اردو غزل … ایک مطالعہ

الحاج ڈاکٹر منیر الزماں منیرؔ، شکاگو
ہر زبان کی ایک تہذیب ہوتی ہے اور ہر تہذیب کی ایک زبان ۔ غزل ہماری زبان کی تہذیب سے عبارت ہے اور ہماری تہذیبی زبان کا بھی درجہ رکھتی ہے ۔ غزل ہمارے اجتماعی شعور کا حصہ ہے اور ثقافتی زندگی کا مرکزی حوالہ بھی ۔ اسے محض ایک مقبول صنف سخن کے طور پر دیکھنا سراسر ناانصافی ہے ۔ ا یک ذرا غور کیجئے تو محسوس ہوگا کہ غزل کی قدر غیر معمولی طور پر ہمارے فکر و نظر اور شعور اعتقادات و تصورات اور جذبات و احساسات کی ترجمان بن گئی ہے ۔ یہ احساس انفرادی و اجتماعی دونوں سطحوں پر یکساں ہے ۔ اس کی یہی خوبی اسے ہماری معاشرتی زندگی کا حصہ بنادیتی ہے ۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ غزل ہماری سماجیات کے جسم میں روح کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اپنے روزِ اول سے لیکر عصرِ حاضر تک طبقاتی حدبندیوں کو توڑ کر سماجی مساوات کے قیام میں غزل نے وہ کارنامہ انجام دیا جونظریوں اور رجحانوں کے بس کی بات نہ تھی ۔ یہاں شاہ بھی فقیر ہیں اور فقیر بھی شاہ سے افضل۔ کسی شاہ کو کوے یار میں دو گزز زمین بھی نہ ملنے کا غم ہے تو کسی فقیر کو آفاق کی شیشہ گری کا زعم ہے ۔ لطیف یہ ہے کہ غزل کے حوالے سے طبقاتی تفریق و کشمکش اور سماجی نابراری کا ہر احسا مٹ جاتا ہے کیونکہ ؎
ہم ہوئے ، تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے
اُس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
اسی لئے اردو کے مشہور ادیب اور دانشور پروفیسر آل احمد سرور نے بجا فرمایا ہے کہ :
’’اردو شاعری کا شاہکار غزل ہے‘‘۔
غزل اردو شاعری کی آبرو ہے جو بڑی بلاغت کے ساتھ اچھے اچھے خیالات ادا کرسکتی ہے ۔ دریا کو کوڑے میں بند کرسکتی ہے ۔ اس کا حسن بے ساختگی اور لطافت کا حسن ہے گویا غزل سخت جان بھی ہے اور نازک اندام بھی ۔
غزل کا تخلیقی عمل صدیوں سے جاری ہے اور ہر عہد میں غزل گو شعراء کی تعداد بہت زیادہ رہی ہے لیکن صرف وہی شعراء جنیون کہلائے جنہوں نے شعر و ادب کا عمیق مطلعہ کیا ، فن کی باریکیوں کو سمجھا ، لوازم شعری سے واقفیت حاصل کی اور فکر و اظہار کی انفرادیت کو پیش نظر رکھ کر تخلیقی کارنامے انجام دیئے۔
اردو کے مشہور نقاد شمیم حنفی نے غزل کے متعلق بصیرت افروز بات کی ہے :
’’غزل کو سمجھنا ایک تہذیب میں سفر کرنا ہے ۔ یہ تہذیب ماضی کو حال سے منہا نہیں دیتی ۔ بین الاقوامیت تک جاتی بھی ہے تو اپنی قومیت کے حوالے کے ساتھ ‘‘۔
غزل کی تہذیب ، اس کی معنی آفرینی سادہ بیانی اور فکری دلکشی سے وہی غزل تہذیب بن سکتی ہے جس میں ہر سطح کے قاری اور سامع کو متاثر کرنے کی خوبی ہو۔ غزل آپ بیتی بن کر ہی جگ بیتی بنتی ہے گویا اس کا سفر داخل سے خارج کی طرف ہوتا ہے ۔ اس سفر میں شاعر کی ذات سے وابستہ ہر حسیت ، ہر منشور ، ہر فلسفہ اور فکری بصیرت کا وسیلہ اس کے ساتھ ہوتا ہے ۔ غزل میں شاعری کی سوانح بھی نظم ہوتی ہے اور اس کی دات بھی سمندروں میں قطروں کی طرح ریت میں زروں کی طرح اور ر وشنی میں اندھیروں کی طرح غیر محسوس طریقے پر جذب ہوتی رہتی ہے۔
ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی نے غزل کے متعلق بڑی اہم باتیں لکھی ہیں۔’’غزل کا ایک مزاج یہ بھی ہے کہ وہ خطیبانہ لب و لہجہ کی متحمل نہیں ہوسکتی اس کے بعد یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا کہ اس کو کسی پروپگنڈے کا ذریعہ بنایا جائے ۔ غزل میں جب بھی عصر حاضر کے مسائل کا ذکر ہوگا تو آپ بیتی کے رنگ میں پیش کر نا ناگزیر ہوگا ‘‘۔
غزل کے شعر میں شاعری کی خود آگہی نئی حسیت ، ادبی بصیرت اور تخلیقی شعور تو منعکس ہوتا رہتا ہے ۔ ان میں کرب کی آنچ ، فکر کی شعلگی اور اندر ہی اندر سلگنے والی کیفیت بھی موجود ہوتی ہے جو ماحول کے جبر اور قدروں کی زبوں حالی کی دین ہوتی ہے ۔ شاعر کے اندر کی آگ جب شعر کے پیکر میں ڈھلتی ہے تو معاشرتی عتاب ، انسانی کرب ناکی ، طبقاتی ردعمل ، نارسائیوں کا الم یہ اور ریاسیت کا منظر نامہ بن جاتی ہے ۔
بقول حافظ عبدالرحمن :
’’کلام دل میں ہوتا ہے ۔ زبان و بیان سے نکلنے والے الفاظ اس پر دلالت کرتے ہیں‘‘۔
غزل وہ صنفِ سخن ہے جس نے ہر موڑ پر ہماری ذہنی زندگی کا ساتھ دیا ہے ۔ اپنی انتہا پسندی کے دور میں ترقی پسندوں نے اسے ضرور معتوب ٹھہرایا لیکن یگانہؔ ، فراقؔ، جگرؔ اور کچھ دوسرے اہم شعراء نے ان دنوں بھی اس کا علم بلند کیا ۔ خود ترقی پسندوں کی صفوں میں بھی ایسے شاعر موجود تھے جنہوں نے غزل کا دامن کبھی نہیں چھوڑا ۔ جیسے فیض ، جذبیؔ اور مجروحؔ وغیرہ ترقی پسندوں کے زوال اور جدیدیت کے فروغ کے ساتھ غزل کا بھی احیاء ہوا ہے ۔ جدید شاعروں کی کاوشوں سے غزل کا معنوی افق بھی وسیع ہوا ہے اور غزل کی زبان میں بھی نئی تخلیقی طاقت ، تحریک، توانائی اور تمکنت آئی ہے۔
غزل کی تازہ کاری پر کبھی وقت کی گرہ نہیں جم سکتی ۔ غزل اپنی مستحکم روایتوں کے ساتھ آج بھی زندہ ہے اور اردو زبان زندہ رہی تو قیامت تک زندہ و پائندہ رہے گی۔

غزل
جس کی توقع کوئی نہیں تھی ، میرے گھر وہ آئے تو
تھما تھما سا جو رہتا تھا ، اس دل کو دھڑکائے تو
کیا ہوتی ہے دل کی دھڑک ’’لحوئی اسے دھڑکائے تو
میں تو سمجھنا چاہ رہا ہوں، کوئی مجھے سمجھائے تو
کھیتوں کی پگڈنڈی پر میں دوڑ رہا تھا ایسے میں
میرے آگے آگے وہ بھی آنچل کو لہرائے تو
سناٹا چھایا رہتا ہے گھرمیں گھر کے باہر بھی
گھر میں رونق آجاتی ہے ، کوئی آئے جائے تو
یوں غمگین بنے بیٹھے ہیں ، مجھ پر غصہ تھا ان کو
میرا لطیفہ سنکر وہ بھی دھیرے سے مسکرائے تو
میلے میں میں گھوم رہا ہوں، مقصد ہی ہے ساتھ منیرؔ
لڑکی پسند اب کے کرتا ہوں، ہاں صورت بھلائے تو