استخارہ کا نام لیکر رشتہ رد کرنا

سوال : آج کل لوگ شادی بیاہ، زمین کی خریدی اور بیچنا ہے اور چھوٹی سی باتوں کیلئے استخارہ کا سہارا لے رہے ہیں۔میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ استخارہ کب اور کس معاملہ میں دیکھا جاتا ہے۔ہمارے معاشرہ میں لوگ لڑکی دیکھنے جاتے ہیں اور لڑکی کو پسند بھی کرلیتے ہیں لیکن کچھ دنوں بعد ان کا جواب یہ آتا ہے کہ ہم استخارہ دیکھے اس میں کچھ بھی نہیں بتا رہا ہے اور ہم یہ رشتہ منظور نہیں۔مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ استخارہ کب اور کس معاملے میں دیکھا جاتا ہے؟
سیدہ سبحانی ، صیفی کالونی ، فلک نما
جواب : استخارہ کے لفظی معنی ’’خیر طلب کرنا‘‘ ہے ، شریعت میں جب کبھی کوئی اہم معاملہ درپیش ہو اور اس کے کرنے یا نہ کرنے میں پس و پیش ہو تو ایسے وقت خیر طلب کرنے کیلئے دو رکعت نفل نماز پڑھ کر دعا کرنا مستحب ہے۔ شادی کیلئے، ملازمت کیلئے ، گھر یا کاروبار کسی بھی اہم کام کیلئے اللہ تعالیٰ سے رہنمائی طلب کرنا شرعاً پسندیدہ ہے ۔ احادیث شریفہ میں اس کی ترغیب آئی ہے ۔ بخاری شریف میں حضرت سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو تمام امور میں استخارہ کی ایسے ہی تعلیم دیتے ہیں جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو قرآنی سورتوں کی تعلیم دیا کرتے۔ آپ فرماتے ہیںکہ جب تم میں سے کسی کو کوئی معاملہ درپیش ہوتو فرض نماز کے علاوہ دو رکعت (نفل) نماز پڑھے پھر (اللہ تعالیٰ کی خیر اور درود شریف کے بعد) دعا پڑھے۔
اللھم انی استخیرک بعلمک و استقدرک بقدرتک و اسئلک من فضلک العظیم فانک تقدر ولا اقدر و تعلم و لا اعلم و انت علام الغیوب اللھم ان کنت تعلم ان ھذا الامر خیرلی فی دینی ومعاشی و عاقبۃ امری او قال عاجل امری و اجلہ فاقدرہ لی و یسرہ لی ثم بارک لی فیہ ان کنت تعلم ان ھذا الامرا شر لی فی دینی ومعاشی و عاقبۃ امری (او قال عاجل امری و آجلہ) فاصرفہ عنی واصرفنی عنہ واقدرہ لی الخیر حیث کان ثم ارضنی بہ۔
ترجمہ : اے اللہ میں تجھ سے تیرے علم کے ذریعہ خیر طلب کرتا ہوں۔ میں تجھ سے تیری قدرت کے ذریعہ قدرت طلب کرتا ہوں اور میں تجھ سے تیرے فضل عظیم کو مانتا ہوں کیونکہ تو قادر ہے اور مجھے کوئی قدرت نہیں۔ تو جانتا ہے اور مجھے کچھ علم نہیں اور تو غیب کا جاننے والا ہے ۔ اے اللہ اگر یہ معاملہ ( شادی ، ملازمت، گھر جو کچھ ہو) تیرے علم میں میرے دین معاش اور انجام کار میں بہتر ہے تو اس کو میرے لئے مقدر فرما اور آسانی پیدا فرما اور اس میں میرے لئے برکت عطا فرما اور تیرے علم میں اگر یہ معاملہ میرے دین ، معاش اور انجام کار میں برا ہو تو اس کو مجھ سے اور مجھ کو اس سے پھیردے اور میرے لئے خیر کو مقدر فرما، جہاں کہیں ہوں۔ پھر مجھے اس سے راضی فرمادے۔ بہتر ہے کہ سات روز تک نماز استخارہ کی تکرار کر کے کام شروع کیا جائے۔ اگر اس کام کے کرنے پر دل مائل ہو تو کریں ورنہ نہ کریں۔ لڑکی کو پسند کرلینے کے بعد استخارہ میں کچھ نہیں بتا رہا ہے کہہ کر رد کرنا مناسب نہیں کیونکہ کبھی اشارے واضح نظر آتے ہیں اور کبھی اشارے تو ہوتے ہیں لیکن عام آدمی اس کو سمجھ نہیں سکتا اور بسا اوقات اشارے بالکل نظر نہیں آتے، اگر دل مطمئن ہو تو پیشقدمی کریں ورنہ حسن سلیقہ سے معذرت کرلیں۔

دو بیویوں کے درمیان باری تقسیم
سوال : میں نے دو شادیاں کیں اور دونوں بیویوں سے اولاد ہوئی، میں نے بلا لحاظ سب کو اچھا پڑھایا اور ان کی شادیاں کردیں، پہلی بیوی کے دو لڑکے اپنی ماں کے ساتھ رہتے ہیں، دوسری بیوی کا ایک لڑکا اپنی ماں کے ساتھ رہتا ہے ۔ میں نے بڑی مشکل سے دو بیویوں کے درمیان زندگی بسر کی ہے ۔ اب ساری ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوگیا ہوں۔ اب میں مہینے میں چار پانچ روز اپنے آبائی مکان میں اپنے بھائی بہنوں اوران کی اولاد کے ساتھ رہتا ہوں۔ میری بھی جائیداد مشترکہ ہے اور شہر میں دو مکانات ہیں جس میں دو بیویوں کو علحدہ رکھا ہوں۔
اب دونوں بیویوں کا تقاضہ ہے کہ آپ وہاں اکیلے نہیں رہ سکتے ۔ ہم کو یہاں چھوڑ کر ایک ایک ہفتہ رہنا غلط ہے۔ کیا شریعت میں میرا یہ عمل درست نہیں ہے ؟ کیا مجھے اپنے ہی گھر میں اپنے بھائی بہنوں کے ساتھ رہنے کا حق نہیں ؟ جبکہ میں ان دونوں سے کہتا ہوں کہ تم بھی آکر رہو تو وہ آنے تیار نہیں ہوتے۔
براہ کرم شریعت کی روشنی میں میری رہنمائی فرمائیں ؟
محمد مدثر، ملے پلی
جواب : شرعاً دو بیویوں کے درمیان باری باری سے رہنا لازم ہے۔ اگر ایک رات ایک بیوی کے پاس رہے تو دوسری شب دوسری بیوی کے پاس گزارنا لازم ہے۔ تاہم ہمیشہ ہر رات کسی ایک کے پاس رہنا ضروری نہیں۔ اگر وہ کچھ راتیں تنہائی یا کسی دوسرے کام میں یا کسی دوسرے مقام اپنے عزیز و اقارب کے پاس رہنا چاہتا ہے تو شرعاً منع نہیں ہے۔ رد المحتار جلد 3 کتاب النکاح باب القسم ص : 229 میں ہے : اللازم انہ اذا بات عند واحدۃ لیلۃ یبیت عندالا خری کذلک لا نہ یجب ان یبیت عند واحد منھمادائما فانہ لو ترک المبیت عندالکل بعض اللیالی وانفرد لم یمنع من ذلک اھ ۔ یعنی بعد تمام دورھن سواء انفرد بنفسہ او مع جواریہ فافھم۔
پس صورت مسئول عنہا میں اگر آپ مہینے میں چار پانچ دن اپنے آبائی مکان میں اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو شرعاً اس میں کوئی ممانعت نہیں۔

آیت سجدہ کی تلاوت کو ترک کرنا
سوال : میں ایک مسجد کا امام ہوں ۔ میں عموماً عصر کی نماز کے بعد قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہوں تو کبھی بعض نوجوان لڑکے میرے پاس آجاتے ہیں اور قرآن مجید کی تلاوت سنتے ہیں اور بسا اوقات سجدہ کی آیت آجاتی ہے ۔ کیا میں ایسے وقت آیت سجدہ چھوڑ کر آگے سے تلاوت کرسکتا ہوں کیونکہ وہ لڑکے عموماً باوضو نہیں رہتے اور اگر آیت سجدہ سن لیں تو وہ فی الفور تو ادا نہیں کرتے، بعد میں معلوم نہیں کہ وہ ادا کرتے ہیں یا نہیں۔ لہذا اس بارے میں شرعی طور پر روشنی ڈالیں تو مہربانی ہوگی ؟
حافظ واصف، ورنگل
جواب : دوران تلاوت آیت سجدہ کو ترک کرنا مکروہ ہے کیونکہ اس میں سجدہ سے بچنے کیلئے ایک حصہ کو ترک کرنالازم آرہا ہے اور یہ عمل اہل اسلام کے عمل سے نہیں اور نہ یہ مومن کے اخلاق ہیں۔ البتہ سننے والا فی الفور سجدہ کیلئے تیار نہ ہو اور بعد میں سجدہ نہ کرنے کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں آیت سجدہ کو آہستہ تلاوت کرلیں ، اس سے نہ سننے والے پر سجدہ تلاوت لازم آئے گا اور نہ پڑھنے والے کو قرآن کا کچھ حصہ چھوڑنا ہوگا ۔ در مختار برحاشیہ ردالمحتار جلد 2 کتاب الصلوٰۃ ص : 126 ۔ 127 میں ہے : (وکرہ ترک آیۃ سجدۃ وقراء ۃ باقی السورۃ لا) یکرہ (عکسہ و ندب ضم آیت او آیتین الیھا) قبلھا او بعد ھا … والتحسن اخفائھا عن سامع غیر متھیئی للسجود۔

جادو سے حفاظت
سوال : مجھ پر جادو کرادیا گیا ہے ۔ وقفہ وقفہ سے میری طبیعت جادو کے اثر سے خراب ہوجاتی ہے ۔ آپ سے گزارش ہے کہ اس سے محفوظ رہنے کیلئے قرآنی عمل بتلائیں تو بہتر ہوگا ۔
ایک خاتون
جواب : جادو ایک باطل علم ہے اور اس کا سیکھنا حرام ہے ۔ جادوگر اور اس کے پاس جانے والے شب قدر و شب برات میں بھی مغفرت سے محروم رہیں گے ۔ تاوقتیکہ وہ اپنے گناہ سے سچی توبہ نہ کرلیں۔ تاہم اگر کسی پر جادو کرایا جائے تو متاثرہ شخص کے سر پر ہاتھ رکھ کر آیۃ الکرسی (سورہ بقرہ 255 ) ، فوقع الحق و بطل ماکانوایعملون … ساجدین (سورہ اعراف 119/117 فلما جاء السحرۃ قال لھم موسیٰ القو اما انتم ملقون … ان اللہ سیبطلہ ان اللہ لا یصلح عمل المفسدین (سورہ یونس 82/79) والق مافی یمینک تلقف ماصنعوا… ولا یفلح الساحر حیث اتی (طہ 68 ) سورہ الکافرون سورۃ الاخلاص معوذتین (قل اعوذبرب الفلق ۔ قل اعوذ برب الناس) تین تین مرتبہ پڑھیں اور پانی پر دم کردیں اور وقفہ وقفہ سے مریض کو وہی پانی پلائیں اور بوقت غسل اس پانی کو شامل کر کے نہائیں ۔ پورے یقین کے ساتھ یہ عمل کیا جائے تو انشاء اللہ شفاء ہوگی۔ اگر مریض خود بھی یہ عمل کرے تو بہتر ہے۔

قبول اسلام کے بعد رشتہ نکاح
سوال : ہمارے محلہ میں ایک غیر مسلم جوڑا اسلام قبول کیا اور اب وہ شریعت کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن محلہ کے بعض حضرات کا کہنا ہے کہ ان کا اسلامی طریقہ سے دوبارہ نکاح کرانا چاہئے چونکہ پہلا نکاح اسلامی اصول و شرائط کے بغیر منعقد ہوا تھا۔ برائے مہربانی اس مسئلہ میں ہماری شرعی رہنمائی فرمائیں۔
نام …
جواب : فقہائے کرام نے کافر ، مشرک (جو اسلام قبول کرلے) کے سابقہ نکاح کے بارے میں چند بنیادی قاعدے بیان فرماتے ہیں: جو نکاح مسلمانوں کے درمیان درست ہے ، وہ کافروں کے درمیان بھی درست ہے چونکہ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے ابو لھب کی بیوی کو بیوی تسلیم کیا اور فرمایا ومرائۃً حمالۃ الحطب اور اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک حدیث شریف ولدت من نکاح لامن سفاح فرمایا۔ دوسرا قاعدہ یہ ہے کہ وہ نکاح جو مسلمانوں کے پاس شرط کے نہ پائے جانے کی بناء حرام ہے جیسے شرعی گواہ کا نہ ہونا یہ سارے نکاح کافروں کے پاس جائز ہے جب کہ وہ اس کے درست ہونے کا اعتقاد رکھتے ہوں ۔ امام اعظم ابو حنیفہ کا یہی مسلک ہے ۔ در مختار میں ہے ان کل نکاح صحیح بین المسلمین فھو صحیح بین اھل الکفر وان کل نکاح حرم بین المسلمین لفقد شرطہ کعدم شھود یجوز فی حقھم اذا اعتقدوہ عندالامام ویقرون علیہ بعد الاسلام (صفحہ 186 )
چنانچہ اگر کافر جوڑا مسلمان ہوجائے تو ان کو اسلام قبول کرنے کے بعد اسی نکاح پر باقی رکھا جائے گا جدید نکاح کی ضرورت نہیں۔ البتہ اگر ان دونوں کے درمیان ایسا رشتہ ہو جس میں نکاح شریعت اسلامیہ میں جائز نہیں تو ایسی صورت میں ان میں تفریق کرادی جائیگی۔ واللہ اعلم

کسی مسجد کی زائد آمدنی کا دوسری مسجد کیلئے استعمال
سوال : ہمارے علاقہ میں ایک مسجد واقع ہے، جس کے سارے امور انتظامی کمیٹی کے صدر صاحب کے ذریعہ طئے پاتے ہیں ۔ مسجد کی ضروریات کیلئے روزانہ عمومی طور پر اور جمعہ اور عیدین کے موقعوں پر خصوصی طور پر صفوں میں وصولی ہوتی ہے۔ انتظامی کمیٹی کے صدر صاحب کا خیال ہے کہ وصول شدہ رقم کی مسجد کو زیادہ ضرورت نہیں ہے، اس لئے ان کا ماننا ہے کہ وہی رقم کسی اور مسجد ، کسی مدرسہ یا کسی رفاہی ٹرسٹ کے حوالے کردی جائے جہاں مستحق لوگوں پر اس کو خرچ کیا جاسکے۔
میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا شریعت اسلامی میں کسی مسجد کی ضروریات کیلئے وصول کی گئی رقم صدر صاحب کی جانب سے مصلیان مسجد کی اطلاع کے بغیر کسی دوسری مسجد، مدرسہ یا رفاہی ٹرسٹ کے حوالے کی جاسکتی ہے ؟
نام مخفی
جواب : ایک مسجد کی فاضل آمدنی دوسری مسجد یا مدرسہ کیلئے صرف کرنا شرعاً ناجائز ہے۔ در مختار برحاشیہ ردالمحتار مصری جلد 2 صفحہ 384 اتحدالواقف والجھۃ و قل مرسوم بعض الموقوف علیہ بسبب خراب وقف احدھما جاز للحاکم ان یصرف من فاضل الواقف علیہ لأنھا حینئذکشئی واحد وان اختلف احدھما بان بنی رجلان مسجدین او رجل مسجد او مدرسۃ و وقف علیھما اوقا فا لایجوز لہ ذلک۔
پس صورت مسئول عنھا میں صدر انتظامی کمیٹی کا یہ عمل ازروئے شرع درست نہیں۔ ان کو اپنے اس عمل سے باز آجانا چاہئے۔