اردو شاعری میں جانور … قابل مطالعہ کتاب

یسین احمد
کسی زبان کا ادب اسی وقت تونگر ہوسکتا ہے جب اس کے دروازے نئے نئے تجربات ، لفظیات ، اصطلاحات اور موضوعات کے لئے کھلے رہیں ۔ اردو زبان بعض معاملات میں ابھی بہت پیچھے ہے۔ اردو میں شکاریات اور جانوروں کے بارے میں بھی بہت کم لکھا گیا ہے ۔ بہت پرانی بات ہے میں نے ایک کتاب پڑھی تھی ’’جنگل میں منگل‘‘ جو ترجمہ تھا اس کے مترجم تھے مولانا محمد ظفر علی خان ۔ غالباً اردو کا پہلا ترجمہ تھا ۔ کتاب جانوروں کی حکایتوں سے بھرپور تھی ۔ اب 2013 میں ایک کتاب آئی ہے ’’اردو شاعری میں جانور‘‘ جس کو مرتب کیا ہے مختار بدری نے ۔
یہ کہنے میں نہ کوئی مبالغہ ہے اور نہ قصیدہ گوئی کہ مختار بدری نے اس کتاب کی ترتیب و تدوین میں غیر معمولی محنت کی ہے ۔ مختار بدری پیشہ تدریس سے وابستہ ہیں لیکن ایک ماہر حیوانات کی طرح دنیا بھر کے تقریباً تمام جانوروں ، پرندوں اور کیڑوں مکوڑوں کے عادات و اطوار پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے ۔ انداز تحریر ایسا دلچسپ کہ نہ کہیں پیوست زدگی کا احساس ہوتا ہے اور نہ بیزاری کا ۔ جب کہ یہ موضوع بذات خود خشک اور غیر دلچسپ ہے ۔کتاب کے عنوان کے مناسبت سے مختار بدری نے درجنوں شعراء کے سینکڑوں اشعار اکٹھا کئے ہیں ۔ صرف اشعار سے اکتفا نہیں کیا بلکہ اب جانوروں ، پرندوں کی خوراک پرورش ، طریقے جفتی اور اچھی بری خصلتوں کا بھی ذکر کیا ہے ۔ ان سے وابستہ امثال ، حکایتوں کو بھی بیان کیا ہے ۔
ابتداء چبھتے ہوئے اشعار سے ہوتی ہے ۔ کچھ شعر پیش ہیں ۔
انسانیت تو دفن ہے پتھر کے شہر میں
جنگل میں محو رقص ہیں حیوان دور تک
مہتاب پیکر اعظمی
جنگلوں میں اب درندوں سے کوئی خطرہ نہیں
شہر سے جانا پڑا جلتے گھروں کے خوف سے
غیاث الرحیم شکیب
عجب ترقی معکوس کا زمانہ ہے
کہ سب چرند پرند آدمی سے لگتے ہیں
سید مشکور حسین یاد
درندوں کا ٹھکانہ پوچھتا ہے جب کوئی مجھ سے
کلیجہ تھام کر میں خطہ گجرات لکھتا ہوں
سعید رحمانی
ہزاروں وحشی درندوں کے پیچ لاکر
انہی میں جینا ہے تجھ کو بتا گیا کوئی
ف س اعجاز
میرے اندرکا درندہ کھارہا تھا پیچ و تاب
اور پھر شائستگی زنجیر پا تھی ، میں نہ تھا
رؤف خیر
مختار بدری نے کئی انکشافات ایسے کئے ہیں جو نہ صرف تعجب خیز ہے بلکہ کارآمد اور مفید بھی ہیں ۔ لکھتے ہیں آسٹریلیا میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق مایوسی اور اعصابی دباؤ کے مریضوں کی حالت جانوروں سے محبت کرکے نمایاں طور پر بہتر ہوئی ہے ۔ جو لوگ جانور پالتے ہیں انھیں بلڈ پریشر کی بیماری کم ہوتی ہے اور کولسٹرول کی سطح بھی کم رہتی ہے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جو لوگ پالتو جانور رکھتے ہیں انہیں نزلہ اور زکام کی شکایت بھی کم رہتی ہے ۔
مختار بدری نے حروف تہجی کے لحاظ سے جانوروں کا ذکر کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان کے متعلق محاوروں ، حکایتوں اور امثال کو ضبط تحریر میں لایا ہے ۔ ان سے وابستہ اشعار درجنوں شعراء کے کلام سے چن چن کر یکجا کئے ہیں ۔ جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اردو کے جدید لب و لہجہ کے شعراء نے جانوروں کو نئے زاویوں اور نئے انداز سے اشعار میں برتا ہے ۔ ظاہر ہے یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ مختار بدری کی ہمت ، مہارت اور چابک دستی لائق تحسین ہے کہ اس راہ پرخار سے کامران گزر گئے ہیں ۔ انہوں نے کثیر التعداد جانوروں کو دام تحریر میں پھانسا ہے ۔ ہر جانور پر لکھنا ان سے وابستہ اشعار کو دہرانا یہاں ممکن نہیں ہے اور مناسب بھی نہیں ۔میں چند ایسے جانوروں سے گفتگو کا آغاز کروں گا جن کا ہماری روزمرہ کی زندگی سے بہت قریبی تعلق ہے جن کی خصلتیں انوکھی اورحیرت انگیز ہیں ، دلچسپ ہیں ۔
اژدھا ہیبت ناک جانور ہے جس کا نام سنتے ہی جسم میں جھرجھری دوڑ جاتی ہے ۔ بسیار خور ہوتا ہے لیکن مہینوں کھائے بغیر بھی زندہ رہتا ہے ۔ آپ دیکھئے کہ اس جانور کو شعراء نے کیسے کیسے زاویہ سے دیکھا ہے
اژدھے نکلے تو ہیں فرعون کے درباروں سے
اب کسی ہاتھ میں موسیٰ کا عصا دے یارب
شکیل حسن شمسی
بڑے موذی کو مارا نفس امارا کو گر مارا
نہنگ ، اژدھا شیر نر مارا تو کیا مارا
ذوق
ہزاروں اژدھے ہیں پھن اٹھائے راہ میں ساحلؔ
مرے اس حال کا ہے تو ہی ذمہ دار لکھوں گا
عالمگیر ساحل
کہتے ہیں کہ اونٹ کی کوئی کل سیدھی نہیں ہوتی ۔یہ صحرائی جانور زمانہ قدیم سے ہی صحرائی قبائل سے بہت قریب رہا ہے ۔ کچھ کھائے پئے بغیر اونٹ بھی چار ہفتے گزارا کرسکتا ہے ۔ اس جانور پر بھی شعراء نے بے حد دلچسپ اشعار کہے ہیں ۔
سات اونٹوں پہ لدے آئیں گے لہسن کاوش
ایک بھی بھوکا جو رہ جائے تو لشکر بدلو
کاوش بدری
کہنے لگے کہ اونٹ ہے بھدا سا جانور
اچھی ہے گائے رکھتی ہے کیا نوکدار سینگ
علامہ اقبال
بچھو تین چار رنگوں کے ہوتے ہیں لیکن سبز رنگ کے بچھو زیادہ مہلک ہوتے ہیں ۔ کسی کو کاٹنے کے بعد تیز رفتاری سے بھاگتا ہے ۔ اس کے کاٹنے سے سانھ بھی مرجاتا ہے ۔ اس جانور پر کبھی اردو شاعری میں بے شمار شعر ملتے ہیں ۔
کرتا ہے دلوں میں نیش زنی
شک نام کا وہ بچھو تو نہیں
راہی فداہی
دال کر مصلحتاً سانپ کے بل میں انگلی
یاد فرماتے ہو تم بچھو کا منتر شاباش
قیسی قمرنگری
براق ایک بہشتی جوپایہ ہے جس پر سوار پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم شب معراج کو آسمان پہ تشریف لے گئے تھے ۔ راہی فداہی نے اس پر ایک شعر کہا ہے ۔
زمانہ بیٹھا ہے اس پہ راہی
وہ جارہا ہے براق دیکھو
بکری پر کچھ اشعار ہیں
یوں تو چھوٹی ہے ذات بکری کی
دل کو لگتی ہے بات بکری کی
علامہ اقبال
لوگ کہتے ہیں اس دشت میں شیر ہے
چررہی تھی ہماری یہاں بکریاں
عقیل جامد
اب ذکر بلی کا ۔ بلی انسانوں سے مانوس ہوتی ہے ۔ بلی پر بھی درجنوں شعر لکھے گئے ہیں ۔
بھگی بلی سا کیوں ہے پژمردہ
شیر کی طرح دھاڑ سڑکوں پر
نازاں جمشید پوری
میں انقلاب کی منزل کو جیت بھی لیتا
مرے مزاج کی بلی نے راستہ کاٹا
انور ندیم
یوں تو کتاب میں جانوروں پر کثرت سے شعر درج ملتے ہیں لیکن بلبل اور سانپ پر کچھ زیادہ ہی ۔ بلبل ہر دور کے شعراء کا پسندیدہ ترین پرندہ رہا ہے ۔ کچھ شعر قارئین کی نذر ہیں۔
اڑتی پھرتی تھیں ہزاروں بلبلیں گلزار میں
دل میں کیا آیا کہ پابند نشیمن ہوگئیں
علامہ اقبال
بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل
کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا
غالب
پر نہ باندھے پاؤں باندھے بلبل ناشاد کا
کھیل کے دن ہیں ، لڑکپن ہے ابھی صیاد کا
ذوق
اب سانپ کے بارے میں
اذیتوں کی ہتھیلی پر کالا ناگ لئے
وہ جارہا ہے سسکتی شبوں کا بھاگ لئے
علیم صبا نویدی
یہ مرے دوست طاق نظر بندیوں میں ہیں
سانپوں سے کھیلنے کا ہنر کچھ تو آگیا
مختار بدری
زمین کو سانپ چھوڑ کر نشیمنوں میں آبسے
اب اڑ چلو کہ شاخ کا قیام ختم ہوگیا
محسن جلگانوی
مذکورہ کتاب کو بامقصد اور باوقار بنانے کے لئے مختار بدری کی کاوشیں قابل قدر ہیں ۔ انہوں نے قرآن مجید کی آیتوں کے حوالے سے چند جانوروں کا ذکر کیا ہے اور ایسی احادیث بھی قلمبند کئے ہیں جن میں مختلف پرندوں اور جانوروں کے تذکرہ موجود ہیں مثلاً ابابیل ، اژدھا ، اونٹ ، باز ، ٹٹو ، چڑیا ، چیونٹی ، خرگوش ، کتا ، گھوڑا بچھو اور گرگٹ وغیرہ ۔
محض تخویف طوالت کے باعث میں نے صرف چند جانوروں کے ذکر پر اکتفا کیا ہے ورنہ کتاب میں اور بھی کئی جانوروںکا ذکر ہے جن پر گفتگو کی جاسکتی ہے ۔ غرض مختار بدری کی نظر سے شاید ہی کوئی جانور یا پرندہ چوک گیا ہو جس کا ذکر انہوں نے نہیں کیا ۔ پرندوں پر جو اشعار اکٹھا کئے ہیں وہ تقریباً تیس صفحات پر مشتمل ہیں ہر شعر لاجواب اور دلچسپ ہے ذیل میں مزید شعر پیش ہیں ۔
آکر گرا تھا ایک پرندہ لہو میں تر
تصویر اپنی چھوڑ گیا یہ چٹان پر
شکیب جمالی
اپنائیں درندوں کی بہت عادتیں ہم نے
پرواز بھی سکھلادیں کسی روز پرندے
مختار بدری
غذا جو لاتا تھا ہر روز اپنے بچوں کو
پرندہ آج وہ کیوں شاخ پر نہیں آیا
نادر اسلوبی
پیاس بجھ جائے گی ننھی سی کسی چڑیا کی
فالتو اشک ہوں پلکوں سے گرادے مجھ کو
ظفر گورکھپوری
تتلی کی خوشنمائی نہ صرف بچوں کو بلکہ بڑوں کو بھی لبھاتی ہے ۔ مختار بدری نے تتلیوں پر بے شمار شعر اکٹھا کئے ہیں ۔ میں ان سے صرف نظر کرتے ہوئے احمد فراز کے ایک خوبصورت شعر پر اپنی بات ختم کررہا ہوں ۔
سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں
سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں
مختار بدری کا شمار ایسے قلمکاروں میں ہوتا ہے جو خاموشی سے اپنا کام کئے جاتے ہیں۔ نہ کوئی شور و غل نہ کوئی تشہیر ۔ یہی وجہ ہے کہ کتاب پر کسی نے توجہ نہیں دی ۔ جبکہ کتاب کی اشاعت 2013 میں ہوئی ۔ اگر مختار بدری کسی موقر جریدے کے سپہ سالار ہوتے تو کئی ناقدین کتاب کے بارے میں زمین وآسمان کے قلابے ملادیتے ۔ بہرحال میرا خیال ہے کہ اس نوعیت کی یہ پہلی کتاب ہے جس کی پذیرائی نہ کرنا ناانصافی ہے ۔ ایسی ہی کتابوں سے زبان کی تونگری میں اضافہ ہوتا ہے ۔