ بیت المقدس میں مجموعی طور پر 25 ہزار مکانات کی تعمیر کی منظوری دی گئی ہے۔ اسرائیلی وزیر برائے ہاؤسنگ یوآف گیلنٹ نے سرکاری ریڈیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بیت المقدس میں اسرائیلی بلدیہ اور وزارت ہاؤسنگ گذشتہ دو سال سے بیت المقدس میں 25000 مکانات کی تعمیر پر غور کررہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان میں سے 15000 مکانات مشرقی بیت المقدس میں تعمیر کیے جائیں گے اور باقی شہر کے دوسرے مقامات پر بنانے کی تجویز شامل ہے۔خیال رہے کہ اسرائیل نے مشرقی بیت المقدس پر سنہ 1967ء کی چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ کے دوران قبضہ کیا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک صہیونی ریاست نے بیت المقدس میں بڑی تعداد میں یہودی آباد کاروں کو بسانے اور شہر کو یہودیانے کے منصوبے جاری کیے ہیں۔تازہ اور غیرمعمولی تعمیراتی منصوبے کا اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے کہ اگلے چند ہفتوں کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مشرق وسطیٰ کا دورہ کرنیوالے ہیں۔ اپنے اس دورے کیدوران وہ اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کی قیادت سے بھی ملاقات کریں گے۔اسرائیلی حکومت کی طرف سے بیت المقدس میں 25000 مکانات کی تعمیر کا اعلان صہیونی ریاست کی ہٹ دھرمی کا واضح ثبوت تو ہے ہی مگر اس کے ساتھ ساتھ امریکی حکومت کے لیے بھی یہ ایک امتحان ہے۔ اگرچہ امریکی انتظامیہ فلسطین میں غیر قانونی یہودی آباد کاری کے خلاف نہیں۔بیت المقدس کو فلسطینی ریاست اور اسرائیل دونوں اپنا اپنا دارالحکومت بنانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ غیر منقسم بیت المقدس صہیونی ریاست کا ابدی دارالحکومت ہے۔ تاہم عالمی برادری اسرائیل کے اس دعوے کی حمایت نہیں کرتی۔ سنہ 2014ء میں فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان امن بات چیت بھی یہودی آبا دکاری ہی کی وجہ سے تعطل کا شکار ہوئی تھی۔فلسطینی اتھارٹی کے مذاکرات کار صائب عریقات نے اسرائیلی توسیع پسندی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہودی آباد کاری بین الاقوامین قوانین کی کھلی خلاف ورزی اور امن بات چیت کو تباہ کرنے کا سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔