ازدواجی زندگی: لمحہ لمحہ زندگی کو خوشگوار بنائیں!!

فریدہ راج

ان کا کہنا ہے کہ کسی بھی طرح کی قانونی کارروائی کی بجائے آپسی سمجھوتہ کے ساتھ اس کی مانگ کو پورا کیا جائے تو بہتر ہوگا ۔ رہنے کے لئے اس نے چھوٹے فلیٹ کی مانگ کی جو انہوں نے کرایہ پر دے رکھا تھا اور کہا کہ روز مرہ کے خرچے کیلئے اُس کے حوالے وہ فکسڈ ڈپازٹ کر دیں جو انہوں نے اس کے نام پر لیا ہے ۔ اس کے علاوہ اگر ضرورت محسوس ہوئی اپنے شادی شدہ بیٹوں سے مانگ لے گی ۔ اب تو عارف میاں بری طرح پریشان ہوگئے ۔ اس کو دیکھتے ہوئے صرف اتنا کہہ پائے ’’آخر تم چاہتی کیا ہو ‘‘ کیا کرو گی ؟ ۔ بس اب میں اپنے طور پر زندگی گذارنا چاہتی ہوں ۔ اتنا کہتے ہوئے رضوانہ باورچی خانہ میں چلی گئی ۔ روٹھی ہوئی کو منانے کیلئے عارف میاں نے وہ کچھ کیا جو خواب و خیال میں سوچا تک نہ تھا ۔

قیمتی سلک کی ساڑیاں اُٹھا لائے ۔ رضوانہ نے ایک نظر تک نہ ڈالی ۔ وہ رنگ اسے سخت ناپسند بھی تھے ۔ انہیں معلوم تھا کہ رضوانہ کو بیرونی ممالک جانے کا شوق ہے ۔ وہ سمندری سفر سے ملیشیا جانے کی ٹکٹیں لے آئے ۔ اُس نے وہ ٹکٹس پھاڑ دیں کیا وہ نہیں جانتے کہ سمندری سفر سے اسے چکر آتا ہے ۔ متلی ہوتی ہے ۔ وہ فلم کی ٹکٹیں لے آئے لیکن رضوانہ ان کے ساتھ کہیں بھی جانا نہیں چاہتی تھی ۔ بہت سوچنے کے بعد عارف میاں نے دبے الفاظ میں پوچھا آیا اُس کی زندگی میں کوئی اور ہے ۔ رضوانہ طیش میں آگئی اور پیر پٹکتے ہوئے کمرے سے باہر چلی گئی ۔ اب تو عارف میاں اس قدر پریشان ہو اٹھے کہ آفس کے کام پر توجہ نہ دے پائے ۔

آخر ایک دن ان کے باس نے بلا کر پوچھ ہی لیا کہ آخر ماجرا کیا ہے ، عارف میاں نے اشکبار آنکھوں اور لرزتی آواز میں سب کچھ اُگل دیا ۔ باس نے مشورہ دیا کہ وہ کسی اچھے میریج کونسلر سے ربط کریں ۔ لیکن جب عارف میاں نے رضوانہ سے ذکر کیا تو ٹس سے مس نہ ہوئی ۔ بہرحال بیٹوں کے سمجھانے پر اس نے جانے کی حامی بھر دی ۔ کونسلر نے عارف میاں سے پوچھا انہوں نے اب تک بیوی کیلئے کیا کیا ۔ عارف میاں نے فورا جواب دیا ۔ وہی جو سب مرد اپنی بیوی کیلئے کرتے ہیں ۔ ہر طرح کی سہولت فراہم کی ۔ اتنا کچھ رکھ چھوڑا ہے مستقبل میں اسے کسی چیز کی کمی نہ محسوس ہوگی ۔ اور جب یہ ہی سوال کونسلر نے رضوانہ سے کیا تو مان لیجئے وہ بند ٹوٹ گیا جس نے برسوں کی شکایات ‘ ذہنی تناؤ ‘ اہانت آمیز سلوک ‘ ٹوٹے ہوئے خواب اور نہ جانے کتنی تشنہ کام آرزووں کو اپنے میں سمیٹ رکھا تھا ۔ آنسوؤں کے ساتھ لفظوں کا ایک ایسا سیلاب اُمڈ آیا جس کو روکنا کسی کے بس میں نہ تھا ۔ رضوانہ بولتی چلی گئی اور عارف میاں سر جھکائے خاموش سنتے رہے ۔ وہ کہہ رہی تھی میرے شوہر کو ایک شریک حیات ‘ ہم نوا‘ غمگسار کی ضرورت نہ تھی وہ تو چاہتے تھے کہ کوئی ایسا ہو جو بنا معاوضہ گھر کی دیکھ بھال کرے ۔

بچوں کی پرورش کرے ‘ ان کے والدین کی بناء چوں چراں خدمت کرے اور جب انہیں ضرورت محسوس ہو تو ان کے لئے باعث تسکین ہو ۔ پوچھیں ذرا آپ ان سے کیا ہم بستری کے علاوہ کبھی انہوں نے مجھے چھوا تک ہے پیار سے دو لفظ کہے اور جب سے ذیابیطس سے متاثر ہوئے مجھ سے اجنبیوں جیسا برتاؤ کرتے ہیں۔ ہم رہتے ایک چھت تلے ضرور ہیں ‘ لیکن اجنبیوں کی طرح انہوں نے کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی میری پسندناپسند کیا ہے ۔ میری ضروریات کیا ہیں ۔ ساس و سسر گذر گئے ۔ بیٹوں نے شادی کے بعد اپنے گھر بسا لیئے ہیں گھر میں اب بالکل تنہا ہوں ۔ ارے انہوں نے اتنا تک جاننے کی کوشش نہیں کہ پچھلے دو ماہ سے میں ڈاکٹر کے پاس کیوں جا رہی ہوں ۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ مجھے چھاتی کا کینسر ہے نہ جانے کب تک جیوں گی ۔ بس اب میں باقی عمر اپنے طور پر جیناچاہتی ہوں ۔ وہ تمام چیزیں کرنا چاہتی ہوں جو آج تک نہ کر پائی ۔ بس یہ ہی میرے الگ ہونے کی مانگ کی وجہ ۔ دل کی بھڑاس نکل جانے کے بعد رضوانہ خاموش ہوگئی ۔ عارف میاں منہ کھولے بیوی کو تک رہے تھے ۔ رضوانہ ہمیشہ کیلئے ان سے دور ہو جائے گی وہ سوچ بھی نہ سکتے تھے ۔ ایک وہی تو تھی جس کے ساتھ وہ زندگی کے نشیب و فراز سے گذرے ۔ ہر دکھ ہر سکھ میں وہ ان کے ساتھ رہیں ۔ وہ ان کا سہارا تھی ۔ انکا آئینہ جس میں وہ اپنا عکس دیکھتے تھے ۔

خاموشی سے رضوانہ کو گھر لے آئے کام سے چھٹی لی اور تندہی سے اس کے علاج میں جٹ گئے ۔ کینسر ابتدائی دور میں تھا اور اس کو قابو میں لانا مشکل نہ تھا ۔ شادی کے تیس برس بعد پہلی بار دونوں نے بلا جھجھک اپنے جذبات کا اظہار کیا ۔ اب دونوں ہم آہنگی سے رہنے لگے ۔ شادی کا بندھن ٹوٹنے سے محفوظ رہا ۔ شادی ایک ایسا رشتہ ہے جو چاہتا ہے کہ ایک نئے پودے کی طرح اس کو پیار و محبت ‘ عزت و بھروسے سے سینچا جائے ۔ لیکن اکثر ہوتا یہ ہے کہ شادی کے بندھن میں بندھنے کے فورا بعد ہی ہم اس رشتے سے لاپرواہی برتتے ہیں ۔ مختلف رشتوں کو سنبھالنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں لیکن اس خوبصورت اہم رشتے کو غیر شعوری طور پر نظرانداز کرتے ہیں ۔ شاید یہ سوچ کر کہ اب تو ہم ساتھ ہیں فکر کس بات کی ۔ شادی شدہ زندگی ‘ چاہے وہ چار برس پرانی ہو یا چالیس ۔ یہ بے حد ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے کو سراہیں ۔ ان کی پسند ناپسند کو جانیں ۔ اُن کی ضروریات پر دھیان دیں اور اس خوبصورت رشتے کو وقتا فوقتا ایک نیا موڑ دیں تاکہ ایک دوسرے کا ساتھ ہر لمحہ کو خوشگوار بنادے ۔