اردو ادب میں غیر کا تصور

ڈاکٹرسرورالہدیٰ
اسسٹنٹ پروفیسر ،جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی
غالب کے یوم پیدائش پرغالب انسٹی ٹیوٹ ہر سال دسمبر میں بین الاقوامی غالب سیمینارکا انعقاد کرتا ہے۔یہ محض اتفاق نہیں کہ آپ ادب کا کوئی بھی موضوع طے کریںذکر غالب کی گنجائش نکل آتی ہے۔اس مرتبہ سیمنار کا موضوع ’’اردوادب میں غیر کا تصور‘‘تھا۔ 23,24,25 دسمبر کی تاریخیںدہلی کی ادبی زندگی کے لیے نہایت اہم ہیں۔اردو میں پہلی مرتبہ اس موضوع پر سہ روزہ سیمنار کا انعقاد ہوا۔مقالہ نگاروں کو جو دعوت نامہ ارسال کیا گیااس میں غالب کے خط سے ایک اقتباس بھی تھاجس میں وہ خود کو غیر تصور کرتے ہیں۔اس خط کی عبارت اس بات کا اظہار ہے کہ غالب کی تحریروں کو کس طرح بدلتے وقت کے ساتھ ایک نئی زندگی ملی ہے۔یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ سیمنار کا موضوع ’’اردو ادب میں غیر کا تصور‘‘مشہور تاریخ داں پروفیسرہربنس مکھیاکے مشورے کا نتیجہ ہے۔ہربنس مکھیا کواردو زبان و ادب سے گہری دلچسپی ہے۔ان کی نثری نظمیں بھی شائع ہوتی رہی ہیں۔سیمنار کی افتتاحی تقریب 23دسمبر کی شام غالب انسٹی ٹیوٹ میں ہوئی۔اس کی صدارت جسٹس آفتاب احمد نے کی۔ نظامت کے فرائض غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر داکٹر رضا حیدر نے انجام دیے۔معروف نقاد پروفیسر شمیم حنفی نے کلیدی خطبہ پیش کیا۔ مہمان خصوصی کی حیثیت سے سابق الکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے شرکت کی۔اس موقع پر ایک بڑا مجمع غالب انسٹی ٹیوٹ کے آڈیٹوریم میںموجود تھا ۔ میں نے محسوس کیا کہ ہر شخص غیر کے بارے میں کچھ سننا اور جاننا چاہتا ہے۔کچھ لوگ غیر کے بارے میں ایک دوسرے سے باتیں کرتے نظر آئے۔اس عمل کے دوران غالب کی تصویر کی طرف نگاہ چلی جاتی۔اس شام ’غیر‘ کا اتنا زیادہ چرچا تھا کہ پاس کھڑے ہوکر بھی ہم شاید ایک دوسرے سے گریزاںتھے۔ غالب کی وہ تصویر اور نگاہ جس سے ہم شناسائی دعویٰ کرتے ہیںایسا محسوس ہوا کہ وہ بھی مانوس اجنبی کی طرح سلوک کر رہی ہے۔سچ پوچھیے تو ’غیر‘نے چاروں طرف سے گھیررکھاتھا ۔ ایک غیر تو خود ہمارے اندر ہے جس سے پیچھا چھڑانا ممکن نہیں۔ رضا حیدر نے سیمنار کے اغراض اور انسٹی ٹیوٹ کی کار گزاریوں کو پیش کرنے کے بعد انسٹی ٹیوٹ کے سیکرٹری پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی کو مائک پر آنے کی زحمت دی۔ قدوائی صاحب نے سیمنار کے موضوع کو اہم بتاتے ہوئے غیر کے عمومی تصور کی جانب اشارہ کیا۔ ان اشاروں میں رقیب کے ساتھ ساتھ وہ غیر بھی تھا جس سے ہم غافل رہتے ہیں۔ غیربھی اپنا ہو جاتا ہے اور اپنا کبھی غیر، اس سیاق میں بھی قدوائی صاحب نے غیرکے مفہوم پر اظہار خیال کیا۔ جسٹس آفتاب احمد نے اردو کے ساتھ دنیا بھر کے ادب کا مطالعہ کیا ہے ۔ غیر کا تصور ان کے لیے بھی بہت اہم تھا۔ جسٹس آفتاب نے غیر سے وابستہ مختلف تصورات کی طرف سامعین کو متوجہ کیا ۔ سامعین کو پروفیسر شمیم حنفی کے کلیدی خطبہ کا انتظار تھا ۔ شمیم حنفی صاحب نے ’غیر‘ کے تصور کو تخلیقی سطح پر دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی۔ اس لحاظ سے یہ خطبہ سامعین کے لیے بڑا اہم تھا۔ وہ جب راشد کی نظم ’’مجھے ودع کر‘‘ پڑھ رہے تھے تو ان کی آواز بھر آئی تھی۔ شمیم حنفی کا خطبہ نظریہ اور عمل کی ہماہنگی کی مثال بن گیا۔ ایک صاحب نے مجھ سے کہا کہ پھر بھی غیر سمجھ میں نہیں آیا۔ میں نے کہا کہ غیر کا التباس غیر کی بڑی طاقت ہے ۔ افتتاحی تقریب ختم ہوئی اور ہم ایک ’غیر‘ کے ساتھ گھر لوٹ آئے ۔
24 کی صبح سیمنار کا پہلا اجلاس تھا ۔ کل چھ اجلاس ہوئے اور اٹھارہ مقالے پیش کیے گئے ۔ ہر اجلاس کا ایک صدر تھا جسے نظامت بھی کرنی تھی۔ تمام مقالوں کے بارے میں لکھنا مشکل ہے ۔ کچھ ایسے مقالے تھے جو اپنی مشکل پسندی کے باوجود سنے جانے کے لائق تھے ۔ بعض مقالے شاید مقالہ نگار کے لیے بھی غیر کی طرح تھے ۔ اس لیے کہ مقالہ نگار کی حیثیت سے وہ موضوع سے مانوس نہیں ہو سکے ۔ موضوع سے مانوس ہوئے بغیر مقالہ لکھ لینا بڑے حوصلے کی بات ہے ۔ اگر اتنی ہی ڈھٹائی آجائے کہ ہمیں تو سنانا ہے تو اس کے بعد زندگی آسان ہو جاتی ہے ۔ مگر کبھی یہ بھی سوچنا چاہیے کہ دوسروں پر کتنا مشکل وقت آتا ہوگا۔
ہمارے عہد کے اہم افسانہ نگار خالد جاوید نے اپنے مقالہ میں غیر سے وابستہ مختلف تصورات کو پیش کرکے نظری طور پر سیمنارکی فضا بندی کردی ۔ خالد جاوید نے فلسفیانہ تناظر میں غیر کو دیکھا مگر اس کی پیشکش میں ایک گہری مانوسیت تھی ۔ غیر کو دیکھنے کے جتنے زاویے ہو سکتے ہیں خالد جاوید نے انھیں جمع کرنے کی جیسی کوشش کی وہ قابل داد ہے۔ پروفیسر انیس اشفاق نے بھی بہت محنت سے پرچہ لکھا تھا۔ مشرق اور مغرب میں غیر کا تصور کیا ہے اور یہ کس طرح ایک دوسرے کے ساتھ اور گریزاں ہے، انیس اشفاق نے اس سلسلہ میں بہت اچھی باتیں کیں۔ انھوں نے اردو کے  چند اچھے اشعار بھی سنائے ۔ پروفیسر شمیم حنفی نے اجلاس کی صدارتی تقریر میں غیر کو اس انداز سے دیکھا جو ان کے کلیدی خطبہ کا حصہ تھا ۔ ان کا خیال تھا کہ بعض پرچے سننے کے لیے نہیں بلکہ پڑھے جانے کے لیے لکھے جاتے ہیں اور لازماًیہ پرچے ذہن پر زور دے کر لکھے گئے ۔ پروفیسر شافع قدوائی نے اس بات پر زور دیا کہ غیر کا تصور سماجیاتی ہے اور اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے ۔ شافع قدوائی نے غیر کے عمرانی تصور کو عالمی سیاق میں دیکھا ۔ غیر کا عمرانی سیاق ایک ایسا پہلو ہے جس کو عموماً نظرانداز کردیا جاتا ہے ۔ ایک سیشن کی صدارتی تقریر میں پروفیسرا پوروانند نے غیر کو اسی سماجیاتی تناظر میں دیکھا ۔ انھوں نے اڈورنوکے ایک خیال کی روشنی میں غیر کے تصور کو دیکھا ۔ مجموعی طور پر پروفیسر اپوروانند کی گفتگو سے غیر کی سماجی اور سیاسی تعبیر سامنے آئی ۔ سرورالہدیٰ کا موضوع ’’حالی کی نظم شکوۂ ہند‘‘ تھا ۔ انھوں نے ابتدا میں اپوروانند کی صدارتی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کی گفتگو سے ایسا محسوس ہوا کہ’غیر‘ کو آج کی دنیا کے تناظر میں دیکھا گیا ۔ اسی لیے ان کی گفتگو میں بڑی تازگی بھی ہے اور ’’حالی کی نظم شکوۂ ہند‘‘ سے ان کے خیالات کا رشتہ قائم ہوجاتا ہے ۔ شکوۂ ہند میں حالی کے لیے ہندوستان غیر ہے ۔ جب کہ اس وقت انگریز ہندوستانیوں کے لیے غیر تھے۔ سرورالہدیٰ نے ناصر عباس نیّر کی کتاب ’’اردوادب کی تشکیل جدید‘‘کا بطور خاص حوالہ دیااوراس بات کی طرف متوجہ کیا کہ اردو میں یہ پہلی کتاب ہے جس میںغیر کے نظری اور عملی پہلووں پر جہتوںاور حوالوں سے غور کیا گیا ہے۔ پروفیسر قاضی جمال حسین نے ’’اردو شاعری کے اغیار‘‘ کے عنوان سے مقالہ پیش کیا ۔ غیر کے تعلق سے یہ عنوان ایک پورے باب کا احاطہ کر لیتا ہے ۔ قاضی جمال حسین صاحب اپنے تنقیدی مقدمات کے اظہار میں نہایت حساس ہیں ۔ پروفیسر قاضی افضال حسین کے مقالہ نے علمی سطح پر سامعین کو متاثر کیا ۔ مجموعی طور پر تمام مقالوں میں ایک تلاش کا عمل موجود تھا ۔ خواہ اس کی نوعیت نظری ہو یا عملی ۔ پروفیسر ابوالکلام قاسمی نے اپنے مقالے میںاس بات پر زور دیاکہ غیر کی مختلف نوعیتوںپر غور کرتے ہوئے متن کو بھی پیش نظررکھنا چاہیے۔انھوں نے راشد اور اخترالایمان کی نظموں کے حوالے سے غیر کو تلاش کرنے کی کوشش کی۔ ضیا الدین شکیب نے اقبال کے تعلق سے غیر پر مقالہ پڑھا۔سیمناروں میں مختلف ذوق اور سطح کے قارئین و سامعین ہوتے ہیں کوئی ایک مقالہ سب کی دلچسپی کا نہیں ہو سکتا ۔ مقالہ نگار کا اپنا اپنا اسلوب ہے مگر یہ بات ضرور محسوس کی جانی چاہیے کہ سامعین ایک ایسے اسلوب کے متقاضی ہیں جو موضوع کے ساتھ انصاف بھی کرے اور اپنی بات بھی کہہ سکے ۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر ہر جملے میں لفظ ’’غیر‘‘ استعمال نہیں کیا گیا تو غیر کے تصور پر ہونے باوجود غیر کا نہیں سمجھا جائے گا۔ یہ جملہ بھی سنا گیا کہ بھائی اس میں غیر کہاں ہے ۔ ادبی محفلوں کی رنگارنگی ادبی محفلوں کو یاد گار بناتی ہے ۔ خوشی اس بات کی ہے کہ کافی دنوں کے بعد ایک تازگی کا احساس ہوا۔
سیمنار کے آخری اجلاس میں ہندی کے نامور نقاد پروفیسر پرشوتّم اگروال کو خطاب کرنا تھا ۔ اس آخری اجلاس میں سامعین کی خاصی تعداد تھی ۔ تصور ِ غیر نے تین دنوں تک نظریاتی اور عملی طور پر جس طرح اندر اور باہر سے گھیر رکھا تھا اس سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی ۔ کوئی راہ فرار نظر نہیں آتی تھی ۔ مجھے کلیم عاجز کا شعر یاد آتا رہا ۔
غم آگے ہے غم پیچھے ، غم دائیں ہیں غم بائیں
ایسے میں کہاں جائیں آ کوئی غزل گائیں
پروفیسر پرشوتم اگروال نے گفتگو کی ابتدا میںغیر کے موضوع کے لیے خود کو غیر بتایا اور یہ بھی کہا کہ اتنے اہم لوگوں کے درمیان مجھے بلایا گیا ہے میں ایک پاٹھک کے روپ میں اپنی باتیں رکھنا چاہتا ہوں۔ پرشوتم اگروال نے غیر کے وجود سے انکار نہیں کیا مگر اس بات پر زور دیا کہ اگر غیر ہی سب کچھ ہے اور ہم ہی ایک دوسرے کے لیے کسی قدر غیر ہیں تو دنیا میں اتنے ترجمے کیوں ہوئے؟ اور ہم ایک دوسرے کی بھاشا ، کلچروغیرہ کو جاننا کیوں چاہتے ہیں ؟ اس لیے اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ مشرق اور مغرب میںبہت کچھ ایسا ہے جو ایک جیسا ہے ۔ پرشوتم اگروال کی تقریر نے سردار جعفری کی نظم ’’مشرق و مغرب کی یاد‘‘ تازہ کردی۔
’’دل جو سینوں میں دھڑکتے ہیں تو آواز ہے ایک ‘‘
sarwar103@gmail.com