اسد اویسی کی موقع پرستی کے سبب تلنگانہ میں بی جے پی کا داخلہ : محمد علی شبیر

حیدرآباد ۔ 28۔ مئی (سیاست نیوز) کانگریس کے سینئر قائد اور سابق فلور لیڈر محمد علی شبیر نے الزام عائد کیا کہ مسلمانوں کی نمائندگی کے دعویدار اسد اویسی کی موقع پرست سیاسی فیصلوں کے نتیجہ میں تلنگانہ میں بی جے پی کا داخلہ ممکن ہوا ہے۔ تلنگانہ میں چار نشستوں پر بی جے پی کی کامیابی کیلئے مجلسی قیادت ذمہ دار ہیں جس نے ٹی آر ایس کی اندھی تائید کرتے ہوئے کانگریس کو نقصان پہنچانے کے مقصد سے سیکولر ووٹوں کو تقسیم کردیا۔ میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے محمد علی شبیر نے کہا کہ کے سی آر اور ان کی حلیف جماعت مجلس 17 نشستوں پر کامیابی کا دعویٰ کر رہے تھے لیکن عوام نے اس دعویٰ کو مسترد کردیا اور ٹی آر ایس سنگل ڈجٹ پارٹی بن گئی ۔ اسد اویسی نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ 17 ارکان پارلیمنٹ کے ساتھ کے سی آر ملک کے وزیراعظم ہوں گے اور مسئلہ کشمیر کی یکسوئی ہوجائے گی ۔ بعض لوگوں نے اس پروپگنڈہ پر یقین بھی کرلیا جس کے نتیجہ میں سیکولر ووٹوں کی تقسیم میں آئی ۔ انہوں نے کہا کہ راجندر نگر اور ظہیر آباد میں اقلیتی ووٹ منقسم ہوگئے جس کے نتیجہ میں کانگریس امیدواروں کو معمولی ووٹوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ محمد علی شبیر نے کہا کہ مجلس کے صدر نے جن اضلاع میں انتخابی مہم چلائی ، وہاں بی جے پی کو فائدہ ہوا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ تلنگانہ میں بی جے پی کا کوئی مستقبل نہیں ہے اور صرف کانگریس پارٹی ٹی آر ایس کا متبادل ہے۔ انہوں نے کہا کہ صرف چار مہینے میں عوام میں کافی تبدیلی آچکی ۔ لوک سبھا نتائج کو عوام کی جانب سے کے سی آر کے منہ پر طمانچہ قرار دیتے ہوئے محمد علی شبیر نے کہا کہ تلنگانہ میں مستقبل کانگریس پارٹی کا ہے ۔ کاما ریڈی میں مجھے 4000 ووٹ سے شکست ہوئی تھی لیکن لوک سبھا چناؤ میں کاماب ریڈی میں کانگریس کو 17000 ووٹوں کی اکثریت حاصل ہوئی ۔ انہوں نے کہا کہ ایسے علاقے جہاں ٹی آر ایس کا جنم ہوا اور مضبوط قلعے تصور کئے جاتے ہیں ، وہاں اسے حزیمت اٹھانی پڑی ۔ سرسلہ میں کے ٹی آر کو 90,000 کی اکثریت حاصل ہوئی تھی جو لوک سبھا چناؤ میں گھٹ کر صرف پانچ ہزار ہوچکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کے سی آر کا غرور اور تکبر انہیں لے ڈوبا۔ تلنگانہ کے عوام بادشاہت کو نہیں بلکہ جمہوریت کو ترجیح دیتے ہیں۔ کے سی آر اور ان کا خاندان ایک شاہی خاندان کی طرح حکومت کر رہا تھا ۔