اردو میں مستعمل فارسی ضرب الامثال

صابر علی سیوانی
۱۲۔آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہاداری (جو بات ساری دنیا کے حسینوں میں ہے وہ تمہارے ذات واحد میں موجود ہے) ۔ یہ مقولہ کسی شخص کی تعریف و تحسین کے لئے مبالغہ آرائی کا سہارا لیتے ہوئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ ساری دنیا ایک طرف اور آپ ایک طرف ۔ یعنی ساری دنیا کے مقابلے میں آپ کی تنہا ذات پیش کی جاسکتی ہے ۔ آپ اپنی خصوصیات و اوصاف میں بے مثال ہیں ۔ آپ کا کسی اور سے کیا مقابلہ ہوسکتا ہے لیکن اس مقولے میں مبالغہ کا عنصر واضح طور پر نظر آتا ہے جو بعید از حقیقت نظر آتا ہے ۔
۱۳ ۔ سپردم بتومایۂ خویش را ۔ تو دانی حساب کم و بیش را (میں نے اپنی زندگی کا پورا سرمایہ آپ کے حوالے کردیا ہے ۔ اب آپ ہی کمی بیشی کا حساب جانتے ہیں کہ حق ادا ہوا کہ نہیں) بعض دفعہ پورا شعرہی ضرب المثل کی شکل اختیار کرلیتا ہے ، جس کی مثال یہ شعر ہے ۔ جب کوئی فنکار یا تخلیق کار اپنی پوری صلاحیت کا استعمال کرکے کوئی شاہکار پیش کرتا ہے اور وہ لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہوئے اپنی فروتنی اور خاکساری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں نے حتی المقدور کوشش کرکے اپنی تخلیق (کتاب یا ادبی نگارش) آپ کے سامنے پیش کی ہے ۔

اب آپ ہی فیصلہ کرسکتے ہیں کہ میں اپنی کوشش میں کس حد تک کامیاب ہوپایا ہوں ۔
۱۴ ۔ ببیں تفاوتِ رہ از کجاست تابہ کجُا (دیکھو تو سہی کہ ہماری راہ کا فرق کہاں سے کہاں جاپہنچا ہے) دراصل یہ حافظ شیرازی کے ایک مشہور شعر کا مشہور مصرع ہے ۔ شعر یوں ہے : صلاحِ کار کجا ومنِ خراب کجا ۔ ببیں تفاوت رہ از کجاست تا بکجُا ۔ یعنی میرا خیر خواہ کس فکر میں ہے اور میں خود کس خیال میں ہوں ۔ دیکھو تو سہی کہ ہماری راہ کا فرق کہاں سے کہاں جاپہنچا ہے ۔ دراصل مصرع بالا جس کی وضاحت مقصود ہے ، یہ مصرع اپنے اور کسی دوسرے شخص کے مؤقف یا نقطۂ نظر کے فرق کی وضاحت کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ گویا اتنے بڑے فرق کے ہوتے ہوئے بھلا سمجھوتے کی کیا صورت ہوسکتی ہے ؟ اس مصرع کو ایک دوسرے موقع پر بھی استعمال کیا جاتا ہے جب کوئی شخص دو فنکاروں یا دو بڑی شخصیتوں کا تقابل کررہا ہو ، جس میں دونوں کی صفات و خصائص ایک دوسرے سے بالکل جداگانہ ہوں یا ایک دوسرے سے کوئی موازنہ ہی نہیں ہوسکتا ہو تو ایسے موقع پر کہا جاتا ہے کہ ’’ببیں تفاوتِ رہ از کجاست تابکجُا‘‘ ۔ یعنی دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔
۱۵ ۔ چُناں نہ ماندو چنیں نیز ہم نہ خواہد ماند (وہ باقی نہیں رہا ، اور یہ بھی باقی نہیں رہے گا) زمانہ کے تغیرات کو ہی دوام حاصل ہے ۔ وقت کو ثبات حاصل نہیں ہے یہ ہمیشہ گردش کرتا رہتا ہے ۔ یہاں ہر وقت انقلاب رونما ہوتا رہتا ہے کسی بھی انسان کا وقت یکساں نہیں رہتا ہے ۔ کبھی ایک شخص دولت سے مالا مال رہتا ہے اور دیکھتے دیکھتے وہ دوسروں کا محتاج بن جاتا ہے ۔ کسی شاعر کا ایک بہت ہی مشہور شعر ہے ۔
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں

حالات تغیر پذیر ہوتے ہیں جو کل تھا وہ آج نہیں ہے اور جو آج ہے وہ کل نہیں ہوگا ۔ قدرت کا یہ نظام اٹل ہے اس میں تبدیلی نہیں ہوسکتی ہے ۔ اسی جانب مصرع بالا میں اشارہ کیا گیا ہے ۔ اس مصرع میں یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ جس طرح گزرا ہوا وقت اپنی راہ چلا گیا ، اسی طرح آج کا وقت بھی بہت جلد ماضی کا حصہ بن کر قصۂ پارینہ بن جائے گا ۔
۱۶ ۔ ملکِ خدا تنگ نیست ، پائے گدالنگ نیست (خدا کا ملک تنگ نہیں اور فقیروں کا پاؤں لنگڑا نہیں) کوشش کرنے والے انسان کے لئے کوئی کام مشکل نہیں ہوتا ۔ کوشش کرنے کا ہر جگہ موقع ہے ۔ اگر ایک شخص کو اس کی کوشش کے باوجود کسی مقصد میں کامیابی حاصل نہیں ہوپاتی ہے تو اسے دوسری جگہ اپنے مقصد کے حصول کی خاطر کوشش کرنی چاہئے کیونکہ دنیا بہت بڑی ہے اور کوشش کرنے والوں کی کبھی ہار نہیں ہوتی ہے۔ یہاں نہ سہی وہاں کام تو بن ہی جاتا ہے ۔ اس مقولہ میں ان لوگوں کے لئے ایک سبق بھی پوشیدہ ہے جو کسی کام میں کامیابی حاصل نہ ہونے کی وجہ سے ہمت ہار کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ انھیں ہمت نہیں ہارنی چاہئے اور کوشش جاری رکھنی چاہئے کیونکہ ملک خدا تنگ نیست ، پائے گدا لنگ نیست ۔

۱۷ ۔ افسردہ دل افسردہ کند انجمنے را (غمگین دل پورے انجمن کو افسردہ و رنجیدہ بنادیتا ہے) کوئی شخص جب کسی محفل میں جاتا ہے اور اس کے چہرے پر رنجیدگی کے آثار ہوتے ہیں یا وہ شخص محفل میں کچھ ایسی دردناک باتیں سناتا ہے جس سے اس کا دل افسردہ ہوتا ہے ، تو اسے سن کر پوری محفل رنجیدہ و غمگین ہوجاتی ہے ۔ جبکہ کوئی تبسم آمیز گفتگو کرتا ہے تو دوسروں کے لبوں پر بھی مسکراہٹ رقصاں ہوجاتی ہے ۔ افسردگی و پژمردگی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے لوگوں میں خوشیاں بانٹنی چاہئے ۔
۱۸ ۔ شود ہم پیشہ باہم پیشہ دشمن (ہم پیشہ آدمی دوسرے ہم پیشہ شخص کا دشمن ہوتا ہے) یہ بات عام طور پر دیکھی جاتی ہے کہ ایک ہی پیشے سے وابستہ لوگ ایک دوسرے سے حسد ، جلن اور کینہ رکھتے ہیں ۔ ان میں کم صلاحیت والا انسان احساس کمتری کا شکار ہوتا ہے اور ایک باصلاحیت ہم پیشہ شخص سے اس کی ترقی ، مقبولیت اور ہردلعزیزی کی وجہ سے اسے جلن ہوتی ہے ۔ اسے یہ لگنے لگتا ہے کہ مجھے کوئی بھی نہیں پوچھ رہا ہے اور ہمارے ہم پیشہ دوسرے شخص کی بہت پذیرائی ہورہی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چونکہ ہم پیشہ لوگ اپنے میدان میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں ۔ کبھی کبھی اس سبقت لے جانے کی کوشش میں روزی روٹی کا معاملہ بھی سامنے آجاتا ہے ۔ اس لئے ان کا ایک دوسرے کی مخالفت بھی فطری ہوتی ہے ۔ تجربہ کار لوگوں کا کہنا ہے کہ اکثر وبیشتر کسی شخص کو سب سے زیادہ نقصان اس کے ہم پیشہ افراد سے ہی ہوتا ہے وہ الزام تراشی ، غیبت ، دروغ گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ہم پیشہ فرد کو نقصان پہنچانے میں کامیاب ہوجاتا ہے ۔

۱۹۔ بریں عقل و دانش بباید گریست (ایسی عقل و دانش پر تو رونا چاہئے)۔ اس محاورہ کا استعمال اس وقت کیا جاتا ہے ، جب کوئی شخص بے سر پیر َکی باتیں کرے جس کا جواب دینا خود کو اس شخص کی سطح پر لے جانے کے مترادف ہو ۔ ایسے شخص کی عقل و دانش پر سوائے افسوس کے اور کیا کیا جاسکتا ہے بلکہ اس کے لئے تو فارسی کا ایک دوسرا مقولہ درست ثابت ہوتا ہے کہ ’’جواب جاہلاں خاموشی باشد‘‘ یعنی جاہلوں کے سوال کا جواب دینے سے بہتر خاموشی اختیار کرنا ہوتا ہے ۔
۲۰ ۔ آزمودہ را آزمودن خطاست (آزمائے ہوئے شخص کو دوبارہ آزمانا غلطی ہے) اگر کسی شخص سے معاملات کرنے کا موقع ہاتھ آیا ہو اور اس نے اپنے معاملات میں سنجیدگی نہ دکھائی ہو اور جھوٹ بول کر اپنا کام نکالنے کی کوشش کی ہو تو دوبارہ صاحب معاملہ سے بھلے ہی معافی مانگے یا دوبارہ غلطی نہ دہرانے کی بات کہے ۔ اس کے باوجود اس پر بھروسہ نہیں کرنا چاہئے ، کیونکہ وہ دوبارہ ویسی ہی حرکت کرے گا جیسی حرکت پہلے کرچکا ہے ۔ کیونکہ فریب دہی اور دروغ گوئی اس کی فطرت میں شامل ہوتی ہے ۔ اس لئے کہا جاتا ہے آزمائے ہوئے کو دوبارہ آزمانا بیوقوفی ہے ۔

۲۰۔ داشتہ آید بکار ۔ گرچہ باشد سرِمار (رکھی ہوئی چیز کبھی نہ کبھی کام آتی ہے چاہے وہ سانپ کا سر ہی کیوں نہ ہو) وہ لوگ جو معمولی اور وقتی طور پر بے مصرف سمجھ کر کسی چیز کو پھینک دیتے ہیں ، لیکن ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ انھیں احساس ہوتا ہے کہ جو چیز میں نے فلاں وقت اور فلاں جگہ پھینک دی تھی ، وہ اس وقت ہوتی تو میرے کام آتی ۔ اس لئے کسی بھی معمولی چیز کو بھی حفاظت سے رکھنی چاہئے ۔ نہ جانے کب اس کی ضرورت پڑجائے ۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ داشتہ آید بکار ، گرچہ باشد سرِمار ۔ یعنی رکھی ہوئی چیز کبھی نہ کبھی ضرور کام آجاتی ہے بھلے ہی کسی سانپ کا سر ہی کیوں نہ ہو ۔ وہ بھی ایک دن کام آجاتا ہے ۔
۲۱ ۔ درکارِ خیر حاجتِ ہیچ استخارہ نیست (اچھا کام کرنے کے لئے استخارہ کی ضرورت نہیں) جب کسی کام میں انسان پس و پیش محسوس کرے اسے ایسا لگے کہ اس کام کو کرنے میں نفع ہے یا نقصان تو ایسے وقت استخارہ کی ہدایت کی گئی ہے۔ یہ ایک اسلامی طریقہ ہے ۔ اس میں ایک مخصوص دعا پڑھی جاتی ہے اور پھر جس کام کے تئیں دل گواہی دیتا ہے کہ یہ کام کرنا چاہئے اسے کیا جاتا ہے ۔ لیکن جس کام کو کرنے میں صرف خیر ہی خیر پوشیدہ ہو ، اس کام کو کرنے میں استخارہ کی کیا ضرورت ہے ۔ بس نیکی کر دریا میں ڈال والے محاورے پر عمل کرنا چاہئے اور نتیجہ یا صلہ کی پروا سے بے خبر ہوجانا چاہئے ۔

۲۲ ۔ چاہ کنَ راچاہ درپیش (کنواں کھودنے والا پہلے خود ہی کنویں میں جاتا ہے) برائی کرنے والا خود ہی برائی کا شکار ہوجاتا ہے ۔ جب کوئی شخص کسی کی برائی کرتا ہے تو سب سے پہلے اس کی زبان ناپاک ہوتی ہے ۔ یا وہ شخص جو کسی کی برائی چاہتا ہے ، وہ خود بھی ایک نہ ایک دن اس برائی کی پاداش میں سخت آزمائش و امتحان میں گھر جاتا ہے ۔ کیونکہ جو شخص کسی کے لئے کنواں کھودتا ہے تو پہلے اسے اس کنویں کی گہرائی تک جانا پڑتا ہے ۔اس لئے کہا جاتا ہے کہ برائی کا بدلہ کبھی اچھائی نہیں ملتا ہے ، برائی ہی ملتا ہے ۔

۲۳ ۔ بزرگی بہ عقل است نہ بسال (بزرگی عقل سے ہوتی ہے عمر سے نہیں) یہ شیخ سعدی شیرازی کے ایک شعر کا مصرع ہے ۔ پورا شعرا اس طرح ہے ۔ تونگری بہ دل است نہ بمال ۔ بزرگی بہ عقل است نہ بسال ۔ یعنی مالداری دل سے ہوتی ہے مال سے نہیں اور بزرگی عقل سے ہوتی ہے عمر رسیدگی کی وجہ سے نہیں ۔ اکثر مالداروں کے پاس دل نہیں ہوتا ہے جبکہ اکثر دلدار لوگوں کے پاس دولت نہیں ہوتی ہے ۔ اس لئے اگر کوئی چھوٹا یا کم عمر انسان عقل کی بات کہے تو اس کی عمر کی کمسنی کی وجہ سے اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس میں اگر وزن ہو تو اسے قبول کرنا چاہئے کیونکہ یہ ضروری نہیں ہے کہ جس کی عمر زیادہ ہو وہ عقلمند بھی ہو کیونکہ عقل کا تعلق عمر سے نہیں ہوتا ہے ۔ کوئی بھی شخص عقلمند ہوسکتا ہے اس کے لئے کمسنی یا عمر رسیدگی کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے ۔

۲۴ ۔ ہر کمالے راز والے (انتہائی ترقی کے بعد زوال شروع ہوتا ہے)۔ اکثر و بیشتر ایسا ہوتا ہے کہ انسان جب بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے تو وہ یہ بھول جاتا ہے کہ وہ جس بلندی پر بیٹھا ہے ، وہ وقتی ہے ۔ اس کے بعد تنزلی اس کے مقدر میں آنے والی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتا ہے ۔ اپنے علاوہ دوسروں کو کمتر اور حقیر تصور کرتا ہے ۔ کسی کی بات آسانی سے نہیں سنتا ہے جبکہ اسے اپنی ترقی کی ناپائیداری پر توجہ دینی چاہئے ۔ ایسے ہی شخص کو اس کی اصل اوقات بتانے کے لئے کہا جاتا ہے ’’ہر کمالے راز والے‘‘ ۔
۲۵ ۔ ایں سعادت بزورِ بازو نیست (یہ سعادت بازو کی قوت کی وجہ سے نہیں ہے) یہ مصرع اس شعر کا پہلا مصرع ہے ۔ ایں سعادت بزور بازو نیست ۔ تانہ بخشد خدائے بخشندہ ۔ جب تک عطا کرنے والا خدا کسی کو کوئی مرتبہ ، صلاحیت اور عزت نہ عطا کرے کسی شخص کے بازو کی طاقت سے وہ رتبہ یا وہ صلاحیت و عزت حاصل نہیں ہوتی ہے ۔ اکثر و بیشتر لوگ اس شعر کا استعمال خدا کی بزرگی اور اپنی خاکساری کا اظہار کرنے کے لئے لکھتے ہیں کہ میں نے جو کچھ بھی پیش کیا ہے اس میں اللہ کی مدد اور اس کی ودیعت کردہ صلاحیت کا ہی عمل دخل ہے ۔ اس میں میرا کچھ بھی حصہ نہیں ہے ۔

۲۶ ۔ گرُبہ کشتن روز اول (بلی کو پہلے ہی دن مارنا بہتر ہوتا ہے) یعنی رعب پہلے ہی دن بیٹھتا ہے ۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ انسان کسی پر رعب ڈالنا چاہے تو پہلے ہی دن اس کا مظاہرہ کرنا چاہئے ۔ ورنہ وہ شخص اگلے انسان کی نفسیات سے آگاہ ہوجائے گا اور بعد میں وہ لاکھ اس پر دھونس جمانا چاہے ، اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا ۔ عام طور پر لوگ نوجوانوں کو یہی مشورہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں جب اس کی شادی ہو تو روز اول ہی اگر آپ نے اپنی بیوی پر رعب نہیں جمایا تو بعد میں آپ اپنی بیوی پر رعب نہیں بٹھاسکتے ۔ کیونکہ پہلا تاثر ہی آخر دم تک اپنا اثر قائم رکھتا ہے ۔
۲۷ ۔ جائے استاد خالیست (استاد کی جگہ ہمیشہ خالی رہتی ہے) شاگرد چاہے جتنی بھی ترقی کرجائے ۔ آگے بڑھ جائے ۔ علم و فضل کا مالک بن جائے ، لیکن اس کے باوجود استاد اس موقف میں رہتا ہے کہ اسے کچھ نہ کچھ سکھائے ۔ یعنی شاگرد کتنا بھی آگے بڑھ جائے وہ استادکا مقابلہ نہیں کرسکتا ہے اور اسے کرنا بھی نہیں چاہئے ۔ کیونکہ استاد کی وجہ سے ہی اسے وہ عزت و منزلت اور رتبہ حاصل ہوتا ہے جس کی اسے توقع تک نہیں ہوتی ہے ۔اس لئے کہا جاتا ہے کہ ’’جائے استاد خالیست‘‘ ۔

۲۸ ۔ صدر ہر جا کہ نشیند صدراست (صدر جہاں بھی بیٹھ جائے وہ صدر ہی ہوتا ہے) ۔ یعنی بزرگ ، حاکم یا کوئی بڑا آدمی ، جہاں بھی بیٹھ جائے وہی جگہ معزز سمجھی جاتی ہے ۔ صدر کے لئے ضروری نہیں کہ وہ اسٹیج پر ہی بیٹھے تو اسے صدر کہا جائے گا بلکہ وہ عام سامعین میں بھی بیٹھے تو وہ صدر ہی کہلاتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بزرگ شخصیت کا حامل کوئی بھی انسان چاہے ، جہاں بھی رہے اس کا مقام کسی اچھی یا بری جگہ کی وجہ سے کم نہیں ہوتا ہے وہ ہر جگہ معزز ہی تصور کیا جاتا ہے ۔
۲۹ ۔ شنیدہ کیَ بود مانند دیدہ (سنا ہوا کب دیکھے ہوئے کے برابر ہوسکتا ہے) یعنی سنی ہوئی بات کی کوئی وقعت نہیں ہوتی ہے جب تک اس بات کی حقیقت کے متعلق خود مشاہدہ نہ کیا جائے ۔ کسی واقعے کے بارے میں کوئی شخص اپنی طرف سے بڑھا چڑھا کر کچھ بھی بول سکتا ہے ، لیکن جب آپ اس واقعے کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کریں تو آپ کو حقیقت کا علم ہوجاتا ہے اور پوری سچائی سامنے آجاتی ہے ۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ سنی ہوئی باتوں پر بھروسہ نہیں کرنا چاہئے جب تک اس کی پوری تحقیق نہ ہوجائے ۔

۳۰ ۔ تامرد سخن نگفتہ باشد ۔ عیب و ہنرش نہفتہ باشد (جب تک کوئی شخص کچھ کہنے کے لئے اپنی زبان نہیں کھولتا ، اس کے عیب و ہنر اس وقت تک پوشیدہ رہتے ہیں) عام طور پر کسی خاموش مزاج انسان کے تئیں غلط رائے قائم کرلی جاتی ہے ، لیکن جب وہ بولتا ہے تو اس کی صلاحیت ، اس کا نظریہ ، اس کی فکر اور اس کی علمی وسعت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ اس لئے کسی بھی شخص کے بارے میں اس وقت تک کوئی رائے قائم نہیں کرنی چاہئے جب تک وہ خاموش رہے ۔ کیونکہ آپ اس کی خوبیوں اور خامیوں سے اس وقت تک واقف نہیں ہوتے جب تک وہ اپنی زبان نہیں کھولتا ہے ۔ کبھی کبھی لوگ اپنی کم علمی چھپانے کے لئے بھی خاموش رہتے ہیں ، اور کبھی مصلحتاً بھی بعض افراد خاموشی اختیار کئے ہوئے ہوتے ہیں۔ کیونکہ محفل میں ہر شخص بولنے کی ہمت نہیں کرتا ہے ۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ جب کسی کے بارے میں جاننا چاہو تو اس کے بارے میں دوسروں سے مت پوچھو بلکہ اس سے خود گفتگو کرو ، پھر اس کے عیب و ہنر ، اس کی علمیت اور اس کی فکری بصیرت سامنے آجائے گی ۔ جو لوگ کسی کے خیالات جانے بغیر اس کے بارے میں غلط رائے قائم کرلیتے ہیں تو تجربہ کار افراد کہتے ہیں کہ تامرد سخن نگفتہ باشد ۔ عیب و ہنرش نہفتہ باشد
فارسی کے مذکورہ مقولے ، محاورے ، اقوال ، اشعار ، مصرعے اور ضرب الامثال ایسی معنویت لئے ہوئے ہیں جن کے نعم البدل اردو میں موجود نہیں ہیں اس لئے تحریر و تقریر میں ان مقولوں کی معنویت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے ، کیونکہ اس میں تجربے کی ایک دنیا پوشیدہ ہوتی ہے جو حقائق پر مبنی ہوتی ہے ۔
mdsabirali70@gmail.com