اردو میں مستعمل فارسی ضرب الامثال

صابر علی سیوانی
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اچھی شعری تخلیق پیش کرنے یا بہترین اردو ادب کو منصۂ شہود پر لانے کے لئے فارسی زبان کا علم ضروری ہے ۔کسی بھی نامور ادیب یا شاعر کی تخلیقات کا مطالعہ کیجئے تو اس نظریئے کی صداقت سامنے آجائے گی اور اندازہ ہوجائے گا کہ شاعر یا تخلیق کار فارسی زبان کا علم ضرور رکھتا ہے ۔ روایتی غزل گوئی ہو یا عوامی شاعری ، ترقی پسند شاعری ہو یا جدید ادب ، فارسی سے چشم پوشی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے ۔ جدید غزل کے پرستار جو روایتی اردو غزل گوئی سے کلی طور پر منحرف ہیں اور اپنی شاعرانہ کاوشوں کو عوامی بنانے کی کوشش میں سرگرم ہیں ، وہ بھی فارسی کے بغیر اپنے ضمیر کی بات بہتر طور پر نہیں ادا کرسکتے ہیں ۔ عربی اور فارسی کے ہزاروں الفاظ ، محاورے ، فقرے ، جملے ، ضرب الامثال اردو روزمرہ کے جزو لاینفک بن چکے ہیں اور اب کیفیت یہ ہے کہ ان کو اردو زبان سے خارج ہی نہیں کیا جاسکتا ہے ، بلکہ کچھ فقرے اور محاورے تو اس طرح سے زبان زد خاص و عام ہوچکے ہیں کہ انھیں ان کی روزمرہ کی گفتگو سے بھی الگ نہیں کیا جاسکتا ہے ۔

اردو میں خاص طور پر ادب و شعر میں فارسی مصرعے ، فقرے اور محاورے ضرب الامثال کے طور پر ہمیشہ ہی زیر استعمال رہے ہیں ، لیکن زمانے کے تغیرات اور انگریزی زبان کی سرعت کے ساتھ اثر پذیری نے اردو زبان پر انگریزی کے غلبہ کی روایت کو فروغ دینے کا کام کیا ہے ۔ اب تو حالت یہ ہے کہ کوئی بڑا ادیب ، دانشور یا شاعر جب تک اپنی تحریروں میں انگریزی کے الفاظ جا بجا استعمال نہیں کرتا ہے تو اسے اطمینان ہی نہیں ہوتا ہے ، حالانکہ وہ جن انگریزی الفاظ کا استعمال اپنی تحریروں میں کرتا ہے اس کے متبادل نہایت خوبصورت ، معنویت سے پُر اور سہل الفہم لفظیات اردو میں موجود ہیں بلکہ مستعمل بھی ہیں ، لیکن اسے تو زمانے کے شانہ بشانہ چلنے اور انگریزی دانی کا زعم دکھانا مقصود ہوتا ہے ۔ جب ایسی روایت کی اتباع کرنے کا رجحان فروغ پاچکا ہو تو بھلا ایسی حالت میں ان فارسی محاوروں ، فقروں اور ضرب الامثال کی طرف توجہ کی کسے فکر ہوگی ، جن سے صدیوں سے ہماراگلستانِ ادب معطر رہا ہے ۔ زیر نظر مضمون میں ایسے ہی فارسی محاوروں ، مصرعوں ، فقروں اور ضرب الامثال کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ، جن کا اردو میں عام طور پر استعمال ہوتا رہا ہے اور جن میں سے بعض اب بھی مستعمل ہیں ، لیکن وقت کے ہاتھوں انھیں پامال ہو کر ہمارے ادب کے منظرنامے سے غائب ہونے کا خطرہ لاحق ہوچکا ہے ۔ یہاں اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ ان فارسی فقروں ، مصرعوں اور محاروں کا لفظی ترجمہ نہیں کیا جائے بلکہ اس بات کی سعی کی گئی ہے کہ ان کی معنویت بھی ان کے ترجمہ سے ظاہر ہوجائے اور قاری کا ذہن اسے آسانی سے قبول کرسکے ۔

(۱) خطائے بزرگان گرفتن خطاست (بزرگوں کی غلطیوں کی گرفت خود ایک خطا ہے) ۔ ہندوستانی تہذیب اس بات کی اجازت نہیں دیتی ہے کہ بڑوں کی غلطیوں پر انگلی اٹھائی جائے ۔ ان کی غلطیوں کو خاموشی سے نظر انداز کردینا بہتر تصور کیا جاتا ہے ۔ اس کا یہ نتیجہ نہیں اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ان سے غلطی سرزد نہیں ہوتی ہے یا ہر بات میں ان کی اندھی تقلید کی جانی چاہئے ، بلکہ ان کی بزرگی اور عمر رسیدگی کے باعث احتراماً ان کی غلطیوں کو نظر انداز کردینے کی روایت ہماری تہذیب کی ایک صحت مند علامت ہے ۔ اس فقرے کا مطلب صرف اس قدر ہے کہ ان کی خطاؤں کی نشاندہی اور گرفت کرکے انھیں شرمندہ کرنا بجائے خود غلط ہے اور اس سے اجتناب مستحسن قرار دیا جاتا ہے ، لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ بعض بزرگ افراد اپنی عمر رسیدگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسی غلطیاں بار بار دہراتے ہیں ، جن کا اعادہ نہیں ہونا چاہئے اور وہ یہ سوچتے ہیں کہ ہم بزرگ ہیں ، ہماری ہر جائز اور ناجائز بات تسلیم کی جائے ۔ اس لئے ایسے بزرگوں کی خطاؤں کی نشاندہی بھی ضرور کی جانی چاہئے تاکہ انھیں احساس ہوسکے کہ اب زمانہ بدل چکا ہے اور زمانے کی روش پر چل کر ہی باعزت زندگی گزاری جاسکتی ہے ۔

(۲) پدرم سلطان بود ، تُراچہ ؟ (میرا باپ بادشاہ تھا ۔ تیرا باپ کیا ہے؟) یہ فقرہ کم علمی اور شیخی بگھارنے والا ہے ۔ یہ فقرہ وہ لوگ استعمال کرتے ہیں ، جو اپنی برتری ، بڑائی اور فضیلت بہ زبان خود بیان کرنا چاہتے ہیں ۔ گویا آبا واجداد کے کارناموں پر خود اپنی نام نہاد کامیابی کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں ۔ سیاق و سباق سے ظاہر ہوتا ہے کہ ثقہ اور سنجیدہ حلقوں میں ایسی شیخی کا اظہار مستحسن شمار نہیں کیا جاتا ہے ، کیونکہ انسان کی فضیلت و برتری کا شمار اس کی اپنی حصولیابیوں کی وجہ سے ہوتا ہے نہ کہ آبا و اجداد کی عزت و عظمت کے حوالے سے ۔

(۳) گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل (اگر بولوں تو مشکل اور نہ بولوں تو بھی مشکل ہے) کبھی ایسی حالت پیدا ہوجاتی ہے کہ انسان کو خاموش رہنے اور بولنے دونوں صورتوں میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے ۔ ایسے موقع پر اس مصرعے کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ یہ مصرع مرزا غالب کے ایک قطعہ سے اخذ کردہ ہے ۔ اس مصرعے کا ایسے وقت استعمال کیا جاتا ہے جب کوئی شخص یہ محسوس کرے کہ اگر وہ اپنی صفائی میں کسی مسئلہ کی صراحت کے سلسلے میں کچھ بولتا ہے تو اس کی کوئی نہیں سنتا ہے اور اگر وہ خاموش رہتا ہے تو بھی اسے مورد الزام قرار دیا جاتا ہے ۔ اس مصرعے کے وجود میں آنے کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ مرزا غالب نے جب شاعری شروع کی تو ابتدائی دور میں بہت مشکل اشعار کہا کرتے تھے ، جو بیشتر لوگوں کی سمجھ سے بالاتر ہوتے تھے ۔ غالب کی اسی مشکل پسندی پر ایک مشہور مقامی شاعر آغا جان عیشؔ نے یہ قطعہ موزوں کردیا ۔
اگر اپنا کہا تم آپ ہی سمجھے تو کیا سمجھے
مزا کہنے کا جب ہے ، اک کہے اور دوسرا سمجھے
کلامِ میر سمجھے اور زبانِ میرزا سمجھے
مگر ان کا کہا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے
آغا جان عیش کے اس قطعہ کے جواب میں مرزا غالب نے درج ذیل رباعی کہی ، جس کا ایک مصرعہ جو فارسی میں تھا ، ضرب المثل کی حیثیت اختیار گرگیا ۔ ملاحظہ کیجئے غالب کی عیشؔ کے جواب میں کہی گئی یہ رباعی:۔
مشکل ہے زبس کلام میرا اے دل!
سن سن کے اسے سخنورانِ کامل
آسان کہنے کی کرتے ہیں فرمائش
گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل
غالب کا یہ مصرع عوام کے درمیان غلط طور پر ’’گویا مشکل نہ گویا مشکل‘‘ مستعمل ہوچکا ہے ۔

(۴) من تُرا حاجی بگویم تو مُرا ملا بگو (میں تجھے حاجی کہتا ہوں اور تو مجھ کو ملا کہہ) یہ محاورہ عام طور پر ’’من تیرا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو‘‘ کے طور پر مشہور ہے ، لیکن’’ حاجی بگو‘‘ کی بجائے ’’ملاّ بگو‘‘ درست ہے ۔ اکثر و بیشتر یہ دیکھا جاتا ہے کہ لوگ آپس میں گٹھ جوڑ کرلیتے ہیں ۔ ایک دوسرے کی تعریف کرکے لوگوں پر اپنی نام نہاد برتری ثابت کرنے کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ آج کل ادب میں یہ طریقہ عام ہوگیا ہے ۔ ایک ادیب دوسرے ادیب کی تعریف کرتا ہے اور دوسرا ادیب اس کی شان میں قصیدے پڑھتا ہے جو اس کی تعریف کرتا ہے ۔ عام طور پر کتابوں کے تبصرے کے معاملے میں یہ عام سی بات ہو کر رہ گئی ہے ۔ یہ مقولہ ان کے اس کم باسواد باہمی معاہدہ کی جانب ایک بلیغ اشارہ ہے ، جو ایک دوسرے کے قصیدے پڑھنے کے لئے پابند عہد ہوتے ہیں ، حالانکہ یہ صحت مند روش نہیں ہے ۔
(۵) من آنم کہ من دانم (میں جو کچھ ہوں وہ میں خود ہی اچھی طرح جانتا ہوں) یہ مقولہ اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب کسی شخص کی تعریف کی جائے لیکن وہ خود کو اس کا مستحق نہ سمجھتا ہو ۔ ایسے موقع پر وہ شخص (جس کی تعریف کی جاتی ہے) کہتا ہے کہ آپ کی تعریف بصد شوق قبول ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں اس تعریف کا مستحق نہیں ہوں ۔ میں اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہوں کہ میں کتنے پانی میں ہوں ۔ وہ انسان جو حقیقت پسند ہوتا ہے وہی یہ مقولہ استعمال کرتا ہے ورنہ بیشتر لوگ تو اپنی جھوٹی تعریف بھی سن کر پھولے نہیں سماتے ہیں اور تعریف کرنے والے کو دل ہی دل میں دعا بھی دیتے ہیں ۔ کیونکہ اپنی تعریف ہر شخص کو بھلی معلوم ہوتی ہے ۔

آوازِ سگاں کم نہ کنُد رزقِ گدارا (کتوں کے بھونکنے سے فقیروں کا رزق کم نہیں ہوجاتا ہے) جب کسی فقیر کو دیکھ کر کتیّ بھونکتے ہیں ، تو کتوں کے بھونکنے سے ایسا نہیں ہوتا ہے کہ اسے بھیک نہیں ملتی ہے ۔ حالانکہ فقیر نے ان کتوں کا کچھ بھی بگاڑا نہیں ہوتا ہے ، اس کے باوجود وہ اپنی خصلت سے مجبور ہوتے ہیں ۔ ٹھیک اسی طرح جب کسی شخص کی برائی کی جائے اور اس شخص کو خواہ مخواہ لوگوں میں بدنام کرنے اور اسے رسوا کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ اپنی برائی کرنے والے شخص سے کہتا ہے کہ ایسی بے بنیاد باتوں سے میری صحت پر کوئی اثر نہیں واقع ہوسکتا ہے ۔ جس طرح کتوں کے بھونکنے سے فقیر کا رزق کم نہیں ہوتا اسی طرح تمہاری بیہودہ اور بے بنیاد باتوں سے میرے رتبہ و مقام پر کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے ۔ ظاہر سی بات ہے کہ سنجیدہ اور شریف لوگوں کے حلقوں میں یہ فقرہ اچھا نہیں سمجھا جاتا ہے ۔ کیونکہ کسی بھی شخص کو کتے سے تشبیہ دینا کوئی اچھی بات نہیں ، لیکن یہاں استعارۃً اس لفظ کا استعمال ہوا ہے ۔ ہمارے معاشرے میں یہ رجحان عام طور پر پایا جاتا ہے کہ کسی باعزت اور شریف انسان کو کسی ذاتی دشمنی کے باعث غلط الزام تراشی کے ذریعے بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ، لیکن خدا جسے عزت دینا چاہے انسان اسے لاکھ کوششوں کے باوجود بھی ذلیل نہیں کرسکتا ہے ، کیونکہ عزت و ذلت خدا کے دست قدرت میں ہوتی ہے ۔

(۶) ہنوز دلی دور است (ابھی دلی دور ہے) یہ فقرہ اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب کسی کام کو مکمل ہونے میں دیر ہو اور کوئی شخص اس بات پر بضد ہو کہ کام تو پورا ہوگیا ، اب انتظار کس چیز کا ہے ؟ اس محاورے کے پیچھے ایک تاریخی واقعہ پوشیدہ ہے جس کا یہاں ذکر طوالت سے خالی نہ ہوگا ۔ المختصر یہ کہ جب کسی مقصد کے حصول میں تاخیر ہورہی ہو اور سامنے والا شخص اس کام کو مکمل کرنے کی ضد کرے یا اسے محسوس ہو کہ اب کام تو مکمل ہوگیا ، لیکن کام کرنے والا اس کام کی نزاکتوں سے واقف ہوتا ہے ۔ اسے اس کام کی گہرائی کا اندازہ ہوتا ہے تو وہ اس شخص سے جو کام کی تکمیل کے احساس سے سرشار ہوتا ہے ، کہتا ہے کہ ’’ہنوز دلی دور است‘‘ ۔ (۷) خود کردہ را علاجے نیست (اپنے کئے کا کوئی علاج نہیں) اردو میں اسی سے ملتا جلتا ایک محاورہ رائج ہے کہ ’’کمان سے نکلا تیر اور زبان سے نکلی بات واپس نہیں آتے ہیں‘‘ ۔ اسے دوسرے لفظوں میں محاورۃً یہ کہا جاتا ہے کہ اپنے پیر پر کلہاڑی خود مارنا ۔ ظاہر ہے ایسے شخص کا کیا علاج ہوسکتا ہے جو اپنا بھلا بُرا خود ہی نہیں سمجھتا ۔ جس شخص کو ایسی بات یا کام کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہوتی ہو جس میں سراسر اسی کا نقصان ہوتا ہے ۔ ایسے موقع پر ہی یہ محاورہ استعمال کیا جاتا ہے ۔
(۸) کنُد ہم جنس باہم جنس پرواز (ایک ہم جنس پرندہ اپنے ہم جنس کے ساتھ پرواز کرتا ہے) دراصل یہ ایک شعر کا پہلا مصرعہ ہے جو ضرب المثل کی شکل اختیار کرگیا ہے ۔ وہ شعر یوں ہے
کند ہم جنس باہم جنس پرواز
کبوتر با کبوتر ، باز با باز
یہ شعر انسان کی فطرف کی جانب اشارہ کرتا ہے ،کیونکہ معاشرے کا ہر شخص اپنے ہم مسلک ، ہم خیال ، ہم مزاج اور ہم زبان لوگوں کو تلاش کرتا ہے اور انہی لوگوں کے ساتھ رہنے کو ترجیح دیتا ہے ۔ ان کی ہم نشینی اسے پسند آتی ہے اور وہ دوسروں کی بہ نسبت ہم زبان و ہم خیال لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ،گفتگو کرنا ، رسم و راہ رکھنا زیادہ بہتر تصور کرتا ہے ۔ شاعر نے پرندوں کی نفسیات کو پیش کرتے ہوئے اپنے اس شعر میں انسانی فطرت کی جانب اشارہ کیا ہے ۔ کبوتر جب پرواز کرتا ہے تو دوسرے کبوتروں کی معیت میں رہتا ہے اور اسی طرح باز (پرندہ) بھی اپنے ہم جنسوں کی صحبت میں رہتا ہے اور انھیں کے ساتھ اڑنا پسند کرتا ہے ۔ ٹھیک یہی حال کارخانۂ قدرت میں ہر بشر کا ہے کہ وہ بھی اسی صفت سے متصف ہوتا ہے ۔ اسی لئے کہا جاتا ہے ’’کند ہم جنس باہم جنس پرواز‘‘

(۹) عقل مند را اشارا کافیست (عقل مند کو ایک اشارہ کافی ہوتا ہے) اس مقولہ کا مطلب ایک عام انسان بھی بخوبی سمجھ سکتا ہے ، جو تھوڑی بہت بھی اردو جانتا ہو ۔ احمق انسان کو ایک ہی بات بار بار سمجھانی پڑتی ہے ، جبکہ عقلمند شخص آنکھ کے اشارے سے ہی بہت سی باتیں سمجھ لیتا ہے ۔ کچھ اسی طرح کا ایک اور فارسی مقولہ بہت مشہور ہے ’’ہرچہ دانا کند ، کند ناداں لیک بعد از خرابیٔ بسیار‘‘ یعنی جو کام ایک عقلمند آدمی کرتا ہے وہی کام ایک نادان انسان بھی کرتا ہے ، لیکن کافی نقصان اٹھانے اور سخت تکلیف برداشت کرنے کے بعد ۔ اس لئے یہ مثل بھی مشہور ہے کہ ’’نادان کو الٹا بھی تو نادان ہی رہا‘‘ ۔

(۱۰) دروغ گورا حافظہ نباشد (جھوٹ بولنے والے شخص کا حافظہ نہیں ہوا کرتا ہے) ایک جھوٹے شخص کی فطرت ہوتی ہے کہ اسے یہ یاد نہیں رہتا ہے کہ اس نے کس سے کیا کہا تھا اور کب کہا تھا ۔ کیونکہ وہ تو ہر وقت جھوٹ ہی بولتا رہتا ہے ۔ اگر سچ بات بولے گا تبھی تو اسے وہ بات یاد رہے گی ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ شخص ایک آدمی سے کچھ کہتا ہے اور دوسرے سے کچھ اور ۔ عام طور پر یہ عمل غیر دانستہ ہوتا ہے ،کیونکہ اس کی یادداشت اس کا ساتھ نہیں دیتی ہے ۔ لیکن اکثر و بیشتر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک جھوٹ کو ثابت کرنے کے لئے مزید جھوٹ بولنے پڑتے ہیں ۔ اس کے باوجود اس کا جھوٹ ، سچ ثابت نہیں ہوپاتا ہے ، لیکن سچ بات بولنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ حق گو کو کچھ اور یاد رکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے ۔ دروغ گوئی کی عادت کوموجودہ معاشرے میں عیب نہیں بلکہ ہنر تصور کیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ دروغ گو افراد کی سماج میں کثرت پائی جاتی ہے ، کیونکہ اخلاقی اقدار اب مٹنے لگی ہیں ، لیکن ’’دروغ مصلحت آمیز بہ راستی فتنہ انگیز‘‘ کی گنجائش رہتی ہے ۔
(۱۱) ہم خُرمہ وہم ثواب (خُرمے الگ ہاتھ آئے اور ثواب الگ ملے) عام طور پر مذہبی محفلوں میں تقریب کے اختتام پر تبرک تقسیم کئے جاتے ہیں ، جس کا مقصد حصول ثواب ہوتا ہے ، اس فقرے کا مفہوم یہ ہے کہ یہ عمل بھی خوب ہے کہ ثواب بھی ملا اور کھانے کے لئے خُرمے بھی ہاتھ آئے ۔ اردو میں ایک مقولہ مشہور ہے کہ ’’آم کے آم گٹھلیوں کے دام‘‘ اور یہ مقولہ مذکورہ فارسی مثل کی بہترین تشریح ہے ۔ اس لئے عقلمند افراد ایسے کاموں میں کبھی پیچھے نہیں رہتے ہیں ، جس میں ثواب کے ساتھ ساتھ مادی منفعت بھی ہو ۔ ایسے متعدد فارسی محاورے ، مقولے ، ضرب الامثال اردو میں عام طور پر مستعمل ہیں ، جن کا استعمال ناگزیر ہوتا ہے کیونکہ دوسرے جملے ان مفاہیم کو پوری طرح ادا نہیں کرپاتے ، جو فارسی مقولے یا محاورے ادا کرتے ہیں ۔ (جاری)
mdsabirali70@gmail.com