اردو یونیورسٹی میں جعلی ڈگریوں کی بنیاد پر تقررات!

حیدرآباد ۔29 ۔ اپریل (سیاست نیوز) نئی دہلی کے وزیر قانون کی جعلی ڈگری سے متعلق انکشاف کے بعد مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے بھی گزشتہ چند برسوں کے دوران کئے گئے تقررات میں جعلی ڈگری کے استعمال کی اطلاعات ملی ہیں۔باوثوق ذرائع نے بتایا کہ یونیورسٹی کے قیام کے بعد سے وائس چانسلرس نے بڑے پیمانے پر تقررات عمل میں لائے۔ چونکہ یونیورسٹی کے قیام کے بعد تقررات کی کافی گنجائش تھی لہذا اپنے قریبی افراد کے تقرر کے سلسلہ میں خصوصی دلچسپی کا مظاہرہ کیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ مختلف ریاستوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے فرضی اور جعلی ڈگریوں کی بنیاد پر اردو یونیورسٹی میں اہم عہدوں پر تقررات حاصل کئے ہیں۔ اگر یونیورسٹی کے قیام سے لیکر آج تک کے تقررات میں استعمال کی گئی ڈگریوں کی جانچ کی جائے تو تقریباً 50 فیصد تک تقررات کالعدم ہوجائیں گے کیونکہ یہ تقررات جعلی ڈگریوںکی بنیاد پر عمل میں لائے گئے۔ یونیورسٹی کے اندرونی حلقوں نے جعلی ڈگریوں کے چلن اور ان کی بنیاد پر تقررات کا اعتراف کیا۔

نام شائع نہ کرنے کی شرط پر کئی افراد نے کہا کہ بہار ، یو پی ، دہلی ، کرناٹک اور دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد میں کئی ایسے ہیں جن کی ڈگریاں حقیقی نہیں ہیں بلکہ غیر مسلمہ اور فرضی یونیورسٹیز کی ڈگری پیش کرتے ہوئے ملازمت حاصل کی گئی۔ بہار، یو پی ، کرناٹک اور ملک کے دیگر علاقوں میں بڑی تعداد میں فرضی اور غیر مسلمہ یونیورسٹیز کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ بتایا جاتا ہے کہ تقررات کے موقع پر اسی طرح کی ڈگریاں پیش کی گئیں اور یونیورسٹی کے حکام نے ان کی تصدیق کے بارے میں کوئی جانچ نہیں کی ، جس کے نتیجہ میں آج کئی افراد اہم عہدوں تک پہنچ چکے ہیں۔ یونیورسٹی میں جاری بے قاعدگیوں اور دھاندلیوں پر نظر رکھنے والے افراد کا ماننا ہے کہ اگر مرکزی حکومت یونیورسٹی کو تباہی سے بچانا چاہتی ہے اور یونیورسٹی کے معیار کو بلند کرنا مقصد ہو تو اسے چاہئے کہ تقررات میں استعمال کی گئی ڈگریوں کی جانچ کرے۔ بتایا جاتا ہے کہ فرضی اور جعلی ڈگریوںکے ذریعہ ملازمت حاصل کرنے والے بعض افراد آج پروفیسر اور ہیڈ آف دی ڈپارٹمنٹ کے عہدوں تک پہنچ چکے ہیں۔

بعض افراد ایسے ہیں جن کا تقرر کلرک کی حیثیت سے کیا گیا تھا اور 9 برس میں وہ پروفیسر بن گئے۔ بعد میں ڈین اور ہیڈ آف دی ڈپارٹمنٹ کے علاوہ انچارج رجسٹرار اور دیگر عہدوں پر فائز بھی ہوگئے۔ یونیورسٹی میں اقرباء پروری، علاقائی عصبیت اور مالیاتی بے قاعدگیوں کی کئی مثالیں موجود ہیں لیکن فرضی اور جعلی ڈگریوں پر تقررات کی اطلاعات میں اردو والوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ جو بھی وائس چانسلر یونیورسٹی پر فائز رہیں انہوں نے اپنے اطراف حواریوں کا حلقہ بنایا اور دہلی تک اثر انداز ہونے کیلئے مختلف طریقے استعمال کئے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ وائس چانسلر بھی اپنی میعاد کی تکمیل سے عین قبل بڑے پیمانہ پر تقررات عمل میں لا رہے ہیں۔ وائس چانسلر کی من مانی اور ہٹ دھرمی کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح انہوں نے دہلی تک اپنے اثر و رسوخ پیدا کرلئے ہیں۔ وائس چانسلر کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ دنوں منعقدہ اگزیکیٹیو کونسل اجلاس میں ایسے تمام فیصلوں کی منظوری حاصل کرلی گئی جو بعد میں وائس چانسلر کیلئے تنازعہ یا پھر مصیبت کا سبب بن سکتے تھے۔ اس بارے میں جب مختلف ماہرین تعلیم سے رائے حاصل کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی کے وائس چانسلرس نے قیام کے مقاصد کو تباہ کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔

جب تقررات فرضی اور جعلی ڈگریوں کی بنیاد پر ہوں تو پھر یونیورسٹی کے معیار کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ موجودہ وائس چانسلر ایک طرف اپنی میعاد میں توسیع کی کوشش کر رہے ہیں تو دوسری طرف یونیورسٹی گرانٹ کمیشن یا پھر کسی مرکزی ادارہ میں اہم ذمہ داری کیلئے سرگرداں ہیں۔ اگر حکومت فرضی ڈگریوں کے معاملہ کی جانچ کرائے گی تو بڑی تعداد میں ایسے افراد بے نقاب ہوں گے جو وائس چانسلر کی قربت کے باعث اہم عہدوں پر فائز ہیں۔ حالیہ عرصہ میں جن اہم عہدوں پر تقررات کیلئے اعلامیہ جاری کیا گیا، اس میں بھی بے قاعدگیوں کے اندیشے ظاہر کئے جارہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ سبکدوشی سے قبل وائس چانسلر اپنے حواریوں کے ذریعہ ایسے افراد کے تقرر کی کوشش کر رہے ہیں جو ان کے سفارشی ہوں۔ یونیورسٹی کی بے قاعدگیوں کے مسلسل انکشاف سے بوکھلاہٹ کا شکار وائس چانسلر نے شخصی طور پر وضاحت کرنے کے بجائے یونیورسٹی کے چار پروفیسرس کے نام پر بیان جاری کرایا۔ اگر یونیورسٹی تمام امور سے شفافیت پر مبنی ہے تو وائس چانسلر کو میڈیا کانفرنس منعقد کرتے ہوئے سوالات کا سامنا کرنا چاہئے ۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ جن چار پروفیسرس کے نام سے جو بیان جاری کیا گیا ،

ان کے تقررات پر سوالیہ نشان ہیں۔ دو پروفیسر غیر اردو داں ہیں جبکہ یونیورسٹی میں تقرر کیلئے اردو سے واقفیت لازمی ہے۔ دیگر دو پروفیسرس کے تقررات کی بھی تفصیلات حاصل کی جارہی ہیں جس کا جلد ہی انکشاف کیا جائے گا۔ بتایا جاتا ہے کہ جن پروفیسرس کے نام سے وضاحتی بیان جاری کیا گیا وہ خود اس بیان سے واقف نہیں اور انہوں نے نجی گفتگو میں بیان کی اجرائی سے لاعلمی کا اظہار کیا۔ جس طرح حقائق کو چھپانا ممکن نہیں ہوتا ، اسی طرح چار پروفیسرس کے نام سے جاری کردہ بیان میں اس بات کو تسلیم کیا گیا ہے کہ یونیورسٹی کے معاملات میں سب کچھ ٹھیک نہیں۔ ان پروفیسرس نے بے قاعدگیوں اور غلط فیصلوں کو درست کرنے کیلئے متعلقہ اداروں سے رجوع ہونے کی صلاح دی ہے اور کہا کہ غلطیوں کی اصلاح کیلئے مناسب انتظامی میکانزم موجود ہے۔ اس طرح خود یونیورسٹی کے پروفیسرس نے بے قاعدگیوں اور انتظامی خامیوں کا اعتراف کرلیا۔ مذکورہ پروفیسرس میں حقائق کے انکشاف سے طلبہ کے مفادات کے ساتھ اسٹاف کے مفادات کو نقصان کی بات کہی ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اسٹاف ان انکشافات سے خوف زدہ ہے جس کا حالیہ عرصہ میں اخبارات کی جانب سے کیا گیا ۔