اردو ادبی قافلہ یورپ 2018ء مقاصد، آنکھوں دیکھا حال، تاثرات اور نتائج

دوسری اور آخریقسط

ڈاکٹر سی تقی عابدی،کینیڈا
دوسرے دن 8 جولہائی لندن کی ہوٹل سے نکل کر ملک ڈونل ریسٹورینٹ میں ناشتہ کرکے ہوٹل برطانیہ پہنچے۔ چوں کہ ہم تو اسی ہوٹل میں دیسی کھانا کھاچکے تھے اس لیے کچھ آرام کرکے جلسہ گاہ پہنچے جو ایک بڑی چاریٹری مسلم ہینڈ اارگنائزیشن کا آڈیٹوریم تھا۔ سمینار کا موضوع تھا ’’برصغیر میں صوفیائے کرام کی قومی یکجہتی‘‘ اس سمینار کی صدارت فائونڈیشن کے چیرمین شاہ لخت حسنین صاحب نے کی۔ کلیدی خطبہ ڈاکٹر تقی عابدی نے دیا۔ مہمان حصوصی اور اعزازی ڈاکٹر فاطمہ حسن اور پروفیسر کامران تھے۔
سمینار کی نظامت فضاء ریڈیو کی ممتاز انائونسر اور برنامہ نگار ممتاز شاعرہ فرزانہ خان نینا نے کی۔ یہ سمینار لائیو براڈ کاسٹ کیا گیا۔ سمینار اور اس کے بعد ہونے والے مشاعرے میں سامعین نے اچھی تعداد میں شرکت کی۔ مشاعرے کے بعد عشائیہ سے ضیافت کی گئی۔ سمینار اور مشاعرہ سات بجے شروع ہوکر 10 بجے ختم ہوا۔ اس مشاعرے کی صدارت ڈاکٹر عبدالرحمن عبدؔ نے کی۔ پروفیسر خواجہ اکرام الدین مہمان خصوصی رہے اور دوسری خواتین شہ نشین کی زینت رہیں۔
کلیدی خطبے کے ساتھ دیگر مقررین نے بھی موضوع کی روشنی سے محفل کو نورانی کردیا۔ محترم لخت حسنین صاحب نے اپنے مصروف پروگرام میں سے وقت نکال کر سمینار کو رونق دی۔ اس سمینار کا موضوع اور اس سے متعلق گفتگو دونوں معیاری اور موجودہ دور کی ضرورت تھے جنہیں حاضرین نے سراہا۔ اس سمینار میں ڈاکٹر عابدی کے علاوہ پروفیسر محمد کامران، پروفیسر اکرام الدین، ڈاکٹر عبدؔ، ڈاکٹر فاطمہ حسن اور صدر جلسہ لخت حسنین صاحب نے اپنے عمدہ خیالات سے محفل کو زعفران زار بنادیا۔
سمینار کے بعد مشاعرہ برگزار ہوا جس کی صدارت ڈاکٹر فاطمہ حسن صاحبہ نے کی اور مہمان خصوصی اور اعزازی میں ڈاکٹر نصرت مہدی اور صائمہ کامران شامل تھیں۔ نظامت مہ جبین غزل کررہی تھیں۔ اردو شاعری کا میدان شاعرات کے ساتھ تھا اور انہی کے ہاتھ رہا۔ یہ سچ ہے کہ اردو شاعری کی تخلیق میں جنسی امتیازات نہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ نسوانی کیفیات، جذبات، محاکات اور حالات کو خواتین کے علاوہ مرد پیش کریں تو بناوٹ کارنگ تصویر کو خراب کردیتا ہے۔ جس سے ا ردو شاعری دفتر بھرے پڑے ہیں۔ تمام شاعروں نے جن میں مہمان، میزبان اور مقامی شعراء بھی شریک تھے اپنے اپنے شعری خدوخال سے شعری گلدستہ میں رنگ بھرے۔ ڈاکٹر مقصود الٰہی شیخ نے مختصر مگر دل پذیر گفتگو کی۔ کلام کے بعد طعام نے جو ادبی فورم کے عمدہ کام اور خوبصورت انتظام سے ہوا۔ ادبی قافلے کی جانب سے مورد تحسین و تکریم قرار پایا۔ اس محفل کی دلکش بات یہ بھی تھی کہ اس میں ایک بڑا کیک بھی تقسیم کیا گیا۔ کیک پر ادبی قافلے کے پوسٹر بنایا گیا تھا۔
دوسرے دن مہ جبین غزل صاحبہ نے اپنے مکان میں پر تکلف لنچ کا انتظام کیا تھا جس میں مغل ڈشوں کی رنگارنگی جو دیسی کھانوں کی خوشبو سے مہک رہی تھیں بطور عمدہ پکوان کی نعمتیں ہمیں خصوصی خلوص اور شاہی طرز کے قلندرانہ مزاج سے دل کھول کے کھانے کو ملیں جن کا مزا آج بھی زبان کے نچیے رس اور دماغ کی فضاء میں خوشبو بن کر ہماری بھوک تازۃ کررہا ہے۔ یہ سب کرامات اور کرشمے غزل اور نسیم کی دین تھے۔ دل نے آواز دی ’’کب تک اللہ کی نعمتوں کو جھٹلاتے رہو گے۔‘‘
ادبی قافلہ میں ہمیں اردو تہذیب کی خوشبو قدم قدم پر محسوس ہورہی تھی۔ چنانچہ جب ادبی فورم نے خوشبو نسیم کے حوالے کیا تو وہ براڈ فورڈ کی خوبصورت پہاڑیوں اور وادیوں میں ہماری گاڑی فورڈ کے ساتھ ساتھ براڈ (وسیع) طور پر پھیل گئی اور ہم شیفلڈ پہنچے
شیفلڈ کی ہوٹل میں تیار ہوکر قافلہ بزم ادب شفیلڈ کے جلسہ گاہ پر پہنچا جہاں سمینار اور مشاعرے کا بندوبست تھا۔ سمینار کا موضوع ’’اردو کی نعتیہ شاعری‘‘ تھا۔ سمینار کی صدارت ممتاز مقامی شاعر مختار الدین صاحب اور ڈاکٹر عبدالرحمن عبدؔ نے کی۔ اس کے مہمان خصوصی سپریم کورٹ کے ایڈوکیٹ عمدہ ناقد اور خوش بیان شاعر خلیل الرحمن صاحب تھے۔ ڈاکٹر تقی عابدی نے تاریخی کلیدی خطبہ دیا۔ اس سمینار میں کلیدی خطبہ سے لے کر تمام مقررین کی تقاریر تک سب تقریریں پیغام انسانیت، رحمت، دل بستگی اور وارفتگی لی ہوئی تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات، سیرت، دین اسلام کی محبت اور قومی یکجہتی، عقیدتی جذبات کے ساتھ محفل کو روشن کرتی رہیں۔ کوثر شاہ اور صبا عالم شاہ نے خوبصورت نظامت سے چار چاند لگادیئے۔ سمینار کے فوری بعد مشاعرہ شروع ہوا جس کی صدارت ڈاکٹر عبدؔ اور مختار الدین صاحب نے کی اور مہمان خصوصی فاطمہ حسن اور خلیل الرحمن رہے۔ مشاعرے میں تمام مقامی اور مہمان شعرا کو گرم جوشی اور داد و تحسین سے سناگیا۔
اس بزم ادب کے نعتیہ سمینار اور نعتیہ مشاعرے میں نعت کی تاریخ، نعت کا ارتقا، موجودہ دور میں نعت کے تقاضے کے علاوہ نعت کے اصلی اور فرعی مضامین کو خوبصورت اور جامع طور پر پیش کیا گیا۔ ہم شیفلڈ سے نکل کر مانچسٹر کی طرف رواں ہوئے۔ مانچسٹر کے خزینہ شعر و جادب کی سرپرست محترمہ نغمانہ کنول جو شاعرہ بھی ہیں قافلہ کو اپنے دولت کدہ پر لنچ کے لیے مدعو کیا تھا۔ ڈنر ٹیبل پر ہر قسم کی ڈش ہمیں متوجہ کررہی تھی اور ہم اپنی اپنی پسندیدہ غذا اپنی اپنی پلیٹ میں جمع کرکے اسے اون میں گرم کرکے لطف اٹھا رہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ صاحب خانہ کا شکریہ اور نعمت الٰہی کا شکر بھی کررہے تھے۔
مانچسٹر کی ہوٹل میں کچھ دیر ٹھہر کر ہم جلسہ گاہ پہنچے جو ایک ریسٹورنٹ کا اوپری ہال تھا۔ سمینار کچھ دیر سے شروع ہوا۔ سمینار کا موضوع تھا ’’کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور‘‘ سمینار کی صدارت پروفیسر شہاب ملک نے کی۔ کلیدی خطبہ ڈاکٹر تقی عابدی نے دیا۔ سمینار کے دیگر مقررین میں پروفیسر محمد کامران، خلیل الرحمن اور پروفیسر خواجہ اکرام الدین صاحب شامل تھے۔ سمینار غالب پر تھا اور ہر مقرر کیوں کہ غالبیات کا رسیا تھا اس لیے موضوع کا بڑی حد تک حق ادا کیا گیا۔ سمینار کے فوری بعد مشاعرہ کا آغاز ہوا جس کی صدارت بھوپال کی مشہور شاعرہ ڈاکٹر نصرت مہدی نے کی۔ اس کے مہمان خصوصی خلیل الرحمن ہوئے۔ وقت کی کمی نے تمام مہمان شاعروں کو بھی محدود وقت میں کلام پیش کرنے کی ضرورت پر ا ٓمادہ کیا کیوں کہ اس کے بعد رسم گل پوشی اور عشائیہ کے تکلفات کو بھی پورا کرنا تھا۔ اس مختصر سے وقت میں بھی مقامی اور مہمان شاعروں نے مانچسٹر کے سامعین کو محظوظ کیا اور اپنی سکہ بند شاعری کا سکہ مشاعرہ بنام غالب میں چلادیا۔ہوٹل میں آرام کرکے دوسرے دن ناشتے کے بعد قافلہ برمنگھم کے لیے تیار ہوا۔ برمنگھم میں سمینار اور مشاعرہ فیض فائونڈیشن اور اقبال اکادمی کے باہمی تعاون سے قونصل ہائوز پاکستان میں منعقد کیا گیا۔ سمینار کا موضوع تھا ’’کیا یہ دور فیض کا ہے‘‘ سمینار کی صدارت بدرالدین بدر صاحب نے کی۔ قونصل پاکستان اسماعیل صاحب مہمان خصوصی تھے۔ تقی عابدی نے فیض پر مدلل کلیدی خطبہ پیش کیا۔ خلیل الرحمن اور فاطمہ حسن نے عمدہ نکات فیض فہمی بتائے۔
سمینار کے فوری بعد مشاعرہ کا آغاز پروفیسر شہاب ملک کی صدارت سے ہوا۔ برمنگلم کے عمدہ اور کہنہ مشق شاعر فاروق ساغر نے نظامت کی۔ مہمان خصوصی اور ا عزازی میں خلیل الرحمن، خواجہ اکرام الدین اور فاطمہ حسن شامل تھیں۔ بدرالدین صاحب تھکاوٹ کے باوجود شامل مشاعرہ رہے اور فاطمہ حسن صاحبہ کی نظم ’’فیض‘‘ سے متاثر ہوئے۔ صائمہ کامران نے اپنے منفرد لہجہ اور نسوانی جذبات سے محفل کو زعفرانی بنادیا۔ نصرت مہدی کی عمدہ بیانی مصرعوں میں خیالات کی روانی اور اس پر دلکش ترنم نے مشاعرے میں فتح کا ڈنکا بجادیا۔ خلیل الرحمن، عبدالرحمن عبد، محمد کامران اور تقی عابدی بھی مشاعرے کو گرماتے رہے۔
دوسرے دن تمام مہمان سانڈویچ اور چائے کھاپی کر لدن کی طرف موثر شاہراہ پر روانہ ہوئے جہاں قافلہ کا آخری فنکشن لدن کے Fitzroy House میں فیض کلچرل فائونڈشین کی جانب سے منعقد ہوا۔ اس فائونڈیشن کے روح رواں لندن کی ادبی، فلمی، سماجی شخصیت ایوب اولیا ہیں۔
سمینار میں وقت کی قلت کی وجہ سے صرف کلیدی گفتگو تقی عابدی نے ’’فیض کے کلام‘‘ پر کی اور لندن میں اردو کی دوسو سالہ تاریخ پر بھی روشنی ڈالی۔ ان کے بعد خلیل الرحمن نے ایک مختصر اور جامع طرز کی انہی مضامین پر عمدہ اور پر اثر بات چیت کی جسے پسند کیا گیا۔ اس کے فوری بعد مشاعرہ شروع ہوا جس کی صدارت ڈاکٹر عبدالرحمن عبد نے کی۔ مہمان خصوصی اور مہمان اعزازی میں خلیل الرحمن، فاطمہ حسن اور محمد کامران شامل تھے۔ تقریباً تمام شعرا اور شاعرات نے عمدہ پڑھے لکھے لندن کے سامعین سے داد سخن شناس حاصل کی۔
قافلے کے بعد اراکین کو ہیترو ایرپورٹ سے رخصت کرکے شہزاد ارمان اپنے مقام واپس لوٹے۔ راقم ڈاکٹر قیصر عباس کے ساتھ اپنے تحقیقی، تعلیمی، سماجی اور علمی کاموں میں مزید تین دن انگلینڈ میں رہا جس کا کوئی خاص تعلق ادبی قافلہ کے مسائل اور وسائل سے نہ تھا۔
ادبی قافلے میں موجود اراکین نے اپنی محنت اور لگن سے اس پروجیکٹ کو کامیاب بنایا۔ میں خصوصی طور پر ان سب خواتین و حضرات کا ممنون اور مشکور ہوں۔ پروگرام مسلسل ہونے سے زحمت تو ہوئی لیکن ا س پروگرام پر ہر قسم کی رحمت بھی سائبان بنی رہی۔ چنانچہ کوئی تکلیف دہ اور ناگوار مسئلہ پیش نہ آیا۔ راقم نے کسی اسوسی ایشن سے نہ مالی امداد طلب کی اور نہ ان کی کچھ مالی مدد کی۔ گزشتہ بیس سال سے اردو کانفرنسوں میں میرا اور ڈاکٹر عبدؔ کا اشتراک رہا ہے۔ چنانچہ کل اخراجات میں نے تقریباً ساٹھ فیصد اور ڈاکٹر عبدالرحمن عبدؔ نے چالیس فیصد آپس میں بانٹ لیے۔ ادبی قافلے کی کامیابی پر دل نے خدا کا شکر اور اردو پرستاروں کا شکریہ ادا کیا۔میں اس ادبی قافلے سے ایک ہفتہ قبل جواہر لال یونیورسٹی دہلی، خواجہ معین الدین چشی یونیورسٹی لکھنو، عبدالحق یونیورسٹی کرنول اور اعظم کیمپس پونہ وغیرہ میں کئی توسیعی لکچر دے چکا تھا۔ اس لیے بدنی اور ذہنی تھکن چہرے سے عیاں تھی۔ چنانچہ گھرواپس ہوتے ہوئے ٹیکسی کے آئینے میں جب اپنی تھکی آنکھوں کو دیکھا تو دل کی آواز بھی سنائی دی۔
کرنی پڑتی ہے رات دن محنت
آسان نہیں میرِ کارواں ہونا