اساتذہ کلاس روم میں ہیلمٹ پہن رہے ہیں

 

میرا کالم سید امتیاز الدین
جب ہم نے یہ سرخی اخبار میں دیکھی تو ہم کو یہ گمان ہوا کہ شاید اسکول کے طلباء جنگجو اور مغلوب الغضب واقع ہوئے ہیں اور ٹیچر کی ذرا سی سختی یا سخت کلامی برداشت نہیں کرسکتے اور فوراً سنگباری پر اتر آتے ہیں لیکن جب ہم نے خبر تفصیل سے پڑھی تو معلوم ہوا کہ میدک ضلع کے شنکرم پیٹ منڈل کے سرکاری اسکول میں اساتذہ ہیلمیٹ پہن کر کلاس میں آرہے ہیں۔ اس اسکول کی عمارت انتہائی خستہ ہے اور وہ حفاظت خود اختیاری کے تحت ہیلمٹ پہن کر اسکول آنے پر مجبور ہیں ۔ ضلع پریشد اسکول کے ٹیچرس کا کہنا ہے کہ حکام کو بار بار یاد دہانی کے باوجود ابھی تک مرمت کا کام نہیں کیا گیا ہے ۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اس لئے ہیلمٹ پہن رہے ہیں تاکہ کسی بھی ایمرجنسی میں خود کو بچا سکیں۔ میدک کی ضلع کلکٹر کا کہنا ہے کہ ضلع کے ایجوکیشن آفیسر اور دوسرے عہدیدار اسکول کو کسی دوسری عمارت میں منتقل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں ۔ کلکٹر کو ایک دن پہلے ہی اس صورتحال کا پتہ چلا ہے ۔ انہوں نے انجنیئرس سے کہا ہے کہ وہ عمارت کا معائنہ کریں اور صلاح دیں کہ عمارت کی مرمت کی جائے یا اسے منہدم کرکے نئی عمارت تعمیر کی جائے ۔ رپورٹ ملنے پر مناسب کارروائی کی جائے گی۔

ظاہر ہے کہ سارا معاملہ انتہائی سنگین ہے ۔ ہیلمٹ ایک معمولی سا حفاظتی ہتھیار ہے ۔ آپ گھر سے دفتر کیلئے نکلیں اور اپنی موٹر سیکل پر آدھے گھنٹے میں دفتر پہنچ جائیں تو اس کے بعد ہیلمٹ کو سر سے اتار دیں گے لیکن اگر کوئی ٹیچر صبح نو بجے سے (ہر موسم میں) شام کے چار بجے تک ہیلمٹ پہنا ہوا رہے تو اس کی دماغی اور جسمانی حالت کیا ہوجائے گی۔ اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے ۔ مثال کے طور پر ریاضی کے استاد کو ہی لیجئے۔ وقت اور کام اور وقت اور فاصلہ کے سوالات اکثر ریاضی میں پوچھے جاتے ہیں ۔ ریاضی کے استاد اگر بچوں سے پوچھنے لگیں کہ لڑکو ! بتاؤ اگر آٹھ مزدور ایک دیوار چھ دن میں بناسکتے ہیں تو دس مزدور اسی دیوار کو ہیلمٹ پہن کر کتنے دن میں بنائیں گے ۔ اردو کے استاد ہیلمٹ کے فوائد اور نقصانات پر مباحثہ کی شکل میں تقریری مقابلہ رکھ سکتے ہیں ۔
اساتذہ تو ہیلمٹ پہن کر اپنے آپ کو محفوظ سمجھ رہے ہیں لیکن اُن معصوم بچوں کے تعلق سے کسی کو فکر نہیں جو اسی مخدوش اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
یہ صرف میدک کے ضلع پریشد اسکول کی بات نہیں ہے ۔ ہم اکثر پرانے شہر کے بعض مشہور قدیم مدارس کے بارے میں سنتے ہیں کہ ان کی حالت مخدوش ہوتی جارہی ہے ۔ اس کی ایک صاف وجہ تو یہ ہے کہ سرکاری عمارتوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ ایک بار اسکول کی تعلیم شروع ہوجاتی ہے تو بس امتحانات اور نتیجوں یعنی results کی فکر شروع ہوجاتی ہے ۔ گرما کی چھٹیوں میں اسکول کی مرمت اور آہک پاشی کا بندوبست شروع ہونا چاہئے ۔ ہم نے چادر گھاٹ ہائی اسکول سے میٹرک کا امتحان کامیاب کیا تھا ۔ دو منزلہ اونچی کرسی کی بہترین عمارت تھی ۔ چند سال پہلے ہمارا ادھر سے گزر ہوا تھا ۔ ہم نے سوچا کہ اپنے قدیم اسکول کا دیدار کرلیں۔ اندر گئے تو لگا کہ کسی کھنڈر کو دیکھ رہے ہیں۔ حیرت ہوئی کہ اگر ابھی بھی یہاں تعلیم کا سلسلہ جاری ہے تو بھلا یہ کیسے ممکن ہے ۔ اس کے برخلاف ہمارے پوتے ایک مشنری اسکول میں پڑھتے ہیں۔ ہر سال گرما کی چھٹیوں کے بعد جب اسکول کھلتا ہے تو ہم محسوس کرتے ہیں کہ عمارت پہلے سے بہتر ہے ۔ کچھ خوشگوار تبدیلیاں ہوتی ہیں۔ ہماری تاریخی عمارتوں کو دیکھئے ۔ تاج محل کی مثال لیجئے۔ چار سو سال سے جوں کا توں کھڑا ہے ۔ حالانکہ اُس کے بارے میں اکثر سننے میں آتاہیکہ فضائی آلودگی سے متاثر ہے لیکن اُس کی آب و تاب میں آج بھی کوئی کمی نہیں ہے ۔ تاج محل شاید 1658 ء میں بن کر تیارہوا تھا ۔ کسی امتحان میں ایک سوال پوچھا گیا تھا کہ 1668 ء میں کیا اہم واقعہ ہوا تھا ۔ طالب علم نے دماغ پر بہت بار ڈالا ۔ جب اُس کو بالکل یاد نہیں آیا کہ 1668 ء میں کیا ہوا تھا تو اس نے لکھ دیا کہ 1668 ء میں تاج محل کو بن کر دس سال ہوچکے تھے۔ خود ہمارے شہر میں چارمینار چار سو برس سے سنتری کی طرح کھڑا ہے ۔ اُس کی حفاظت کے خیال سے شاید بسوں اور ٹرکوں کی آمد و رفت اُدھر سے روک دی گئی ہے تاکہ زمین کے ارتعاش یا Vibration اُسے نقصان نہ پہنچائے۔
آج ہی ہم اخبار میں پڑھ رہے تھے ، ہمارا راشٹرپتی بھون دنیا کی دوسری سب سے بڑی سرکاری رہائش گاہ ہے۔ اس کی تعمیر 1912 ء میں شروع ہوئی تھی اور 1929 ء میں یہ مکمل ہوا۔ اس میں 340 کمرے ہیں۔ 29 ہزار مزدوروں کی محنت اس کی تعمیر میں شامل ہے ۔ سو سال کی مدت گزرنے کے بعد بھی اس کی شان و شوکت میں کمی نہیں آئی ۔ ظاہر ہے کہ اس کی نگہداشت کیلئے ایک مستقل محکمہ ہوگا ۔ جب 1969 ء میں ڈاکٹر ذاکر حسین کا انتقال ہوا تھا تو عوام کو دیدار کی اجازت دی گئی تھی ۔ اتفاق سے ہم اُن دنوں دہلی میں تھے اور راشٹرپتی بھون کی پر شکوہ عمارت کو دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا ۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ پریشد اسکول کی خستہ حالی کا ذ کر ہم نے چھیڑا اور کہاں سے کہاں پہنچ گئے ۔ ہمارے نزدیک ضلع پریشد اسکول کی عمارت کی بھی بہت اہمیت ہے ۔ طالب علم ہمارے ملک کا مستقبل ہیں اور استاد جو اُنہیں زیورِ تعلیم سے آراستہ کرتے ہیں، مستقبل کے معمار ہیں۔ جب اساتذہ جان ہتھیلی پر لے کر اور ہیلمٹ پہن کر طلباء کو پڑھائیں گے تو استاد کیا پڑھائے گا اور بچہ کیا پڑے گا ۔ یہ معا ملہ صرف ایسی دفتری مراسلت کا نہیں ہے کہ انجنیئروں کو بلاکر پوچھا جائے کہ عمارت منہدم کی جائے یا اُس کی مرمت کی جائے ۔ پہلا کام یہ ہو کہ فوراً دوسری عمارت کا بندوبست کیا جائے تاکہ تعلیم اطمینان کے ماحول میں ہو۔ اساتذہ دل لگاکر پڑھائیں، طلباء دل لگاکر پڑھیں اور اُن کے والدین کسی پریشانی یا خوف کے بغیر اپنے بچوں کو پڑھنے کیلئے بھیجیں۔
عثمانیہ ہاسپٹل بھی ہمارے شہر کا ایک اہم دواخانہ ہے بلکہ ایک زمانے میں تو وہ شہر کا اہم ترین دواخانہ تھا ۔ اُس کی عمارت بھی بوسیدہ ہوگئی ہے ۔ ہم نے کچھ عرصہ پہلے اُس کی بعض تصاویر اخبار میں دیکھی تھیں۔ چھت جگہ جگہ اکھڑی ہوئی ہے۔ پلاسٹر جگہ جگہ نکلا ہوا ہے ۔ آج بھی سینکڑوں لوگ روزانہ علاج کیلئے شریک ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کی مرمت اور درستگی کی بے حد ضرورت ہے۔

ہمارا بچپن ملے پلی کے ایک سرکاری مکان میں گزرا ہے۔ ملے پلی کے مکانات محکمہ آرائش بلد کے تحت تھے اور اُن کے کرائے بھی بہت کم تھے لیکن محکمہ ان کی بہت اچھی نگہداشت کرتاتھا ۔ ہر سال پہلے ضروری مرمت ہوتی تھی جسے داغ دوزی کہتے تھے پھر پورے گھر کو اندر اور باہر سے چونا پڑتا تھا ۔ ایک بار بارش میں چھت ٹپکی۔ ہم نے ایک درخواست لکھی جس میں مرمت کی گزارش تھی ۔ ایم ایم ہاشم ہمارے ایم ایل اے تھے اور ایسی درخواستوں پر بے دریغ دستخط کردیتے تھے ۔ ہم نے درخواست متعلقہ دفتر میں دے دی۔ دو تین دنوں بعد ایک سپروائزر مزدوروں کے ساتھ آیا اور چھت کی مرمت کردی ۔ ہمیں افسوس ہے کہ ضلع پریشد اسکول کی عمارت توجہ دہانی کے باوجود اس حال کو کیوں پہنچ گئی ۔ بہرحال ہماری دلی خواہش ہے کہ جلد سے جلد اس عمارت کی مرمت ہو یا طلباء اور اساتذہ کے لئے کوئی اور بلڈنگ کا انتظام کیا جائے تاکہ تشویش اور پریشانی کا یہ دور جو اسکول کے اساتذہ اور بچوں پر