ازراہ مذاق طلاق دینا

سوال :  ہندہ کو ان کے شوہر نے گھریلو تکرار کے دوران تین مرتبہ طلاق طلاق طلاق کہا ۔ بعد میں یہ کہہ رہا ہے کہ ’’ میں نے مذاق سے کہا ہوں‘‘ ہندہ حاملہ ہے ۔ ایسی صورت میں شرعاً کیا حکم ہے ؟
نام …
جواب :   صورت مسئول عنہا میں شوہر نے ہندہ کو اگر مذاقاً طلاق دی ہے تو بھی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوکر تعلق زوجیت بالکلیہ منقطع ہوگیا ۔ عالمگیری جلد اول کتاب الطلاق فصل فیما یقع طلاقہ میں ہے ۔  وطلاق اللاعب والھازل بہ واقع ۔ اور اسی کتاب میں ہے ۔ وزوال حل المناکحۃ متی تم ثلاثا۔ اب بغیر حلالہ دونوں آپس میں دوبارہ عقد بھی نہیں کرسکتے ۔ کنز الدقائق کتاب الطلاق فصل فیما یحل بہ المطلقۃ میں ہے : و ینکح مبانتہ فی العدۃ و بعدھا لا المبانۃ بالثلاث ولو حرۃ و بالثنتین لو أمۃ حتی یطاھا غیرہ ۔ حاملہ کی عدت و ضع حمل (زچگی) پر ختم ہوتی ہے ۔ فتاوی عالمگیری جلد اول باب العدۃ ص : 528 میں ہے ۔ ولیس للمعتدۃ بالحمل مدۃ سواء ولدت بعد الطلاق او الموت بیوم أو أقل ۔

موقوفہ قبرستان پر دینی مدرسہ کی تعمیر
سوال :  ہمارے گاؤں میں قدیم قبرستان ہے اور اس کے پُر ہوجانے کے سبب آج سے تقریباً بیس سال قبل سے ہی اس میں تدفین روک دی گئی ہے اور قبرستان کے حدود کو محصور کردیا گیا لیکن فی الحال چند افراد اس قبرستان کی جگہ پر قبور کے اوپر  غیر قانونی طور پر قبور کو مسمار کر کے مکانات بنوالئے ہیں۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس قبرستان میں موقوعہ مکانات میں کسی دینی عربی مدرسہ کا آغاز و قیام درست ہے یا نہیں۔ و نیز مذکورہ قبرستان میں تدفین اموات درست ہے ؟
محمد مقصود
جواب :  صورت مسؤلہ میں مذکورہ اراضی قبرستان کے لئے وقف ہے ۔ اس میں سوائے تدفین اموات کے دیگر تعمیر و ترمیم شرعاً ناجائز ہے ۔ جبکہ در مختار جلد سوم ص : 476 میں ہے۔
وما خالف شرط الواقف فھو مخالف للنص سواء کان نصہ نصاو ظاہر ھذا موافق لقول مشائخناکغیرھم شرط الواقف کنص الشارع فیجب اتباعہ کما صرح بہ فی المجمع۔
قبریں اگر قدیم و بوسیدہ ہوجا ئیں تو اس میں دیگر مردوں کی تدفین جائز ہے۔ دینی مدرسہ کی تعمیر درست نہیں ۔

تفسیر قرآن
سوال :  ہمارے محلہ کی ایک مسجد میں روزانہ مسجد کے امام صاحب بعد نماز فجر درس قرآن دیا کرتے تھے لیکن ایک دن انہوں نے عذر کیا کہ روزانہ تفسیر قرآن کے مطالعہ کے لئے رات دیر گئے تک مطالعہ کی وجہ سے انہیں ذہنی تناؤ ہورہا ہے ۔لہذا وہ بعد نماز فجر تفسیر قرآن نہیں سنائیں گے ؟ اس ضمن میں مسئلہ دریافت طلب یہ ہے کہ کیا واقعی تفسیر قرآن کے مطالعہ کیلئے اتنا زیادہ وقت لگتا ہے  جبکہ امام صاحب حافظ ، عالم دین ہیں۔ کیا تفسیر قرآن پیش کرنے کا کوئی آسان طریقہ ہے ؟ تاکہ دوبارہ مسجد میں تفسیر قرآن کا آغاز کیا جائے ۔
محمد برہان الدین، بورہ بنڈہ
جواب :  قرآن مجید کی تفسیر بیان کرنا واقعی محنت اور وقت طلب کام ہے، اس کیلئے مختلف مستند کتب تفسیر کا مطالعہ کر کے اس کا خلاصہ عوام کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے ۔ اگر آپ کی مسجد کے امام صاحب روزانہ درس تفسیرنہیں دے سکتے تو انہیں چاہئے کہ وہ ہفتہ میں ایک یا دو دن مقرر کریں یا روزانہ مقصود ہو تو کسی غیر متنازعہ معتبر عالم دین کی تفسیر دیکھ کر پڑھ لیا کریں اور جہاں کہیں تراجم میں اختلاف ہو اور نزاع کا موجب ہو۔ ایسی آیات کو عوام الناس کے سامنے نہ پڑھیں۔

رہبانیت اور اسلام
سوال :   میری عمر 40 سال ہے اور میں زندگی سے بیزار ہوچکا ہوں۔ ہر طرف جھوٹ ، مکر، فریب ، دھوکہ ہے۔ کہیں بھی پیار و محبت ، سچائی ، امانت نہیں ہے۔ اس لئے مجھے گھر میں اور باہر الجھن ہورہی ہے۔ ذہنی تناؤ بڑھ رہا ہے۔ بیوی میں جھوٹ کی عادت ہے۔ گھر والے دیندار نہیں ہے اور باہر ہر طرف جھوٹ ہے۔ ایسے ماحول میں میں سب سے الگ تھلگ ہوکر زندگی بسر کرنا چاہتا ہوں اور صدق دل سے اللہ کی طرف رجوع ہوکر رات دن بسر کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے لوگوں سے، عوام سے گھبراہٹ سی ہوگئی ہے لیکن میں شرعی نقطہ نظر سے جاننا چاہتا ہو ں کہ میرا اس طرح عمل اختیار کرنا درست ہے یا نہیں ؟
محمد فاروق، کنگ کوٹھی
جواب :  دین اور دینی مسائل کے بارے میں اتنے اہتمام کے باوجود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو رہبانیت (ترک دنیا) کا اسلوب قطعی ناپسند تھا ۔ اگر کسی صحابی نے اپنے طبعی میلان کی وجہ سے آپؐ سے اجازت مانگی بھی ، تو آپؐ نے سختی سے اسے منع فرمادیا۔ خود آپؐ کا جو طرز عمل تھا اسے آپؐ نے یوں بیان فرمایا : ’’ میں اللہ سے تم سب کی نسبت زیادہ ڈرنے والا ہوں ، مگر میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا، نماز بھی پڑھتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں اور اسی طرح عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں ‘‘ پھر فرمایا : ’’ یہی میرا طریقہ (سنت) ہے۔ جس نے میرے طریقے کو چھوڑا وہ میری امت میں سے نہیں‘‘ (البخاری ، 411:3 ، کتاب النکاح ، باب 41 ، مطبوعہ لائیڈن)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ و بن العاص نے آپؐ سے ’’ مسلسل اور ہمیشہ روزے ‘‘ رکھنے کی اجازت مانگی تو فرمایا : ’’ زیادہ سے زیادہ تم صوم داؤدؑ ، یعنی ایک دن چھوڑ کر روزہ رکھ سکتے ہو‘‘ پھر فرمایا : ’’ تیرے بدن کا بھی حق ہے، تیرے گھر والوں کا بھی تجھ پر حق ہے ‘‘ (کتاب مذکور ، 443:1 ، کتاب الصوم ، باب 56 ، 47 ) ۔ ایک اور موقع پر زندگی کے ناقابل بنانے کا ارادہ ظاہر کیا تو آپؐ نے سختی سے منع فرمادیا (کتاب مذکور ، 413:3 تا 414 ) ۔ ایک صحابیؓ نے دنیا کے تمام بندھنوں سے الگ ہوکر ایک غار میں معتکف ہوکر عبادت الٰہی کرنے کی اجازت طلب کی تو فرمایا : ’’ میں یہودیت یا عیسائیت کی طرح رہبانیت کی تعلیم نہیں لے کر آیا بلکہ مجھے تو آسان اور سہل دین ، دین ابراہیم ملا ہے ‘‘ (احمد بن حنبل :  مسند 266:5 )
کتب حدیث و سیرت میں مذکور اس طرح کے بے شمار واقعات سے اس بات کی بخوبی شہادت ملتی ہے کہ آپؐ کو عیسائیت کے راہبوں اور بدھ مت کے بھکشوؤں کی طرح دنیا اور اس کے رشتوں سے قطع تعلق کرنا ہرگز گوارا نہ تھا ۔ آپؐ اسے ایک طرح کا عملی زندگی سے فرار اور قنوطیت سمجھتے تھے اور آپؐ کے نزدیک زندگی کی طرف یہ منفی رویہ کسی عالمگیر اور پا ئیدار مذہب (اور اس کے بانی) کے شایان شان نہیں تھا ۔ اس کے بالمقابل آپؐ کے رویے میں امید و رجا کا پہلو بہت نمایاں تھا ۔ آپؐ کا مسلک یہ رہا کہ دنیا میں رچ بس کر دنیا کی اصلاح کی کوشش کی جائے ۔ ا گر آپؐ کا کام رہبانیت ، یعنی خود کو برائی سے بچانے تک محدود ہوتا تو آپؐ کو اپنی عملی زندگی میں اتنی مشکلات اور مصائب و آلام کا ہرگز سامنا نہ کرنا پڑتا۔ واقعہ یہ ہے کہ آپؐ کو دین اسلام میں غیر ضروری مذہبی انتہا پسندی سخت ناپسند تھی اور اسے آپؐ معاشرے کے لئے خطرہ سمجھتے تھے۔

طلاق کے بعد مہر ادا نہ کرنا
سوال :   میری شادی تین سال قبل ایک حیدرآبادی لڑکے سے ہوئی جو امریکہ میں مقیم تھا۔ شادی کے بعد میں بھی امریکہ گئی لیکن وہاں اس کے برتاؤ اور سلوک میں بہت فرق محسوس کی اور اس کے عادات و اطوار بھی بالکل صحیح نہیں۔ وہ شراب کا عادی اور دیگر حرام کاموں میں ملوث تھا جس کی بناء میں نے اسے طلاق کا مطالبہ کیا اور وہ طلاق دینے پر آمادہ ہوگیا جس کی بناء میں اس کے ساتھ  اپنے وطن واپس ہوئی اور طلاق کی کارروائی کی۔ اور اس نے مجھے طلاق بائن وکیل کے ذریعہ دیدیا  اور اب تک مہر کی رقم ادا نہیں کیا۔ اور وہ مہر کی رقم ادا کرنے تیار نہیں کیونکہ مہر ایک لاکھ 21 ہزار روپئے ہے۔ ایسی صورت میں مجھے کیا کرنا چاہئے ؟ واضح رہے کہ اس کے پاس مہر ادا کرنے کی استطاعت  ہے لیکن وہ شرارتاً مہر ادا نہیں کر رہا ہے ۔
فرحانہ خاں، مراد نگر
جواب :   صورت مسئول عنہا میں شوہر پر طلاق کی وجہ مہر مؤجل ادا کرنا لازم ہے اور شوہر صاحب استطاعت ہے اور شرارتاً مہر ادا نہیں کر رہا ہے تو ایسی صورت میں مطلقہ عورت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ قانونی کارروائی کرتے ہوئے طلاق دہندہ کو قید کروائے۔ در مختار برحاشیہ رد المحتار جلد 4 صفحہ 350 کتاب القضاء فصل حبس میں ہے : لا یحبس فی غیرہ ای غیر ما ذکرو ھو تسع صور : بدل خلع ، و مغصوب ، و متلف ، و دم عمد ، و عتق حظ شریک ، و ارش جنایۃ ، و نفقۃ قریب ، و زوجۃ، و مؤجل مھر ۔ قلت بظاھرہ ولو بعد الطلاق ۔ صفحہ 351 میں ہے : ان ادعی المدیون الفقر اذ الاصل العسرۃ الا ان یبرھن غریمہ علی غناہ ۔

مرحوم کے جیب میں موجود رقم کا حکم
سوال :  میرے والد کا انتقال ہوگیا ۔ بعد تدفین معلوم ہوا کہ غسل سے قبل جو لباس زیب تن تھا ، اس میں نو ہزار سے زائد رقم تھی جو غسل کے لئے کھودے گئے گڑھے میں کپڑوں کے ساتھ چلی گئی ۔ اب وہ قابل استعمال ہے یا نہیں ، ہے تو کن امور میں استعال کی جاسکتی ہے مطلع فرمائیں ۔
نام ندارد
جواب :  مرحوم کے انتقال کے وقت زیب تن کپڑوں میں موجود مرحوم کی رقم مرحوم کے متروکہ میں شامل ہوگی جس میں ان کے ورثہ حقدار ہیں اور وہ اس میں حسب احکام شرع حصہ پائیں گے۔

امام سے پہلے مقتدی کا رکوع و سجود سے سر اٹھانا
سوال :  بعض وقت دیکھا جاتا ہے کہ لوگ اس قدر جلدی میں ہوتے ہیں کہ امام کے رکوع سے اٹھنے کا انتظار نہیں کرتے اور اس سے قبل اٹھ جاتے ہیں ۔ شرعی لحاظ سے اگر کوئی امام سے قبل رکوع اور سجدہ سے سر اٹھالے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ :
سلیمان، ملے پلی
جواب :  مقتدی پر امام کی پیروی کرنا لازم ہے۔ اگر کوئی مقتدی امام سے قبل رکوع اور سجدہ سے ا پنا سراٹھالے تو فقہاء نے صراحت کی کہ اس کے لئے دوبارہ رکوع اور سجدہ میں چلے جانا مناسب ہے تاکہ امام کی اقتداء اور اتباع مکمل ہوسکے اور امام کی مخالفت لازم نہ آئے ۔ دوبارہ رکوع اور سجدہ میں جانے سے تکرار متصور نہیں ہوگی ۔ حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ص : 171, 170 میں ہے : من الواجب متابعۃ المقتدی امامہ فی الارکان الفعلیۃ فلو رفع المقتدی رأسہ من الرکوع اوالسجود قبل الامام ینبغی لہ ان یعود لتزول المخالفۃ بالموافقۃ ولا یصیر ذلک تکرار!