اردو طبقہ میںمادری زبان کی تعلیم سے دوری افسوسناک

گلبرگہ ۔2ستمبر ( سیاست ڈسٹرکٹ نیوز)کلبرگیپروفیسر حمید سہروردی صدر انجمن ترقی اردوہند (شاخ)گلبرگہ نے کہا کہ آج ہمارااردو داںمعاشرہ اپنے بچوں کو انگریزی میڈیم اسکولوں میں شریک کروا کر انہیں اپنی مادری زبان اردو کی تعلیم سے محروم کررہا ہے۔ان حالات میں زبان اور ادب کی بقاء کا سوال پیدا ہورہا ہے۔ہمیں اپنی نسلوں کو ار دو زبان کی تعلیم سے آراستہ کرنے کی ضرورت ہے۔خواجہ بندہ نواز ؒایوان اردو گلبرگہ میں 30اگست کو منعقدہ ماہانہ ادبی اجلاس میں صدارتی خطاب کرتے ہوئے پروفیسر حمید سہروردی نے اس خیا ل کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ انجمن ترقی اردو گلبرگہ اپنے ماہانہ ادبی اجلاسوں کے انعقادکے ذریعے قلمکاروں کی تخلیقات کے حسن وقبح کا جائزہ لینے کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا ہے،اس سے نئے قلم کاروں کی حوصلہ افزائی اور تربیت میں مدد ملے گی۔انہوں نے اجلاس میں پیش کردہ مشتاق احمد سہروردی کے طنزیہ مضمون ’’شام اساتذہ ‘‘ کے بارے میں کہا کہ یہ استاد اور شاگرد کے بدلتے ہوئے رشتے پر خوبصورت طنز ہے۔انہوں نے سینئر افسانہ نگار جناب سراج وجیہ کے افسانہ ’’آسمان سے گرا ‘‘ کو تخلیقی قوت سے بھر پور قرار دیا ۔اور کہا کہ حیات انسانی کو بہتر بنانے کی فنکارانہ ا ٓرزو کا اس میں متاثر کن اظہار ہوا ہے۔انہوں نے نئی نسل کے نمائندہ شاعر قاضی انور کی پیش کردہ غزلوں کے بارے مین کہا کہ انہوں نے اپنے دلی جذبات و احساسات کو کامیابی سے پیش کیا ہے۔آداب عشق کی پاسداری کی ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ بڑی مسرت کی بات ہے کہ شہر گلبرگہ میں ایسا اچھا شاعر ہے جو تمام روایات شعریت کے ساتھ اظہار کی صلاحیت رکھتا ہے قاضی انور کا لہجہ رفتہ رفتہ مستحکم ہوتا جارہا ہے۔ممتاز ادیب و صحافی جناب حامد اکمل ایڈیٹر عالمی شمع نے اجلاس میں پیش کردہ تخلیقات پر نہایت تفصیلی تبصرہ کیا ۔انہوں نے نوجوان مزاح نگار مشتاق احمد سہروردی کے مضمون’شام اساتذہ ‘کو جدید تہذیب پر کرارا طنز قرار دیا ۔ان کے انداز نگارش کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گلبرگہ کا ماحول اردو طنز ومزاح کے لئے ہمیشہ ساز گار رہا ہے۔انہوں نے جملہ بازی یا انشاء نگاری کے بجائے واقعاتی مزاح کی تخلیق پر زور دیا ۔سراج وجیہ کے افسانہ کا تجزیہ کرتے ہوے جناب حامد اکمل نے کہا کہ حیات انسانی صدیوں سے جبر حالات کا شکار ہے۔افسانہ ’’آسما ن سے گرا‘‘کا موضوع غربت و افلاس کی ماری زندگی ہے اس کا ا ٓ غاز جس منظر سے ہوتا ہے اختتام بھی اسی منظر سے ہوتا ہے۔اس کا زمانی وقفہ طویل ہے۔اس افسانے کا ہم ایک جملہ میں احاطہ کرسکتے ہیں ۔زندگی ایک خواب ہے چلو خواب دیکھتے رہیں۔سراج وجیہ کا اسلوب بڑا متاثر کن ہے۔جناب حامد اکمل نے قاضی انور کے شعری محاسن کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ خوش فکر ،خوش آہنگ ،جنیوئین شاعر ہیں ۔ان کا مطالعہ تازہ ہے ۔زبان وبیان پر انہیں کافی عبور ہے۔ان کی شاعری عوام و خواص دونوں کو اپنی جانب راغب کرنے کا حسن رکھتی ہے۔ پروفیسر ابوالکلام (صدر شعبہ اردو مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدر آباد)نے اس اجلاس میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی ۔انہوں نے کہا کہ مادہ پرستی نے انسانی زندگی کو احساسات وجذبات سے عاری کردیا ہے۔آج کا انسان بے حسی کی زندگی گزاررہا ہے،ادب اور شاعری ہی اس بے حسی کو ختم کرکے انسان میں دوبارہ زندگی کا احساس پیدا کرسکتے ہیں۔انہوںنے انجمن ترقی اردو گلبرگہ کی سرگرمیوں کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ ان سے نئی نسل کی تربیت اور تہذیب میں مدد ملے گی ۔انہوں نے اجلاس میں پیش کردہ تخلیقات کا جامع انداز میں جائزہ لیتے ہوئے قلم کاروں کا مبارکباد پیش کی ۔جناب خواجہ پاشاہ انعامدار نے خیر مقدم کیا ۔ڈاکٹر انیس صدیقی (معتمد انجمن ) نے نظامت کے فرائض بحسن وخوبی ادا کئے۔