اردو ادب کی قد آور شخصیت ۔ اقبال متین

ڈاکٹر ضامن علی حسرت
ادب کی دنیا میں اقبال متین کا نام محتاج تعارف نہیں ہے ۔ ان کا شمار ہندو پاک کے صف اول کے نثر نگاروں میں ہوتا ہے ۔اقبال متین ممتاز افسانہ نگار ، انتظار حسین ،قرۃ العین ، عصمت چغتائی ، واجدہ تبسم اور ڈاکٹر مغنی تبسم ان کے ہمعصر قلمکار ہیں ۔ 83 برس کی عمر میں بھی اقبال متین کے اندر کا قلمکار چاق و چوبند ہے ۔ آج بھی اقبال متین کی روشن آنکھیں سماج میں اپنے کرداروں کو تلاش کرتی ہیں اور جیسے ہی انہیں اپنے مطلب کے کردار نظر آتے ہیں ایک نئے افسانے کا ایک نئی کہانی کا جنم ہوتا ہے ۔ قریب 65 برس سے اقبال متین کا قلم اسی کارخیر میں لگا ہوا ہے ۔ سینکڑوں افسانے اور بے شمار کہانیاں قارئین پڑھ چکے ہیں ، اس کے باوجود ان کی ادبی تشنگی باقی ہے ۔

اقبال متین کی کہانیوں اور افسانوں کے کردار ہمیں مانوس اور جانے پہچانے لگتے ہیں ۔ اجنبیت کا قطعی احساس نہیں ہوتا ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ کردار ہمارے اردگرد موجود ہیں اور ہم سے اکثر ملاقاتیں بھی کرتے ہیں ۔ اقبال متین معاشرے میں آئے دن رونما ہونے والی ناانصافیوں ، ناہمواریوں اور حق تلفی پر اپنے قلم سے نشتر زنی کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ انہیں لفظوں کو موتیوں کی طرح پرونے کا ہنر آتا ہے ۔ ان کی اکثر کہانیاں زمینی سچائی اور حقیقت پسندی کی جیتی جاگتی تصویر لگتی ہے ۔ اقبال متین کہانی اور افسانے کے تقاضوں سے خوب آشنا ہیں ۔ ان کی تخلیقات میں غم ذات ،غم جاناں سے لیکر غم کائنات سب کچھ موجود ہوتا ہے ۔ ان کی تخلیقات پیچیدہ یا الجھن زدہ نہیں ہوتیں ۔ اپنی بات کو اپنے پیام کو یہ سیدھی سادی ، رواں دواں زبان میں کہنے کے عادی ہیں اقبال متین کی ’’فکر و فن‘‘ پر صف اول کے دانشوروں و نقادوں نے اظہار کیا ہے ۔ جن میں احمد ندیم قاسمی ، مخدوم محی الدین ، سلیمان اریب ، ڈاکٹر مغنی تبسم ، نذیر فتح پوری اور قاضی مشتاق احمد کے نام قابل ذکر ہیں ۔ اب تک اقبال متین کے 7 افسانوی مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں ۔ جنہیں ادبی دنیا میں خوب مقبولیت حاصل ہوئی ۔ ہند و پاک کے معتبر رسالوں نے ’’اقبال متین فن و شخصیت‘‘ کے عنوان سے خصوصی شمارے نکالے جن میں نامور قلمکارں ، نقادوں اور دانشوروں نے اقبال متین کی ہمہ گیر شخصیت پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے ۔ان چیزوں کے علاقہ اقبال متین کے 62 منتخب افسانوں کو ایک کتابی شکل میں شائع کیا گیا ۔ اقبال متین نے افسانوں اور کہانیوں کے علاوہ ایک ناول ’’چراغ تہہ داماں‘‘ ایک خاکوں کے مجموعہ بعنوان ’’سوندھی مٹی کا بٹ‘‘ ’’اعرتراف و انحراف‘‘ مضامین کے مجموعہ کے علاوہ ’’اجالے جھروکوں میں‘‘ (مضامین کا مجموعہ) تحریر کرتے ہوئے اپنی ادبی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے ۔ ہندوستان و پاکستان کی کئی ادبی انجمنوں نے ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں ایوارڈوں و توصیف ناموں سے نوازتے ہوئے زبردست خراج پیش کیا ہے ۔ آج وہ جس مقام پر کھڑے ہیں ان کے آگے سارے ایوارڈس و ٹرافیاں بونے نظر آتے ہیں ۔

اقبال متین انٹرمیڈیٹ پاس کرنے کے بعد سرکاری ملازمت سے وابستہ رہے اور نظام آباد میں برسوں قیام پذیر رہے ۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میرا وطن بھی نظام آباد ہے ۔ میں اقبال متین کی شخصیت سے بے حد متاثر تھا ۔ اکثر ان سے ملاقاتیں ہوتیں اور انہیں قریب سے جاننے کا موقع ملا وہ جتنے عظیم قلم کار ہیں اتنے ہی خوبصورت انسان بھی ہیں ۔ ایک ملاقات کے دوران جو ان کے گھر پر ہوئی تھی انہوں نے اپنے افسانوں کا مجموعہ ’’تم بھی کہانی میں بھی فسانہ‘‘مجھے تحفتاً دیتے ہوئے کہا ’’پیارے اسے پڑھو یہ آگے تمہارے کام آئے گا‘‘ وہ سبھی کو ’’پیارے‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں جو ان کے منہ سے بہت اچھا لگتا ہے ۔ قریب پندرہ سولہ برس پہلے ’’نایاب کلچرل اینڈ لٹریری سوسائٹی نظام آباد‘‘ کے زیر اہتمام ایک عظیم الشان ادبی اجلاس و کل ہند مشاعرہ منعقد ہوا تھا ۔ جس کا کنوینر راقم الحروف تھا ۔ ادبی اجلاس میں اقبال متین نے شرکت کی اور اپنی کہانیوں اور اشعار سے اس پروگرام میں چار چاند لگاتے ہوئے اس کی توقیر میں اضافہ کیا تھا ۔ حالانکہ وہ نظام آباد کی ادبی محفلوں سے دور دوررہا کرتے تھے ، اس پروگرام میں اقبال متین کے علاوہ یعقوب سروش (مرحوم) ، انیس فاروقی ، ڈاکٹر فضل اللہ مکرم ، میں نے اور رحیم انور نے شرکت کی تھی ۔ اقبال متین کے فن اور ان کی شخصیت پر لکھنے بیٹھیں تو چند صفحات ناکافی ہوں گے ۔ ان کی رنگارنگ شخصیت پر کتاب لکھی جاسکتی ہے ۔ اقبال متین جہاں جہاں جاتے ہیں شہرت ان کے پیچھے پیچھے جاتی ہے ۔ اقبال متین کا شمار ان لوگوں میں کیا جاسکتا ہے جنہوں نے زندگی گذاری نہیں بلکہ زندگی کو جیا ہے ۔ زندہ دل ، باغ و بہار شخصیت کے مالک اقبال متین کسی شاعر یا ادیب کا نام نہیں ہے بلکہ ایک ادارے کا ایک ادبی انجمن کا نام ہے ۔ حکومت آندھرا پردیش کو چاہئے کہ ان کی تخلیقات کو اسکولی نصاب میں شامل کرکے اور سرکاری سطح پر ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کرے ۔ اس موقع پر ایک اہم بات کا تذکرہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا ۔ اقبال متین کو اردو زبان سے اس قدر محبت ہے کہ انہوںنے اپنے گھر کا نام ’’کہانی‘‘ رکھا تھا اور نظام آباد کے اس محلہ کو جس میں وہ رہتے تھے ’’کتاب نگر‘‘ کے نام سے موسوم کیا تھا ۔ آج بھی لوگ ان کی اردو دوستی کو یاد کرتے ہیں ۔ آج کل وہ مستقل طور پر راجندر نگر حیدرآباد میں قیام پذیر ہیں ۔ ان سے ملاقات نہیں ہوپاتی لیکن ان کی کمی کو ہم شدت سے محسوس کرتے ہیں ۔ اردو ادب میں ایسی شخصیتیں بار بار پیدا نہیں ہوتیں ۔ میں نے ہمیشہ انہیں قرطاس قلم اور کتابوں کے درمیان دیکھا ہے ۔ ادب سے ان کی والہانہ محبت کو دیکھ کر غالبؔ کا یہ شعر یاد آت ہے ۔
گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آگے