استاد امجد علی خان کا سرودکھو گیا

میرا کالم سید امتیاز الدین
دوچار دن پہلے ہم نے جب صبح اخبار دیکھنا شروع کیا تو ایک سُرخی ہماری توجہ کا مرکز بن گئی ۔ سرخی تھی ’’ برٹش ایرویز نے اُستاد امجد علی خان کا پینتالیس سالہ قدیم سرودگنوادیا ‘‘ خبر کی تفصیل یہ تھی کہ ملک کے مشہور و معروف سرود نواز اُستاد امجد علی خان اپنی بیگم سُبھا لکشمی کے ساتھ لندن کے ڈارٹنگٹن کالج میں رابندر ناتھ ٹیگور کی یاد میں منعقدہ ایک موسیقی کے پروگرام میں شرکت کیلئے گئے تھے ۔ لندن میں ایک ہفتے کے قیام کے بعد وہ 28 جون کو دہلی واپس ہوئے ۔ انہو ںنے برٹش ایرویز کے ایک ہوائی جہاز کے ذریعہ فرسٹ کلاس میں سفر کیا ۔ اُستاد کا کہنا ہے کہ جب وہ دہلی ایرپورٹ پر اُترے تو اُن کو اپنے سامان میں وہ لاقیمت سرود نہیں ملا جسے وہ پچھلے 45 سال سے بجا رہے ہیں ۔ امجد علی خان صاحب چار پانچ گھنٹے تک ایرپورٹ پر اپنا سرود تلاش کرتے رہے ۔ برٹش ایرویز کے عملے نے کہا کہ ہم اُس سرود کی بازیابی کیلئے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں ۔ ممکن ہے کہ وہ اگلی فلائیٹ سے آجائے ۔ ایرلائینز والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ لندن ایرپورٹ کے جس ٹرمینل سے خاں صاحب روانہ ہوئے تھے وہاں کی خود کار مشینیں صحیح ڈھنگ سے کام نہیں کر رہی ہیں ۔ اس لئے کئی مسائل پیدا ہو رہے ہیں ۔ اُدھر امجد علی خان صاحب کا کہنا ہے کہ اُن کا سرود انمول ہے اور وہ اِس کیلئے کوئی معاوضہ یا ہرجانہ قبول نہیں کریں گے ۔ اُنہیں اپنا ساز ہی چاہئے ۔

چونکہ اُستاد امجد علی خان صاحب ایک مشہور شخصیت ہیں اس لئے اُن کے سرود کی گمشدگی کی اطلاع اخباروں میں چھپ گئی ورنہ سچ یہ ہے کہ امریکہ ، برطانیہ اور دوسرے یوروپی ممالک کے آنے والے کئی مسافرین کا سامان اکثر گم ہوتا رہتا ہے ۔ چند سال پہلے ہمارے ایک دوست امریکہ سے آئے تھے اور اُن کا سوٹ کیس گم ہوگیا تھا ۔ انہوں نے شکایت درج کوائی اور ریفرنس کے طور پر ہمارا نام اور فون نمبر بھی دے دیا تھا ۔ سوٹ کیس کی گمشدگی پر رنج و غم سے ہمارے دوست کا بُرا حال تھا ۔ وہ اپنے عزیز و اقارب سے نہایت آبدیدہ ہوکر اپنی داستان سنارہے تھے کہ کس طرح انہوں نے سب کیلئے نام بنام تحائف اکٹھے کئے اور انہیں اسی بدنصیب سوٹ کیس میں رکھا تھا ۔ اُن کے عزیز و اقارب بھی انہیں پرخلوص دلاسہ دے رہے تھے کہ تحفوں کی بات چھوڑو، فی الحال ہم کو تمہاری فکر ہے کہ کس طرح تم ایک جوڑا کپڑوں میں دو ہفتوں تک قیام کرو گے ۔ اتفاق دیکھئے کہ دو چار دن میں ایر لائینز والوں کے پاس سے فون آیا کہ گمشدہ سوٹ کیس بحفاظت واپس آگیا ہے اور ہمارے دوست اُسے حاصل کرسکتے ہیں ۔ ہم نے جب یہ خبر سنائی تو خوش ہونے کے بجائے ان کے چہرے کا رنگ فق ہوگیا ۔ کہنے لگے ’’ بھئی ہمارے خاندان میں کھوئی ہوئی چیز کا دوبارہ ملنا بدشگونی سمجھا جاتا ہے ۔ ہمارا ایقان ہے کہ نقصان سے بلائیں دفع ہوتی ہیں ۔ لیکن اگر گُم شدہ چیز دوبارہ مل جائے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ بلا جو ٹل چکی تھی پھر سے گلے لگ گئی ہے ۔ اب میں وہ سوٹ کیس ہرگز نہیں لوں گا ‘‘ ۔ ہم نے اُن کو سمجھایا کہ یہ فضول توہمات ہیں ۔ تمہیں تو خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ تم جس چیز کی اُمید کھو بیٹھے تھے پھر سے مل گئی ‘‘۔ ہمارے اصرار پر رازاداری کی شرط پر ہمارے دوست نے بتایا کہ دراصل وہ کسی کیلئے کوئی تحفہ نہیں لائے تھے بلکہ سوٹ کیس کا گُم ہونا اُن کیلئے اچھا بہانہ بن گیا تھا ۔ اب سوٹ کیس کی بازیابی کی اطلاع پھیلے گی تو تحفوں کے امیدوار اپنے اپنے تحفوں کا مطالبہ کرنے لگیں گے ۔ ایسے میں یہی ایک راستہ رہ جائے گا کہ وہ اپنا منحوس سوٹ کیس اٹھائیں اور پہلی فلائیٹ سے امریکہ واپس ہوجائیں ۔

خیر ہم بات اُستاد امجد علی خاں کی کر رہے تھے ۔ ہمارے دوست اور اُن کا سوٹ کیس غیر ضروری طور پر بیچ میں آٹپکے ۔ اِس پورے واقعے میں ہم کو حیرت اِس بات کی ہے کہ سرود اچھا خاصہ بڑا ساز ہے ۔ کوئی چھوٹی موٹی چیز نہیں کہ اِدھر اُدھر ہوجائے ۔ ہماری دلی خواہش ہے کہ اُستاد کا سرود اُنہیں واپس مل جائے ۔ لیکن اتنا کم سے کم ہوکہ ہمارا یہ کالم اُن کے سرود کی بازیابی سے پہلے چھپ جائے ۔ اِس واقعے سے ایک اور نکتہ ہماری سمجھ میں آیا ۔ جب ہم سنتے تھے کہ فلاں صاحب نے سازو سامان کے ساتھ سفر کیا تو ہمیں عجیب سا لگتا تھا ۔ کیونکہ ہمارا خیال تھا کہ عام طور پر آدمی سامان کے ساتھ سفر کرتا ہے ۔ اُستاد امجد علی خان نے سرود کے ساتھ سفر کرکے یہ بات ہمارے ذہن نشین کردی کہ انہوں نے ساز و سامان کے ساتھ سفر کیا ہے ۔
معلوم ہوا ہے کہ اُستاد امجد علی خان کی عمر اس وقت 68 سال کی ہے اور گم شدہ سرود پچھپلے پینتالیس سال سے اُن کی بے لوث خدمت کر رہا تھا ۔ ایسے میں خاں صاحب کا جذباتی تعلق فطری ہے ۔ ہم کو مکیش کا ایک گیت بہت پسند ہے ۔ سارنگا تری یاد میں ، نین ہوئے بے چین ، اب اگر سرود کی یاد میں اُستاد امجد علی خاں کے نین بے چین ہیں تو تعجب کی کیا بات ہے ۔ ویسے ہم نے کبھی نہیں سنا کہ پنڈت روی شنکر کا ستار گم ہوگیا یا اُستاد بسم اللہ خان کی شہنائی کھو گئی یا پنا لعل گھوش کی بانسری کسی نے چُرالی ۔ جب روی شنکر کو بھارت رتن کے اعزاز سے نوازا گیا تو انہوں نے بڑے عجز سے اعتراف کیا تھا کہ اس اعزاز کے اصل حقدار اُن کے اُستاد بابا علاء الدین خاں ہیں ۔ اُستاد علاء الدین خان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ 12 سازوں کے ماہر تھے ۔ غور فرمائیے کہ اگر بابا علاء الدین خاں آج زندہ ہوتے اور اپنے بارہ سازوں کے ساتھ سفر کرتے اور لندن سے دہلی واپسی پر بارہ کے بارہ ساز گم شدہ پائے جاتے تو یہ اُن کا شخصی نقصان نہیں بلکہ قومی نقصان سمجھا جاتا۔

سازوں کے بارے میں ہماری واقفیت کچھ زیادہ نہیں ہے لیکن ہم اتنا ضرور جانتے ہیں کہ خود ہمارے حیدرآباد میں یاک انمول ہیرا تھا ۔ شیخ داؤد شیخ داؤد بہترین طبلہ نواز تھے ۔ آج سے کوئی پچاس ساٹھ سال پہلے ہندوستان کے سب سے بڑے طبلہ نواز تھے ۔ احمد خان تھرکوا ۔ ایک بار جب احمد خان تھرکوا نے داؤد کو سُنا تو بے ساختہ انہیں گلے سے لگالیا ۔ خیر تو ہم کہنا یہ چاہ رہے تھے کہ کسی نے ہم کو بتایا کہ خود استاد داؤد کا ایک مخصوص طبلہ تھا ۔ جس سے اُن کو جذباتی لگاؤ تھا ۔ شیخ داؤد کے ذکر پر ہمیں آج سے کم و بیش پچاس سال پہلے کی ایک بات یاد آگئی ۔ حیدرآباد میں ایک صاحب تھے جو بیگم اخترکو سال دو سال مدعو کرتے اور اُن کا پروگرام منعقد کرتے تھے ۔ ایک بار انہوں نے رویندر بھارتی میں بیگم اختر کا پروگرام رکھا ۔ پتہ نہیں کیا بات ہوئی کہ اُس دن پروگرام کے آرگنائزر صاحب داؤد کی بجائے کسی اور طبلہ نواز کو لے آئے ۔ بیگم اختر نے گانا شروع کیا تو ایک آدھ غزل کے بعد ہی انہیں اندازہ ہوگیا کہ یہ طبلہ نواز اُن کے معیار کا نہیں ۔ بیگم اختر بااخلاق بہت تھیں اور کسی کی دل شکنی نہیں کرتی تھیں ۔ انہوں نے پروگرام کے دوران اُس طبلہ نواز کو کچھ ہدایت دینے کی کوشش کی لیکن پھر بھی بات نہیں بنی ۔ پروگرام کے دوران چھوٹا سا وقفہ ہوا تاکہ بیگم اختر کچھ چائے پی لیں ۔ اس وقت انہوں نے پروگرام کے آرگنائزر سے پوچھا کہ آخر آپ نے شیخ داؤد صاحب کو کیوں نہیں بلایا ۔ چنانچہ اگلے دن شیخ داؤد نے سنگت کی بیگم اختر کھل کر نغمہ خواں ہوئیں اور اِس طرح موسیقی کی وہ محفل یادگار بن گئی ۔
برٹش ایرویز عالمی معیار کی کمپنی ہے ۔ اُس کو اور زیادہ احتیاط برتنی چاہئے ۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ برطانیہ میں آج کل بھول چوک عام ہوگئی ہے ۔ ابھی کچھ دن پہلے ہم نے اخبار میں پڑھا کہ برطانیہ کے وزیر اعظم مسٹر گورڈن اپنی بیوی اور بچی کے ساتھ کسی ہوٹل میں کھانا کھانے کیلئے گئے اور کھانے کے بعد میاں بیوی بچی کو ہوٹل میں بھول کر گھر لوٹ گئے ۔ راستے میں انہیں احساس ہوا کہ بچی ہوٹل میں رہ گئی ہے ۔ وہ دوبارہ ہوٹل آئے اور روتی ہوئی بچی کو ساتھ لے کر گھر واپس ہوئے ۔ اِس واقعے سے برطانوی طرز زندگی کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں کا بڑے سے بڑا آدمی بھی عام شہری کس طرح زندگی گذارتا ہے ۔ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ جب برطانیہ کا وزیر اعظم اپنی بچی کو بھول سکتا ہے تو برطانوی کمپنی اگر استاد امجد علی خان کے سرود کو بھول جائے تو اِس میں تعجب کی کیا بات ہے ۔

چلتے چلتے ہم آپ کو یہ بتادیں کہ حسنِ اتفاق سے ہمارے پاس اُستاد امجد علی خان کی ایک دستخط شدہ تصویر موجود ہے ۔ جس میں اُستاد اپنا محبوب سرود لئے بیٹھے ہیں ۔ ہم نے سوچا کہ ایک نظر آپ بھی اُس فردوسِ گم شدہ کو دیکھ لیں ویسے اَُستاد امجد علی خان ایسے باکمال فنکار ہیں کہ ہر سرود اُن کے اعجازِ فن کی گواہی دے گا ۔

رند جو ظرف اٹالیں وہی ساغر بن جائے
جس جگہ بیٹھ کے پی لیں وہی مئے خانہ بنے
کبھی کبھی بعض چیزوں کا گُم ہوجانا بھی مفید ہوتا ہے ۔ مخدوم کے ایک ہاسٹل کے ساتھی تھے جن کے پاس ایک پیلا دو شالہ تھا ۔ اس دوشالے سے اُن کو بے حد لگاؤ تھا ۔ اتفاق سے یار دوستوں نے وہ دوشالہ غائب کردیا ۔ مخدوم کے دوست اپنے دوشالے کے فراق میں باولے سے ہوگئے ۔ مخدوم نے اپنی پہلی نظم پیلا دوشالہ اِسی موقع پر لکھی ۔ ذرا سوچئے اگر یہ واقعہ نہ ہوا ہوتا تو مخدوم کی شاعری کی ابتداء کیسے ہوتی اور اردو کو ایسا شاعر کہاں ملتا ۔ کیا پتہ قدرت استاد امجد علی خاںکو ایک 45 سالہ ساز سے چھٹکارا دلاکر دنیا کو ایک نئی موسیقی ریز جھنکار سنانا چاہتی ہو ۔