ارمانوں کا خون سید حامد اللہ حسینی

رضوانہ بیگم کے شوہر زیادہ پڑھے لکھے شخص نہیں تھے ۔ کسی فرم میں ایک عہدہ پر فائز تھے ۔ جس کا انہیں کبھی پچھتاوا نہ رہا لیکن انہوں نے اپنے تینوں لڑکوں کی تعلیم و تربیت پربہت توجہ دی ۔ بڑے بیٹے اکرام کو پڑھنے کا بہت شوق تھا ۔ وہ بہت ذہین تھا ، والدین کی جستجو اور حوصلہ افزائی پاکر ایم سیٹ میں اچھے نمبرات لاکے اور بی ٹیک میں Admission لیکر انجنیئرنگ کی ڈگری حاصل کرلی۔ ان کے مالی وسائل نہیں تھے۔ تینوں بیٹوں کو اعلیٰ تعلیم دلاسکتے اس لئے بڑے بیٹے پردھان دائے اور وہ انجنیئر بن گیا ۔ چھوٹے بیٹے کو ڈپلوما کسی فرم میں بحیثیت سوپر وائزر ملازمت کرلی ۔ تیسرے بیٹے کو B.Ed ، B.A کروائے جو کسی اسکول میں بحیثیت ٹیچر تھا ۔

رضوانہ سے حسینی صاحب بہت خوش تھے ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد فنڈکا جو پیسہ ملا اس سے انہوں نے تینوں بیٹوں کی شادی کردی ۔ شادی کے ہنگامے ختم بھی نہ ہوئے تھے کہ ایک حادثہ میں حسینی صاحب معذور ہوگئے تھے ۔ رضوانہ بیگم کو محسوس ہوا کہ تینوں بیٹوں کے ہوتے ہوئے بھی جیسے وہ اب بھی اکیلی ہوگی۔ اکرام کا Govt. Job تھا ۔ اس کے تبادلے ہوتے رہتے تھے تو وہ ایک شہر سے دوسرے شہر میں تبادلہ ہوتے ہی ماں اور بھائی سے دور ہوگیا ۔ نہ کوئی خبر ہی لیتا تھا ۔ نہ ماں کے خرچے کیلئے کچھ روپئے بھی روانہ کرتا تھا۔ اس کی Life بھی بے انتہا خود غرض تھی ۔اس لئے دوسرے شہر جاتے ہی اپنی دنیا الگ کرلی ، رضوانہ کا آخری بیٹا جو اسکول میں خانگی اسکول ٹیچر تھا ۔ اسی شہر میں ماں اور بیوی کے ساتھ رہتا تھا ۔ اس کی بیوی سرمین جو ندی کے اس پار رہتی تھی ۔ سیدھی سادھی ہمدرد و مخلص طبیعت کی تھی ۔ ساس کسی کی قدر کرنے والی تھیں۔ ابرار اسے پا کر اپنی قسمت پر ناز کرنے لگا تھا ۔د وسرے بیٹے اکبر کی بیوی بھی ٹھیک تھی لیکن یہ گاؤں میں رہتی تھی ۔

وقت کا کام ہے گزرتے رہنا اور وہ دبے پاؤں گزرتا ہی رہتا ہے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے دس سال کا عرصہ گزر گیا ۔ ابرار کے ہاں اولادیں ہوئی ۔ ایک لڑکا و لڑکی کی طرح تیسرے بیٹا بھی دو بچوں کا باپ بن گیا ۔ رضوان تیسرے بیٹے اور بہو کے ساتھ ہی رہتی تھی ۔ تیسرے لڑکے کی تنخواہ کم تھی۔ تین تین ٹیوشن پڑھاتا تھا جس کی وجہ سے رات تک مصروف رہتا تھا ۔ سارا کام گھر کا تیسری بہو کے ہاتھ میں تھا ۔ وہ ایک ذمہ دار و سلیقہ مند ہمدرد و کفایت شعار بیوی تھی ۔ ہر حال میں خوش اور مطمئن رہتی تھی ۔ بہو بیگم اب گزارا کرنے والی صابر خاتون تھیں ۔ انہوں نے اپنے بڑے بیٹے کی طرف پلٹ کر دیکھنا گوارا نہ کیا ۔ وہ اپنی ضروریات کیلئے اکرام کی طرف دیکھتیں ۔ اس کی بے رخی سے بہت دکھی ہوجاتی تھی ۔ اکرام خود غرض اور بے حس کو سب ے محسوس کیا تھا، نظرانداز کرنے کے سوائے کوئی دوسرا حل نہیں تھا ۔ وہ لوگ دوسرے شہر سے آتے دو دن رہ کر جانا چاہتے تو کوئی روکتا نہیں تھا ۔ جب اکیلا کچھ پہلے اکرام ان سے ملنے کیلئے آیا تھا ۔ مگران کوبیمار ماں کے پاس بیٹھنے کی توفیق نہیں ہوئی ۔ روزانہ بازاروں کے چکر سسرالی رشتہ داروں کے ہاں دعوتوں کا سلسلہ جس کی وجہ سے رات دیر گئے گھر آتے اور پھر دوسرے دن کی وہی مصروفیت کس دن باہر جاتے ہوئے اکرام نے امی سے کچھ پیسے مانگے۔

میرے پاس تمہارے فضول اخراجات کیلئے پیسے نہیں ہیں اور صاف انکار کر دیا ۔ اکرام حیرت سے ماں کا منہ دیکھتے رہ گئے ۔ کہنے لگے امی ابرار تمہیں خرچ کیلئے کچھ نہیں دیتا اور ابرار کی ایسی کونسی بڑی تنخواہ ہے جو ہم سب کا پیٹ بھرنے کے بعد میری دواؤں اور ڈاکٹروں کے خرچوں کے بعد مجھے فضول خرچی کرنے کیلئے جیب خرچ دے جو ہزاروں کماتے ہیں۔ انہوں نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔

چند دن کے بعد اکرام کا فون پر بات کرتے ہوئے اپنا دل ٹکڑے ٹکڑے ہوتا محسوس ہوا ، اکرام بول رہا تھا ۔ امی جی آپ کی کمزوری اور بیماری کو دیکھ کر بہت ترس آیا ۔ اپنا خیال رکھے گا ۔ میں واپس آنے کے بعد آپ کے بارے میں بہت فکرمند ہوں ۔ کچھ منی گرام کے ذریعہ روانہ کر رہا ہوں جس سے آپ کی ضروریات پوری کیجئے گا ۔
رضوانہ بیگم ذلت اور غصہ سے کوفت سے کھول اٹھیں، کہنے لگیں میرے اچھے اکرام تم نے غلط اندازہ لگایا ۔ میرے کو پیسوں کی کیا ضرورت ، میرے ہاتھ تمہارے آگے پھیلتے نہیں تھے ۔ تم زیادہ پڑھ لکھ گئے ، اس لئے فرض و رحم کے فرق کو بھلا بیٹھے ہو۔ رحم کن لوگوں پر کیا جاتا ہے اور فرض کی ادا ئیگی کیسے ہوتی ہے ، یہ تمہاری ڈگریوں کی پڑھائی میں نہیں ہے۔ احساس چند دل ، کھلی آنکھیں اور سوچنے والا ذ ہین بناؤ تو تمہیں سمجھ میں آجائے گا ۔ ماں باپ ، بھائیوں کا کیا رشتہ ہے ۔

میں تم سے شکایت نہیں کر رہی ہوں ۔ شکر گزار ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی کہ اس نے مجھے ایک بیٹا ایسا عطا کیا ہے جواپنے منہ سے نوالا ڈالنے سے پہلے اطمینان کرلیتا ہے ۔ ماں کا مزاج ٹھیک ہے یا نہیں ، اپنی خدمت کو اپنا فرض سمجھ کر کرتا ہے ۔ ماں باپ کی نمی وہ اپنے دل پر محسوس کرتا ہے ۔ ایسے بیٹے کا ساتھ ہے مجھے کسی بات کی فکر نہیں ہے ۔ اس لئے منی گرام کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ آہستگی سے فون بند کردیا ۔ وہ پھر اپنے بستر پر لیٹے سوچ رہی تھیں۔