اردو اخبارات کا کردار اور اداریہ کی پالیسی

شیخ فہیم اللہ
ایڈوکیٹ و ریسرچ اسکالر عثمانیہ یونیورٹی

اخبار میں اداریہ خبروں کی پالیسی کا نہ صرف ترجمان بلکہ جان ہوتی ہے ۔ جس سے اس کی انفرادیت معلوم ہوتی ہے ۔ اداریہ اخبار کیلئے ایک اہم عضو ہوتا ہے جو اخبار کا اپنا ایک مسلک ، عقیدہ ، رحجان اور کردار کیا ہے ۔ صحافت کا اصول یہ ہے کہ خبروں کو معروضی انداز میں پیش کیا جائے ۔ ان میں اپنی آواز کو پیش کیا جائے ۔ خبروں کا بنیادی وصف اس کی صحت ہے ۔ کسی واقعہ کا بے لاگ غیر جانبدارانہ اور دیانت دارانہ بیان خبر کہلاتا ہے ۔
صحافت میں اداریہ نویس کیلئے تجاویزات ضروری ہوتے ہیں (1) اداریہ نویس کو حقائق پوری ایمانداری سے پیش کرنا چاہئے ۔ کسی واقعہ کو توڑ مروڑ کر پیش نہیں کرنا چاہئے یا کسی شخص کی شبیہ خراب کرنے کی کوشش نہیں کرنا چاہئے ۔ (2) اداریہ نویس کو نہ تو کبھی ذاتی مفادات کی طرف مائل ہونا چاہئے اور نہ اپنے اور دوسروں کیلئے خصوصی فائدہ حاصل کرنے میں اپنے اثر کا استعمال کرنا چاہئے ۔ اسے بدعنوانی کے کسی معاملے میں بالاتر رکھنا چاہئے ۔ اس کا ذریعہ چاہے کچھ بھی ہو ۔ (3) اداریہ نویس کو یہ نہیں مان لینا چاہئے کہ وہ کبھی غلط ہوہی نہیں سکتا ۔ اس لئے اپنے اختیارات کے مطابق ان لوگوں کی آواز اٹھانی چاہئے جو اس سے متعلق نہ ہو ۔ (4) اداریہ نگاری میں دستیاب اطلاعات کی بنیاد پر خود کے نتائج کا برابر جائزہ لیتا رہے ۔ اگر اسے ایسا لگے کہ اس کا نتیجہ سابقہ غلط تصورات پر مبنی ہے تو اس میں ترمیم کرنے میں اسے بالکل جھجک نہیں ہونی چاہئے ۔ (5) اداریہ نگار کو چاہئے کہ وہ اپنے معاونین کی پیشہ وارانہ ایمانداری کے ا علی ترین معیارات کے تئیں ان کے اعتماد میں انہیں پورا تعاون دے کیونکہ اداریہ نگار کی ساکھ اس کے معاونین کی ساکھ ہے اور معاونین کی ساکھ اداریہ نگار کی ساکھ ہے ۔ (7) اداریہ نگار کے پاس پختہ خیال اور جمہوری فلسفہ زندگی کی جرات ہونی چاہئے ۔ اسے کبھی کوئی ایسا مضمون نہیں تحریر یا شائع نہیں کرنا چاہئے (7) ایک اچھا اور موزوں اداریہ تین حصوں پر مشتمل ہوتا ہے ۔ پہلے حصے میں موضوع یا مسئلہ کو بیان کیا جاتا ہے ۔ دوسرے میں اس کا تجزیہ ہوتا ہے اور تیسرے میں مسلہ کا حل پیش کیا جاتا ہے ۔
اداریہ میں 500سے ایک ہزار الفاظ تک ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ روزنامہ ہفتہ وار ، پندرہ روزہ اور رسالے کے اداریہ میں فرق ہوتا ہے ۔ جبکہ رسالے کا اداریہ پرانے مسائل کو اٹھاتا ہے ۔ اداریہ کے اندر حق گوئی اور بے باکی کا عنصر نمایاں رہنا ضروری ہے ۔ اداریہ میں حق گوئی اور بے باکی کا عنصر نمایاں رہنا ضروری ہے ۔ بزدلی سے لکھے جانے والے اداریہ کمزور اور بے اثر ثابت ہوتے ہیں۔ اس لئے اردوا خبارات بے لاگ اداریوں کیلئے خاص طور سے مشہور ہیں ۔ موجودہ دور میںعلوم و فنون کا دائرہ وسیع ہے ۔ تمام امور پر مہارت رکھنا شخصی واحد کیلئے مشکل ہے ۔ اس لئے نامور اخبارات میں اداریہ لکھنے کیلئے ماہرین کا عملہ ہوتا ہے ۔ جس کو ایڈیٹوریل بورڈ کہتے ہیں ۔ اس کا ہر رکن کسی نہ کسی مضمون کا ماہر ہوتا ہے اور روزانہ اخبار کے دفتر میں عام طور پر روزانہ ماہرین کے ساتھ ایڈیٹر کا تبادلہ خیال ہوتا ہے ۔ جس میں موضوع کا حل اور اداریہ نگار کا انتخاب ہوتا ہے ۔ جس سے موضوع پر کونسی پالیسی اپنائی جائے اس میں مدد ملتی ہے ۔
انگریزی پریس میں پہلے صفحہ پر اداریہ شاذ و نادر اور بہت ہی غیر معمولی واقعہ پر دیا جاتا ہے ۔ لیکن یوروپی ممالک میں یہ بہت عام ہے ۔ خاص طور پر اٹلی اور فرانس میں ایک قومی اور بین الاقوامی حالات پر جبکہ دوسرا مقامی مسائل اور واقعات پر ہوتا ہے دیگر زبانوں کے اخبارات کے اداریوں میں بڑا موضوعاتی تنوع پایا جاتا ہے ۔ اس کے مقابلے میں اردو اخبارات کے اداریوں پر نظر ڈالے تو بڑی مایوسی ہوتی ہے اردو اخبارات کے اداریوں سے مسائل مشرقی وسطی اور اردو کو نکال دیا جائے تو کچھ بچتا نہیں ہے ۔ لیکن یہ بھی سچائی ہے کہ دیگر زبانوں کے اخبارات کے متعصبانہ رویہ کی وجہ سے ان امور پر اردو اخبارات کے اداریہ کافی معلوماتی اور بے لاگ ہوتے ہیں۔ اردو اخبارات میں اداریوں کے موضوعات کے انتخاب اور دیگر امور میں تنگ دامنی کیلئے زیادہ تر ایڈیٹروں کو نہ تو مورد الزام ٹھہرایا جاسکتا ہے اور نہ ہی ان کی صلاحیت پر سوالیہ نشان لگایا جاسکتا ہے ۔ جو طبقہ اردو اخبارات خرید کر پڑھتا ہے اس کی ذہنیت کے مطابق وہ اداریوں کے موضوعات کا انتخاب کرتے ہیں ۔ اردو اخباروں میں عام طور پر اداریہ مضمون کالم ، فیچر وغیرہ میں فرق نہیں کیا جاتا ۔ ایسا نہیں ہے کہ اردو کے تمام صحافی ان کے اصولوں سے ناواقف ہیں بلکہ سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مالکان اچھی تنخواہ پر باصلاحیت صحافی نہیں رکھتے ۔ ان کی نظر کام چلاؤ پر ہوتی ہے ۔ ورنہ جہاں اچھا سرمایہ لگاکر باصلاحیت صحافیوں کو رکھا گیا ہے ۔ وہاں اخبار اور اداریہ کا معیار بلند ہوتا ہے ۔ دیگر اخباروں اور اردو اخباروں کی تربیت و سہولیات میں بہت زیادہ فرق ہوتا ہے ۔ زیادہ تر اردو اخباروں کے مدیروں کی تنخواہ اتنی بھی نہیں ہوتی ۔ جتنی دوسری زبانوں جیسے انگریزی اخبار کے ا ٹنڈر کی ہوتی ہے ۔ اخباروں سے مقابلہ کرنے میں اردو اخباروں کے مالکان شرم محسوس نہیں کرتے ہیں اور ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اردو اخباروں میں ادارتی صفحہ کو کمتر اور معمولی سمجھا جاتا ہے ۔ اسے کسی ایسے کمزور صحافی یا صرف آپریٹر کے حوالے کردیا جاتا ہے ۔ جس کا مقصد کسی طرح صفحہ سیاہ کرنا ہوتا ہے ۔ دسری زبانوں کے ا خبارات میں اس صفحہ کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہوتی ہے ۔ کیونکہ یہ افکار اور نظریات پر مشتمل ہوتا ہے ۔ وہاں اس کا خیال رکھا جاتا ہے کیا شائع کیا جاتا ہے کیا نہیں ۔ اس صفحہ کو ایڈیٹر ، نائب ایڈیٹر اور جوائنٹ ایڈیٹر درجہ کا صحافی دیکھتا ہے ۔ اس کی اہمیت اس بات سے لگائی جاسکتی ہے کہ New York Times کے ادارتی صفحہ کا الگ ایڈیٹر ہوتا ہے اور وہ براہ راست اس کے ناشر کو جواب دہ ہوتا ہے ۔ انگریزی اخبارات میں اتنی وسعت آگئی ہے کہ محتلف افکار و نظریات اور پہلوؤں پر مبنی تجزیاتی مواد کو اتنی اہمیت دی جاتی ہے کہ اس کیلئے ذاتی صفحہ کے سامنے ایک اور صفحہ کا اضافہ کردیا جاتا ہے ۔ جس کو Editional Of Opposite کہا جاتا ہے ۔ اس میں باہر کے اخبار کے اندر کے قلمکار ، کالم نگار اور مضامین کے ماہرین آزادانہ طور سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور حالات و واقعات کا تجزیہ کرتے ہیں ۔ نیو یارک ٹائمز میں کالم نگاروں کی اپنی ٹیم ہوتی ہے ۔ بلکہ برطانیہ میں غیر دستخطی شدہ کالم یعنی اداریہ کو Loading Article کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ جبکہ آسٹریلیائی اور بڑے امریکی اخباروں جیسے نیو یارک ٹائمزاور بوسٹن گلوب میں ادارے کو Openion سے موسوم کیا جاتا ہے ۔ صنعتی مقابلہ آرائی تو اداریہ کی تعریف ہی بدل کر رکھ رہی ہے ۔ مدیر کی اصل فکر اور تخلیقات کے بجائے انتظامیہ کی بازار پر مبنی سوچ غالب آنے لگتی ہے ۔ بچن سنگھ کے الفاظ کے مطابق اخبارات و رسائل اپنے قارئین کی تعلیم و تربیت کرنے کا طاقتور ذریعہ نہیں سونے کا انڈا دینے والی مرغیاں بنتے جارہے ہیں۔ آج کل مدیران کا سب سے بڑا مسئلہ اپنے مالکوں کو خوش رکھنے کا ہے ۔ کئی ایسے اہم واقعات رونما ہوئے ہیں جس میں کا نامی گرامی مدیروں کو اپنے عہدوں سے صرف اس لئے برطرف کردیا گیا کہ انہوں نے اخبار کے مالکان کی پالیسی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا ۔ اداریہ میں عصری حالات کے رخ موڑنے کی بے پناہ صلاحیت ہوتی ہے ۔ یہ ایک آئینہ ہی نہیں بلکہ ایک تیز ہتھیار بھی ثابت ہوسکتا ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ اداریوں کی وجہ سے کئی حکومتیں تہہ و بالا ہوئی ہیں اور زندگی کے کئی شعبوں میں انقلاب آیا ہے ۔
صحافت کی قدیم روایات کے مطابق اخبار کا اداریہ نگار عوام کے ضمیر کا پاسبان سمجھا جاتا رہا ہے ۔ اچھے اور برے کی تمیز کی جانب اشارہ دینا اداریہ نگار کا اخلاقی فریضہ ہے اور اداریہ نگار کسی بات کی حمایت کرتا ہے تو اطمینان بخش ثبوت اور دلائل کے ساتھ اور اسی طرح کسی بات کی کھل کر مخالفت کرتا ہے ۔ اداریہ نگار ثنا خواں ہو یا جنگجو اس کا ہرفعل ایک دانشورانہ فعل سمجھا جاتا ہے ۔ اقدار کی حفاظت کرنا وہ اپنی اخلاقی پابندی تصور کرتا ہے ۔ کبھی وہ مذہبی پیشواء کی طرح تلقین کرتا ہے اور کبھی قانون دان یا ائینی علوم کے باہر کی طرح معاملہ بنیادی اہمیت کی تشریح کرتا ہے ۔ اداریہ کی سرخی بہتر اور صحافیانہ تحریر کی طرح ابتدائیہ جملے کافی دلکش ہوں اور عام شاہدہ ہے کہ بہت کم قارئین اداریہ پڑھتے ہیں اور کچھ قارئین ایسے ہیں جو اداریہ پڑھے بغیر چین نہیں لیتے ۔ جن میں تعلیم یافتہ لوگ ادارے پڑھنے کے عادی ہوتے ہیں ۔ ہندوستان میں آج بھی اداریہ کافی طویل ہوتے ہیں ۔ بلکہ مغربی ممالک میں مختصر اداریوں کا رواج عام ہوتا جارہا ہے ۔ اس کیلئے موضوع کا انتخاب بھی ایک اہم مرحلہ ہے ۔ آج تک کسی ماہر نے یہ ہدایت نہیں دی ہے کہ اداریہ کا ایک ادبی شاہکار ہونا ضروری ہے ۔ اس کا عین مقصد بھی خبر کی تشریح اور کسی معاملہ کی وکالت ہے ۔ دوسروں کی مدد اور تعاون کئے بغیر کوئی ادارہ دنیا میں سرخرو نہیں ہوسکتا ۔ حکومتوں کی جانب سے قوانین بنتے ہیں ۔ مذہبی پیشوا ، اخلاقی تعلیم کے اصول واضح کرتے رہتے ہیں ۔ تعلیمی اداروں کے ذریعہ علم و عمل کی ہدایات جاری ہوتی رہتی ہیں ۔اخبارات ایسے متعدد اداروں سے تعاون کرتے ہیں اور زندگی کی قدروں کی سرپرستی کرتے ہیں ۔ اداریہ اخبار کا آلہ ہے ۔ جس کے صحیح استعمال سے حیات کے ہر شعبہ کی نگرانی ، حمایت اور تعاون ممکن ہے ۔ اداریہ ہیت ’’ ہم ‘’ ’’ ہماری رائے ‘‘ ہمارے خیال میں جیسے الفاظ کا استعمال کرتا ہے یہ کسی شخص کا تحریرکردہ ہویا عملہ اداریہ کے متعدد صحافیوں کی کاوش کا نتیجہ ہو ۔ وہاں لفظ ہم ، ہی درج ہوگا ۔ اسے صحافتی اصطلاح میں ایڈیٹوریل وی Editorial We کہتے ہیں اداریہ کو کبھی انفرادی طور پر شائع نہیں کیا گیا ہے ۔