استحکام خلافت اور خدمت خلق کیلئے امیر المومنین حضرت فاروق اعظم ؓ کے کارنامے تابناک

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا کا تاریخ اسلام اجلاس۔ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفیکا خطاب
حیدرآباد ۔19اکٹوبر( پریس نوٹ)خلیفہ دوم امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب ؓ کے قبول اسلام نے کفر و شرک کے ایوانوں کو دہلا دیا۔ حضرت عمرؓ جب مسلمان ہوے تو اہل اسلام کو بے حد قوت ملی۔ حضرت عمرؓ کی غیر معمولی اہمیت اور اسلام کے لئے ان کی ضرورت کا اندازہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس دعا سے ہوتا ہے کہ’’ اے اللہ! ابن خطاب سے اسلام کو عزت عطا فرما‘‘۔ اس دعا کے بعد دوسرے دن حضرت عمرؓ بن خطاب نے اسلام قبول کیا۔ ان حقائق کے اظہار کے ساتھ ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ڈائریکٹر آئی ہرک نے آج صبح ۹ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی اور دو بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی، مالاکنٹہ روڈ،روبرو معظم جاہی مارکٹ میں اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۱۱۷‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے علی الترتیب پہلے سیشن میں احوال انبیاء علیھم السلام کے تحت حضرت الیسع علیہ السلام کے مقدس حالات اوردوسرے سیشن میں ایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے ضمن میںامیر المومنین حضرت عمر ابن خطابؓ کے احوال شریف پر مبنی توسیعی لکچر دئیے۔ قرا ء ت کلام پاک، حمد باری تعالیٰ،نعت شہنشاہ کونین ؐ سے دونوں سیشنس کا آغاز ہوا۔اہل علم حضرات اور باذوق سامعین کی کثیر تعداد موجود تھی۔ڈاکٹر حمید الدین شرفی نے سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوے بتایا کہ حضرت عمرؓ کا تعلق قریش کے مشہور خاندان بنوعدی سے تھا ان کے خاندان میں سفارت اور فصل مقدمات کے مناصب تھے۔ خطاب بن نفیل والد اور عنتمہ بنت ہشام والدہ تھیں حضرت عمرؓ واقعہ فیل کے دس سال بعد پیدا ہوے حضرت عمر ؓ کی کنیت ابو حفص تھی۔ ان کا خاندان مذہب ابراہیم ؑ سے آشنا تھا۔ حضرت عمرؓ نسب دانی، شہ سواری، خطابت، پہلوانی اور دیگر مروجہ فنون میں با کمال تھے۔ حضرت عمرؓ کے اسلام لانے کے بعد سے مسلمانوں کو ایک گونا قوت ملی۔ اذن ہجرت پر حضرت عمرؓ مدینہ منورہ روانہ ہوے۔ان کے ساتھ ۲۰ مہاجرین کی جماعت تھی مکہ مکرمہ کی مواخاۃ میں حضرت ابو بکرصدیق ؓ اور مدینہ میں عقد مواخاۃ میں حضرت عتبانؓ بن مالک حضرت عمرؓ کے دینی بھائی بنے ۔ ایک خاص موقع پر رسول اللہ ؐنے حضرت عمرؓ کو تیمم کا طریقہ بتایا۔ حضرت عمرؓ شجا عت و جراء ت میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے جنگ بدر میں حوصلہ و جسارت کا عظیم مظاہرہ کیا۔ احد و حنین کے ثابت قدم مجاہدین میں امتیازی حیثیت رکھتے تھے۔ خندق و حدیبیہ میں حمایت حق اور اطاعت رسولؐ کا ولولہ انگیز ثبوت دیا۔ خیبر میں نمایاں حصہ لیا۔ فتح مکہ کے موقع پر حضور اقدس ؐ کے جلو میں چل رہے تھے۔ غزوہ تبوک کے وقت اپنا نصف مال و متاع راہ خدا میں نذر کر دیا۔ڈاکٹر حمید الدین شرفی نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب بیرونی سفراء اور حکام و وفود سے ملاقات کرتے تو حضرت عمرؓ کو ساتھ رکھا کرتے۔ رسول اللہؐ کی علالت کے دنوں میں حضرت عمرؓ کا اضمحلال و اضطراب اور رحلت پاک کے وقت ازخودرفتگی اور والہانہ عشق رسولؐ کے مظاہر آج بھی اہل ایمان کو متاثر کرتے ہیں۔ حضرت عمرؓ کو رسول اللہؐ کے جانشین اور خلیفہ اول حضرت ابوبکرؓ کے دست حق پر سب سے پہلے بیعت کا امتیاز بھی حاصل ہے۔ جنگ یمامہ میں کثرت سے حفاظ کی شہادت کے باعث حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو تدوین قرآن حکیم کی طرف متوجہ کیا۔ حضرت ابو بکرؓ نے اپنے بعد حضرت عمرؓ کو بحیثیت خلیفہ نامزد کیا جو اسلامی تاریخ ہی نہیں عالمی سیاست کا عظیم مدبّرانہ فیصلہ تھا۔ حضرت عمرؓ نے ۱۳ھ سے ۲۴ھ تک دس سال چھ ماہ خلافت کا بار سنبھالا۔ سب سے پہلے امیر المومنین سے مخاطب کئے گئے۔ حضرت عمرؓ نے خلافت اسلامیہ کی عملداری کو بائیس لاکھ پچاس ہزار مربع میل تک وسعت دی عراق، شام، ایران، مصر اور روم کے علاقوں پر پرچم اسلامی لہرا دیا۔ شوکت دین، عزت مسلمین اور دبدبہ خلافت کے ساتھ آپ ؓ کا عظیم کارنامہ اس ’’پاکیزہ و خداترس تصور نظم و نسق و معاشرہ‘‘ کو متشکل کرنا ہے جو منشاء قرآن اور ارادہ صاحب قرانؐ تھا۔ حضرت عمرؓ نے قرآن کے شورائی اصولوں پر نظام مصطفوی ؐکو مستحکم کرکے ایک ایسے طرز کو جاری فرمایا جس میں عوام کا پورا پورا عمل دخل بہر پہلو نمایاں نظر آنے لگا اورترقی و بہبودی، سلامتی و صیانت کی یقینی طمانیت تھی۔ حضرت عمرؓ کا منضبطہ طرز منفرد اور ممتاز تھا۔آپؓ نے دو مستقل مجالس شوریٰ کا التزام رکھا جو نظم و نسق اور اہم معاملات میں مشورہ دیتے حضرت عمر نہایت غیر معمولی اقدام کیلئے عوام سے راے لیتے اور اس کے موافق فیصلہ و عمل ہوتا۔ ہر روز عوامی رابطہ، مسائل کی سماعت اور برسر موقع فیصلہ صادر فرماتے۔ رعایا کے احوال سے واقفیت کیلئے راتوں کو گشت فرمایا کرتے حضرت عمر ؓکے طرز انصاف نے حقوق میں مساوات ہی نہیں بلکہ دینداری ،امن و سلامتی اور ترقی کا ماحول بناے رکھا۔ حضرت عمر ؓ کے انتظام مملکت اور اس کے خوبیوں سے گذشتہ چودہ صدیوں سے ارباب حل و عقد، حکمران و مقتدر و منتظم لوگ فیض پا رہے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے شرعی احکام کے نفاذ اور تبلیغ و دعوت دین کے کام کو ہمیشہ ترجیح دی۔