اردو کا بے لوث خادم قمر حیات

محمد عادل

کسی بھی زبان کی خوبصورتی اس کے رسم الخط میں پوشیدہ ہوتی ہے ۔ زبانیں زندہ رہتی ہیں رسم الخط کی وجہ سے ، اسی بات کو لیکر اردو ٹیچر محمد قمر حیات اردو سکھانے کا کام گذشتہ 35 برس سے کرتے ہوئے 102 بیچ مکمل کرچکے ہیں ۔ ناگپور کے رانی جھانسی چوک پر واقع ودربھ ساہتیہ سنگھ کے ہال میں روزانہ شام کے وقت ایک قابل لحاظ گروہ اردو سیکھنے کے لئے اکٹھا ہوتا ہے ۔ اس گروہ میں بارہ سال کے بچوں سے لیکر 80 سال کے بوڑھے تک اردو لکھنے اور پڑھنے کا ہنر سیکھنے کے لئے شامل ہوتے ہیں اور وہ بھی تین ماہ کی قلیل مدت میں ۔ ان کے شوق کی کئی وجوہات ہیں ۔ کچھ لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ فلمی دنیا کے گیتوں اور مکالموں کو اچھی طرح سمجھ سکیں اور کچھ لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ غزل اور اس کے اشعار کو صحیح لکھ سکیں اور سمجھ سکیں اور ساتھ ہی تہذیبی طور پر مالا مال ہوسکیں ۔ اس زبان کو اہل زبان کی طرح بول سکیں پھر وہ لوگ بھی ان میں شامل ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اس زبان کو سیکھنے کے بعد اس سے وابستہ تہذیب کا علم بھی حاصل کرسکیں گے ۔
کمپیوٹر انجینئر ابھیشک ورما کا کہنا ہے کہ اس کورس میں شامل ہو کر انھوں نے بہت کچھ سیکھا ہے ۔ اردو زبان کا علم شخصیت میں نکھار پیدا کردیتا ہے کیونکہ یہ بہت ہی شیریں اور مہذب زبان ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس کورس میں بنیادی علم حاصل کیا ہے اور اب اس کو مزید بڑھا رہے ہیں ۔
نرم لب ولہجہ والے 70 سالہ اردو ٹیچر محمد قمر حیات کا کہنا ہے کہ میں اردو کی یہ کلاس 1979ء سے چلا رہا ہوں ۔ اس زمانے میں ، میں ناگپور کارپوریشن میں اردو ٹیچر کی حیثیت سے کام کررہا تھا ، لوگ میرے پاس آتے اور کہا کرتے تھے کہ وہ اس زبان کو سیکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ غزل اور شعر و شاعری کو سن کر اور پڑھ کر لطف اندوز ہوسکیں ۔ مدرس کی حیثیت سے میرا طریقہ کار سادہ اور پرلطف ہوتا ہے ۔ ابتداء میں ہی میں اپنے طلباء سے کہتا ہوں کہ ابھی تک آپ نے بائیں سے دائیں لکھنا سیکھا تھا لیکن اب وقت آگیا ہے دائیں سے بائیں حرکت کریں ۔ قمر حیات کے پہلے ہی بیچ میں انیل دیشمکھ سابق وزیر مہاراشٹرا اور مشہور آرٹسٹ بھاؤ سمرتھ جیسی ہستیوں نے طالب علم کی حیثیت سے شرکت کی تھی ۔ مقامی اسکول میں کام کرنے والے سواپنل جٹکر کا کہنا ہے کہ فلم اور میوزک کے شوق نے انھیں اردو سیکھنے کی طرف راغب کیا اور میں نے گیتوں اور غزلوں کو بہتر طور پر سمجھنے کے لئے قمر حیات صاحب کے اس کورس میں داخلہ لیا لیکن ایک مرتبہ میں نے سیکھنا شروع کیا تو مجھے اس زبان سے محبت ہوگئی اور کورس کی تکمیل کے بعد اب تو وہ نیٹ پر اردو کے اخبار بھی پڑھ سکتے ہیں ۔
ایک غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ اردو پاکستان کی زبان ہے حالانکہ حقیقت یہ ہیکہ اردو ہندوستان میں پیدا ہوئی ، پھلی پھولی ۔ اردو میں سنسکرت کے بھی الفاظ پائے جاتے ہیں ۔ قمر حیات کا کہنا ہے کہ اردو ایک لشکری بھاشا ہے ۔ یعنی وہ زبان جو فوج میں بولی جاتی تھی ۔ بینک میں ملازمت کرنے والے اور سنسکرت زبان کے اسکالر منیش کھانورکر کا کہنا ہے جب انھوں نے اس کلاس میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تو لوگوں نے پوچھنا شروع کردیا کہ کیا میں اسلام دھرم قبول کرنے والا ہوں ۔ لیکن میں نے اس کلاس میں داخلہ لیا کیونکہ میں ایک مسلم اکثریتی علاقے یشودرا نگر میں رہتا ہوں ، جہاں بہت سے سائن بورڈ اردو رسم الخط میں لکھے ہوئے ہیں ۔ ان بورڈوں میں کیا لکھا ہوا ہے یہ جاننے کا تجسس انھیں اردو کلاس تک لے آیا ۔ وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے تھوڑی بہت اردو سیکھ لی ہے اور اب کتابیں پڑھ کر وہ اپنے علم کو مزید بڑھارہے ہیں ۔ قمر حیات صاحب ہندی اور مراٹھی ٹیچر کے اشتراک سے اپنا نصاب تشکیل دیا ہے ۔ اس طرح سمجھنے اور سمجھانے میں آسانی ہوگئی ۔ 3 ماہ کے کورس کو کامیابی سے مکمل کرنے پر ودربھ ساہتیہ سنگھ طلباء کو سرٹیفیکٹ بھی تقسیم کرتا ہے ۔ اردو مدرس نے بتایا کہ 103 ویں بیچ کا آغاز ماہ فروری کے پہلے ہفتے سے ہوگی ۔ مزید معلومات کیلئے قمر حیات سے اس موبائل نمبر پر رابطہ کیا جاسکتا ہے 09890326223 ۔