استخارہ کا وقت

سوال : اکثر لوگ کسی اہم کام کے آغاز سے قبل مثلاً شادی بیاہ طئے کرتے وقت استخارہ کرتے ہیں۔ کیا آدھی رات کے بعد دو رکعت نماز پڑھ کر دعاء استخارہ کر کے سونا چاہئے یا اس نماز کا صحیح وقت کیا ہے ؟ نیز خواب میں کس قسم کا اشارہ ہوتا ہے ۔ اگر شادی طئے کرنا ہو تو کس طرح اشارہ ہوتا ہے اور رشتہ طئے نہ کرنا ہو تو کس طرح سے اشارہ ہوتا ہے۔ برائے مہربانی اس سلسلہ میں وضاحت فرمائیں تو مہربانی ہوگی۔
مشفق الرحمن ۔ مراد نگر
جواب : جب کوئی اہم معاملہ درپیش ہو اور اس کے کرنے یا نہ کرنے میں تردد و شک ہو تو وضو کر کے دو رکعت نماز پڑھنا مستحب ہے ۔ بخاری شریف میں حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو تمام معاملات میں استخارہ کرنا سکھاتے تھے جس طرح آپ ہم کو قرآن کی سورتیں سکھایا کرتے تھے ۔

ترمذی شریف کی روایت ہے : من سعادۃ ابن آدم استخارتہ اللہ ومن سعادۃ ابن آدم رضاہ بما قضاہ اللہ ومن شقوہ ابن آدم ترکہ استخارۃ اللہ ومن شقوۃ ابن آدم سخطہ بما قضاہ اللہ ۔
ترجمہ : استخارہ کرنا انسان کی سعادتمندی ہے اور اللہ کے فیصلہ پر راضی ہونا بھی انسان کی سعادتمندی میں ہے اور استخارہ ترک کرنا انسان کی بدبختی ہے اور اس کے فیصلہ سے ناراض ہونا بھی بدبختی ہے ۔ یہ بھی منقول ہے : لاخاب من استخار ولا ندم من استشار: جس نے استخارہ کیا وہ نامراد نہیں ہوا اور جس نے مشورہ کیا وہ شرمندہ نہ ہوا۔

استخارہ کیلئے کوئی وقت مقرر نہیں ہے ۔ البتہ سونے سے قبل استخارہ کی نماز پڑھنا بہتر ہے ۔ استخارہ کی برکت سے انشراح صدر ہوتا ہے۔ دل کسی ایک طرف مائل ہوجاتا ہے اور کسی معاملہ میں قلبی میلان نہ ہے تو سات دن تک استخارہ کرنا بہتر ہے۔ بعض بزرگوں سے منقول ہے کہ خواب میں سفید یا سبز رنگ نظر آئے تو کرنے کی علامت ہوتی ہے اور سرخ و سیاہ رنگ نظر آئے تو نہ کرنے کی علامت ہوتی ہے ۔ تاہم خواب میں رنگ نظر آنا کوئی ضروری نہیں ہے۔ البتہ ہر ایک کو علحدہ علحدہ انداز میں اشارہ ملتے ہیں۔ اس لئے کسی بزرگ شخص کو جو آپ کے احوال و کیفیات سے واقف ہو اس سے ذکر کرنامناسب ہے ۔ تاکہ وہ اشارات کو صحیح سمجھ کر آپ کی رہنمائی کرے۔

سادات کو زکوٰۃ کیوں نہیں دی جاتی؟
سوال : مفتی صاحب میں نے اکثر کتابوں میں پڑھا ہے اور سنا بھی ہے کہ سادات لوگوں کو زکوٰۃ نہیں دینا چاہئے، ایسا کیوں ہے ؟
عبدالباری ، ملک پیٹ
جواب : زکوٰۃ لوگوں کے مال کا میل ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آل کو اس سے ملوث کرنا مناسب نہ تھا وہ اگر ضرورتمند ہوں تو پاک مال سے ان کی مدد کی جائے نیز اگر آپ کی آل کو زکوٰۃ دینے کا حکم ہوتا تو ایک ناواقف کو وسوسہ ہوسکتا تھا کہ یہ خوبصورت نظام اپنی اولاد ہی کیلئے تو (معاذ اللہ) جاری نہیں فرما گئے؟ نیز اس کا ایک نفسیاتی پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ اگر آپ کی آل کو زکوٰۃ دینا جائز ہوتا تو لوگ آپکے رشتہ قرابت کی بناء پر انہی کو ترجیح دیتے ، غیر سید کو زکوٰۃ دینے پران کا دل مطمئن نہ ہوتا۔ اس سے دوسرے فقراء کو شکایت پیدا ہوتی۔

نماز تراویح میں نابالغ کا لقمہ دینا
سوال : ہمارے گاؤں میں نماز تراویح کے دوران امام صاحب کچھ بھول رہے تھے، اتفاق سے شہر کے ہاسٹل میں درجہ حفظ کا نابالغ طالب علم امام صاحب کو غلطی بتلائے بعد نماز مصلیوں میں یہ بات ہونے لگی کہ چھوٹے بچہ کی نماز ہی نہیں ہوتی تو لقمہ کیا اس کا لینا درست ہے ؟ مہربانی فرماکر جلد جواب عنایت فرمائیں۔
عبدالنبی، ظہیر آباد
جواب : قریب البلوغ لڑکا جسے قرآن مجید مکمل یا بعض پارے از بر ہو اور صحیح لقمہ دے رہا ہوتو ایسے نابالغ حافظ کے لقمہ سے نماز فاسد نہیں ہوگی جیسا کہ حاشیہ طحطاوی میں ہے۔ فتح المراھق کا لبالغ (حاشیہ طحطاوی صفحہ 183 ) چونکہ باشعور نابالغ لڑکے کا عمل شریعت اسلامیہ میں معتبر مانا گیا ہے ۔ پس مذکورالصدر صورت میں نماز درست ہے اور کمسن حافظ کا یہ عمل بھی درست ہے ۔

قضاء نمازوں کیلئے بعد جمعہ نفل نماز پڑھنا
سوال : میں پڑھی تھی کہ چھوٹی ہوئی نمازیں ادا کرنے کیلئے جمعہ کے دن بعد نماز جمعہ چار رکعت نفل نماز اس طرح پڑھیں کہ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد آیت الکرسی اور سورہ کوثر کچھ تعداد میں پڑھ لیں تو مجھے یہ جاننا ہے کہ آیت الکرسی کتنی مرتبہ پڑھیں اور سورہ کوثر کتنی مرتبہ پڑھیں۔ براہ کرم یہ جانکاری دیں تو عین نوازش ہوگی۔
ایک بہن
جواب : فوت شدہ نمازوں میں سے ہر نماز کی قضاء علحدہ طور پر کرنا لازم ہے۔ سوال میں ذکر کردہ نفل نماز شرعاً ثابت نہیں۔

میت کے گھر میں حاضری کا کھانا
سوال : مسلم معاشرہ میں کسی کے مکان میں انتقال ہوجائے تو اس گھر میں تین دن تک چولہا نہیں جلتا، انتقال کے دن پڑوس والے کھانا پکاکر لاتے ہیں۔ خصوصاً املی کا کھٹا، بگارے بغیر املی دال لاتے ہیں جس کو حاضری کا کھانا کہتے ہیں۔ وہی کھانا گھر والوں اور شرکاء کو کھلاتے ہیں۔ اسلامی قانون کی رو سے کیا یہ طریقہ صحیح ہے ؟ کیا ان تین دنوں میں کھٹے کے علاوہ گوشت پکایا جاسکتا ہے یا نہیں ؟ کیا تدفین سے قبل گھر آنے والے افراد کو میت کے گھر پر گوشت یا میٹھی لذیذ چیز کھلائی جاسکتی ہے یا نہیں ؟
محمد سرور خان ، ونپرتی

جواب : ہر ملک اور ہر قوم میں خوشی و غم کے موقعوں پر اظہار حوشی و اظہار غم کے علحدہ علحدہ رواج ہوتے ہیں ۔ ہندوستان بالخصوص دکن میں کسی کے انتقال پر اظہار غم کے طریقے ، عرب کے رواج سے علحدہ ہیں اور اسلام میں سوگ بیوہ کے علاوہ دیگر افراد کے لئے تین دن سے زیادہ نہیں ہے۔ انتقال کے بعد تین دنوں میں بالعموم غم زیادہ ہوتاہے ۔ رشتہ دار عزیز و اقارب دوست و احباب انتقال کی اطلاع کے ساتھ پرسہ دینے کیلئے آتے رہتے ہیں۔ سوگ میں زینت کو ترک کرنے کا حکم ہے ۔ سوگ میں کسی بھی حلال غذاء سے منع نہیں کیا گیا ۔ تاہم غم کے موقع پر لذیذ غذائیں قرین قیاس نہیں ہے اور نہ ہی سوال میں ذکر کردہ مخصوص حاضری کے کھانے کا شریعت میں کوئی حکم ہے۔ یہ صرف دکنی رواج ہے اس کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں۔

رمضان کے بعد داڑھی کاٹنا
سوال : میرے دوست رمضان کی پہلی سے داڑھی چھوڑ دے رہے ہیں، شوال کی 8 تاریخ کو کٹوا دیتے ہیں ۔ کیا ایسا کرنا ٹھیک ہے۔ اسلامی نظریہ سے آگاہ فرمائیں تو مہربانی ہوگی ۔ ان کا یہ عمل کئی سال سے چلا آرہا ہے ۔ ان سے ملنا بند کردیا ہوں، جی چاہتا ہے سلام بھی بند کردوں۔
محمد برہان۔ ہبلی

جواب : ایک مٹھی داڑھی رکھنا سنت ہے ۔ ایک مٹھی سے زیادہ ہونے کی صورتمیں کترنا شرعاً جائزہ ہے ۔ یکمشت سے کم ہونے کی صورت میں کترنا درست نہیں اور بالکل مونڈھنا حرام ہے۔ در مختار برحاشیہ ردالمحتار جلد 5 میں ہے : ولا بأس بنتف الشیب وأخذ اطراف اللحیۃ والسنۃ فیھا القبضۃ۔ اور ردالمحتار میں ہے : وھو ان یقبض الرجل تحیۃ فما زاد منھا علی قبضۃ قطعہ کذا ذکر محمد فی کتاب الاثار عن المام و قال و بہ ناخذ۔ اسی میں ہے : یحرم علی الرجل قطع لحیتہ ۔ آپ ان کے سامنے خوش اسلوبی سے داڑھی کی اہمیت کو اجاگر کریں۔

گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ
سوال : ایک شخص پر نماز و زکوٰۃ واجب ہے لیکن وہ نمازو زکوٰۃ ادا نہیں کرتا کچھ عرصہ کے بعد وہ خدا کے حضور توبہ استغفار کرتا ہے اور آئندہ زکوٰۃ ادا کرنے کا اپنے خدا سے وعدہ کرتا ہے، پچھلی زکوٰۃ کے بارے میں اس پر کیا حکم ہے کیا وہ پچھلی زکوٰۃ بھی ادا کرے۔ مثلاً دس سال تک زکوٰۃ ادا نہیں کی جبکہ اس کے پاس ذاتی مکان بھی نہیں ہے اور تنخواہ بھی صرف گزارے کی ہو ایسے شخص کیلئے زکوٰۃ کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
محمد وسیم ۔ ناندیڑ

جواب : نماز ، زکوٰۃ، روزہ سب کا ایک ہی حکم ہے۔ اگر کوئی شخص غفلت اور کوتاہی کی وجہ سے ان فرائض کو چھوڑتا رہا تو صرف توبہ استغفار سے یہ فرائض معاف نہیں ہوں گے بلکہ حساب کر کے جتنے سالوں کی نمازیں اس کے ذمہ ہیں کو تھوڑی تھوڑی کر کے اداکرناشروع کردے۔ مثلاً نماز کے ساتھ ایک نماز قضاء کرلیا کرے بلکہ نفلوں کی جگہ بھی قضا نمازیں پڑھا کریں۔ یہاں تک کہ گزشتہ سالوںکی ساری نمازیں پوری ہوجائیں ، اسی طرح زکوٰۃ کا حساب کر کے وقتاً فوقتاً ادا کرتارہے۔ یہاں تک کہ گزشتہ سالوںکی زکوٰۃ پوری ہوجائے۔ اسی طرح روز ے کا حکم سمجھ لیاجائے ۔ الغرض ان قضا شدہ فرائض کا ادا کرنا بھی ایسا ہی ضروری ہے جیسا کہ ادا فرائض کا۔

سحر اور افطار کے اوقات کار میں احتیاط
سوال : حالیہ دنوں بعض مساجد میں افطار کے مقررہ وقت سے قبل اذان دی جارہی ہے اور ایسے ہی وقت سحر کے متعلق بھی یہ کہا جارہا ہے کہ اذان تک کھایا جاسکتا ہے جس کی وجہ سے روزہ داروں میں بڑی بے چینی پائی جاتی ہے ۔ برائے کرم اس کا تفصیلی حل بتلائیں اور کیا سائرن اور اذان فجر کے درمیان کا وقفہ احادیث کریمہ سے ثابت ہے؟
محمد مجیب الدین فاروقی ۔ نیو ملے پلی

جواب : روزہ کا وقت صبح صادق سے غروب آفتاب تک ہے ۔ حیدرآباد و دکن کا مروجہ نظام الاوقات احتیاط پر مبنی ہے جس میں انتہا وقت سحر اور افطار کے جو اوقات درج ہیں وہ سحر میں صبح صادق سے دس منٹ قبل اور افطارمیں غروب کے پانچ منٹ بعد کا وقت احتیاطاً درج کیا گیا ۔ چونکہ فی زمانہ مشینی گھڑیوں کے ذریعہ وقت کا تعین ہوتا ہے اور گھڑیوں کا تفاوت عام ہے۔ اگر اس احتیاط کو ملحوظ نہیں رکھا جائے تو روزہ میں شک اور بسا اوقات تھوڑی بے احتیاطی سے روزے فاسد ہونے کا خوف ہے اور یہ احتیاط ان احادیث شریفہ کے منافی نہیں جن میں سحر کی تاخیر اور افطار کی تعجیل کا حکم ہے کیونکہ تاخیر سحر سے مراد رات کا آخری حصہ ہے نہ کہ سحر کا مشکوک وقت اسی طرح تعجیل افطار سے بھی یہی مراد ہے کہ وقت کے داخل ہونے کے یقین کے بعد دیر نہ کی جائے ۔ پس صورت مسئول عنھا میں اذان فجر تک اگر کوئی سحری کھاتا ہے تو اس کا روزہ نہیں ہوگا کیونکہ کیلنڈر میں جو ابتدائی وقت درج ہے وہ صبح سے صادق سے 12 منٹ بعد کا وقت ہے۔چنانچہ اذان فجر صبح صادق کے بعد دی جاتی ہے۔ اور جہاں تک سائرن اور اذان کے درمیان کا وقفہ ہے وہ صحیح احادیث کریمہ سے ثابت ہے جس میں اللہ کے نبیؐ کا معمول بیان کیا گیا کہ سحر سے اذان فجر تک 50 پچاس آیتوں کی تلاوت کا وقفہ ہوا کرتا تھا تو یہ اسی وقت ممکن ہے جب سحر کو اس کے مقررہ وقت سے احتیاطاً کچھ پہلے ہی ختم کرلیا جائے ۔ پس جو حضرات اس غلط فہمی کا شکار ہے اور اس کو پھیلا رہے ہیں چونکہ یہ عوام کی بے چینی کا باعث ہے اور روزوں کے فاسد ہونے کا اس میں خوف ہے تو یہ عمل قابل اصلاح ہے۔