اردو سے بے اعتنائی کا چلن

وحید اشرف
در حالت نزاع مادر زباں
اخگرِ سوزاں نزدیک درِ قبرستاں
عوام الناس کو کسی خیال کی طرف متوجہ کرنے یا کسی بات کو سمجھانے کے لئے تقریر اور تحریر میں تمہیدی کلمات ضروری ہیں ۔ تقریر میں اس کے بغیر بات پوری نہیں ہوسکتی لیکن تحریر میں تمہیدی کلمات کو حذف کردیا جاسکتاہے ۔ یہاں کسی تمہید کے بغیر زود رفتاری سے اپنی بات آپ تک پہنچانے کی سعی کرتا ہوں ۔
ہم ختم ہوتی ہوئی مادری زبان کی جب بھی بات کرتے ہیں تو اس بیچاری زبان ہی کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہہ دیتے ہیں کہ یہ اردو کی بدبختی ہے یہ اردو کی کسمپرسی ہے ۔ اردو تو اپنی پوری جولانی ، چاشنی اور تہذیب کے ساتھ کہیں کسی اور جگہ اپنی طرف کھینچنے کی مقناطیسی قوت رکھتی ہے چاہے وہ عاصمۂ دکن سے ختم کیوں نہ ہوجائے ۔ بدبختی اور کسمپرسی تو اہلیان زبان کی ہے ۔ اردو کا زوال ترقی پسند مصنفین کی تحریک کہ اردو زبان کا رسم الخط بدل کر اس کو دیوناگری میں تبدیل کردیا جائے ۔ آج یہ تحریک ہندی علاقوں میں پوری طرح کامیابی حاصل کرچکی ہے۔ چنانچہ اس کا نتیجہ ہم اس صورت میں دیکھتے ہیں کہ وہاں ہونے والے عظیم الشاں اردو مشاعروں کے بڑے بڑے بیانر ہندی رسم الخط میں نظر آتے ہیں ۔ نامور شعرا کی زبان تو اردو ہے ، لیکن وہ ہندی رسم الخط کے قالب میں ڈھل چکی ہے۔

یہاں عاصمۂ دکن میں صورت حال بہت ہی دگرگوں ہوچکی ہے ، یہاں ہندی سے نابلد ہونے کی وجہ سے اردو کو رومن انگلش میں ڈھالا جارہا ہے ۔ رومن انگلش ایسے افراد کے لئے ہے جو اردو سے بالکل واقف نہیں تو بھلا وہ رومن انگلش میں کیا پڑھیں گے ۔ اس سلسلے میں ایک حقیقی واقعہ بیان کرتا چلوں ۔ ہمارا کام کتابوں کی اشاعت اور خرید و فروخت ہونے کی وجہ سے ایک نوجوان لڑکا ایک کتاب اپنے ساتھ لے آیا ۔ پہلے تو اس نے اس کتاب کی افادیت ، ضرورت پر اچھی بات کہی جب اس نے کتاب دیکھنے کے لئے میرے ہاتھ میں دی تو آنکھیں شدید کرب سے بند ہوگئیں ۔ یہ ایک ضخیم کتاب تھی جو رومن انگلش میں لکھی گئی تھی ۔ اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ اس کی اشاعت پر ایک لاکھ روپیہ خرچ ہوا ہے اور اتنی ہی رقم اس کی رسم اجراء پر ۔ میں نے کچھ اوراق پلٹے ایک جگہ نظر رک گئی ۔ میں نے اس لڑکے سے کہا ذرا پڑھنا یہ کیا لکھا ہے ۔ وہ ایک مصرعہ تھا اس نے پڑھا ’’وہ راون تھا جانبِ منزل لیکن کیوں کر گرِکے دریا ہوا‘‘ اس نے کہا مگر چچا راون کو تو جلایا جاتا ہے وہ دریا میں نہیں گرا ۔ اس نے جو کچھ پڑھا اس پر نہ حیرت ہوئی اورنہ ناگواری کا تاثر میرے چہرے سے ظاہر ہوا یہ بیچارہ تو روزمرہ کی بول چال والی اردو سے واقف ہے ۔ اس کو اردو کے مشکل الفاظ کا کوئی علم نہیں ۔ میں نے اپنی ہتھیلی جبیں پر رکھ دی ۔ وہ مصرعہ دراصل یوں تھا ’’وہ رواں تھا جانبِ منزل لیکن کیوں کر غرقِ دریا ہوا‘‘ ۔ یو پی میں اردو کا جو حشر ہوا اس سے ہم واقف ہیں ۔ اردو کو رومن میں لکھنے والا تصحیح کو Tasi لکھتا ہے اور رومن اردو پڑھنے والا اس کو تاسی پڑھے گا کیوں کہ ایک کو اس کا صحیح املا معلوم نہیں تو دوسرا اس حرف سے واقف نہیں ۔ حیدرآباد میں اردو کے رسم الخط کے تیزی سے بدلنے کے لئے تیار ، رہیں ۔ کوئی عجب نہیں کہ ایک صبح ہم اپنے دروازے کے باہر رومن اردو اخبار پڑا دیکھیں ۔ کسی نے یہ نہیں سوچا کہ اتنی کثیر رقم سے اردو کی تعلیم کا انتظام کرتے یہ رقم ختم ہونے تک اگر دس بچے بھی اردو نوشت و خواند سے واقف ہوجاتے تو یہ بہت بڑی بات تھی ۔

اردو کی بقا کے لئے جہدکاروں کی کوشش ،دباؤ Pushing ان کے حجرۂ مباحث سے باہر بھی نہیں جارہی ہے ۔ ایسے جہدکار مجموعی طور پر کسی اردو انجمن یا سوسائٹی کے تلے خود اپنی شخصیت سازی میں مصروف ہیں ۔ ہمارے شہر میں اردو کی ترقی و بقا کے لئے کئی انجمنیں اور ادارے ہیں ۔ کئی افراد بھی اس کی زندگی بچانے کی فکر میں پریشان نظر آتے ہیں ، لیکن نتیجہ مایوس کن ہے ۔ یہیں ہم کہہ دیتے ہیں کہ یہ اردو کی بدبختی اور کسمپرسی ہے کہ اس کے پیچھے اتنی محنت کرنے کے باوجود کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوتا ۔ کئی افراد ایسے بھی ہیں جو سرکاری دفاتر کے بورڈس پر اردو زبان کو بھی شامل کرکے سمجھتے ہیں کہ ہم نے اس کی بقا کے لئے خود کو وقف کرڈالا ہے ۔ ایسے دفاتر کے بورڈس پر اردو کو شامل کرنے کے بعد پلٹ کر یہ نہیں دیکھتے کہ کیا اس کا املا بھی درست ہے ؟ ایسے افراد کی جہد کا دار ومداراخباروں میں اپنی تصویر اور کارنامہ کی اشاعت تک محدود ہے ۔ اس کے علاوہ اردو زبان کے بے شمار ایسے شعراء کی تعداد میں ہر روز اضافہ ہورہا ہے جو عرفان کو ارفان ، عاجز کو آجز ، عوام کو اوام ، عام کو آم لکھتے ہیں۔ اس طبقہ میں بھی رومن اردو کا چلن عام ہورہا ہے ۔ ایسے شعراء کو پیدا کرنے والی بے شمار بزم ہائے اردو ادب ہیں۔ ایسے شعراء کے کلام میں ، نہ الفاظ میں ضبط نہ جملوں میں ربط ، نہ املا صحیح نہ جملہ درست ۔ بزم ہائے اردو ادب نے اتنے شعراء پیدا کردئے ہیں کہ ان کے مشاعرں میں ایک یا دو سامعین سے زیادہ نظر نہیں آتے ۔

دس سال پہلے مسلم زیر انتظام مدارس میں اردو پڑھانے کا غلغلہ ہوا تھا ۔ چنانچہ تمام ایسے بڑے اسکول جو (عیسائی) مشن طرز پر تھے ، داخلوں کے قریب جوش میں آکر طلبا کی اچھی تعداد کے آنے کی امید میں اپنے اپنے اسکولوں میں اردو کے ساتھ ساتھ اخلاقیات اور دینی تعلیم کو لازمی قرار دے دیا ۔ اس کے اچھے نتائج جس کی توقع تھی نہیں نکلے مجبوراً وہ اپنے اعلان سے دست بردار ہوگئے ۔ اولیائے طلباء کی اکثریت یہ نہیں چاہتی تھی ان کے بچے زمانے سے پیچھے رہ جائیں وہ نہیں چاہتے ان کے بچے تنگ نظری اور احساس کمتری کا شکار ہوجائیں ۔ گویا اردو ہمارے لئے باعث عار ہو کر رہ گئی ہے ۔ ہم کسی سے کیا کہیں جب کہ ہم خود بھی اپنے بچوں کو اردو کی الف ، ب تک نہیں پڑھاسکے ۔

الحمدللہ مہاراشٹرا میں اردو بہت تیزی سے ترقی اور نکھار کی طرف گامزن ہے ۔ مہاراشٹرا کے ایک دیہات میں جانے کا موقع ملا ، پونا کے بعد کام شیٹ اسٹیشن پر سیکڑوں کی تعداد میں طلباء ٹرین کے انتظار میں نظر آئے ۔ میں نے ایک لڑکی سے سوال کیا کہ یہاں بھی تو اسکولس ہیں تم لوگ کہاں جارہے ہو تو اس نے جواب دیا کہ لوناوالا کیوں کہ یہاں اردو اسکول نہیں ہیں ۔ یہاں کئی کئی ایکڑ کے رقبہ پر اردو مدارس قائم ہیں ۔ یہاں ایڈمیشن ملنا مشکل ہے ۔ یہاں شانتی نگر میں اردو ٹیچروں نے خود اپنی کالونی بنائی ہے جہاں صرف اردو ٹیچر ہی رہتے ہیں ۔ یہاں اردو کی بقا یا ترقی کے لئے کوئی تنظیم نہیں ، کوئی سوسائٹی یا کونسل نہیں ۔ یہاں افرادی تحریک ہے ۔ ہر فرد اردو سے محبت کرتا ہے ۔ یہاں ہر سال اردو ذریعہ تعلیم سے پڑھنے والے بچے ساری ریاست میں ممتاز مقام حاصل کرکے انعامات و تمغوں کے بوجھ سے جھکے جارہے ہیں ۔ ابھی حال ہی میں بلکہ ماہ مارچ میں ایک لڑکی نے اردو ذریعہ تعلیم سے سارے ہندوستان میں اول مقام حاصل کیا اس کو (شاید) بجاج گروپ نے تہنیت پیش کرتے ہوئے اعزاز سے نوازا ہے ۔ وہاں اولیائے طلباء خصوصاً لڑکیوں کو اردو اسکولوں میں شریک کرواتے ہیں اور ہم عیسائی مشنری اسکولوں میں لاکھوں روپیہ خرچ کرتے ہوئے اسے انجینئر ، آرکیٹکٹ بنانے کی فکر میں پریشان ہیں ، جب کہ ابتدائی جماعتوں تک اردو تعلیم کے ذریعہ بھی اس منزل کو حاصل کیاجاسکتا ہے ۔